0
Thursday 8 Oct 2015 20:17

بلوچستان کی پسماندگی میں وفاق سمیت صوبے کے اپنے لوگ بھی ذمہ دار ہیں، ممنون حسین

بلوچستان کی پسماندگی میں وفاق سمیت صوبے کے اپنے لوگ بھی ذمہ دار ہیں، ممنون حسین
اسلام ٹائمز۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری سے بھارت سمیت کئی ممالک کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے لیکن یہ منصوبہ ہر صورت مکمل ہوگا اور اس سے سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کو ہوگا۔ ملکی دولت لوٹنے والوں کا احتساب ہونا چاہیئے۔ بدعنوانی کا خاتمہ کئے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ پاک چین اقتصادی راہداری عظیم الشان منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے مکمل ہونے سے بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ ہوگا۔ ملک کو بھی ترقی ملے گی اور خطے میں خوشحالی کا دور شروع ہوگا۔ بلوچستان میں پسماندگی کا ذمہ دار صرف وفاق نہیں بلکہ یہاں کے لوگ بھی ہیں۔ ہمیں ملکر صوبے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔ اقتصادی راہداری سے سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کو ہوگا۔ منصوبے کے روٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جارہی۔ پاک چین اقتصادی راہداری سے بھارت سمیت بہت سے ممالک کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے۔ بھارت ایران کی چاہ بہار بندرگاہ پر پندرہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے تیار ہے۔ امن و امان کے قیام کیلئے بعض اوقات حکومت نرمی سے کام لیتی ہے۔ دہشت گردوں کا ہتھیار ڈالنا سہولت کاروں کی گرفتاری سے زیادہ اہم ہے۔ کوئٹہ آمد کے بعد مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں ہوئیں اور یہ خوش آئند عمل ہے کہ یہاں بہتری کی جانب اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت بہت سے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ جن میں پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جس کی تکمیل کے بعد گوادر پورٹ گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ، مختلف موٹر ویز کی تعمیر شامل ہے۔ اس وقت اقتصادی راہداری سے منسلک جن موٹر ویز کی تعمیر کی منظوری دیدی گئی ہے، ان میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ پاکستان کیلئے اللہ تعالٰی کی جانب سے ایک تحفہ ہے۔ ملک کو کرپشن اور بدعنوانی نے دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے اور میں ہمیشہ سے لوگوں سے اپیل کرتا رہا ہوں کہ وہ بدعنوانی کیخلاف جہاد کرے۔ ماضی میں نہ صرف حکمران بلکہ مختلف شعبوں کے لوگوں نے بھی ملک کو نقصان پہنچایا اور آج کرپشن کو زندگی کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔

صدر مملکت ممنون حسین کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں جس طرح کرپٹ لوگوں کا ساتھ ترک تعلق کیا جاتا تھا۔ ہماری خواہش ہے کہ وہ وقت واپس آجائے اور ہم دنیا کو دکھائیں کہ کرپشن سے پاک معاشرہ کیسا ہوتا ہے۔ کرپشن کیخلاف رویئے تبدیل نہ کئے گئے تو ہم بدحالی کا شکار ہوجائیں گے۔ پہلے ہی ہمارے ملک کو بدعنوانی نے بہت نقصان پہنچایا۔ اب ہمیں اس کیخلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ یہاں حکومت سے ملازمتوں کے تقاضے کئے جاتے ہیں اور اگر ہم محض ملازمتیں دینے پر توجہ مرکوز رکھتے تو ادارے مزید زبوں حالی کا شکار ہونگے۔ پی آئی اے میں اس وقت 15 ہزار سے زائد ملازمین ہیں۔ جبکہ اسٹیل ملز کی بھی یہی صورتحال ہے۔ اگر ہم سٹیل مل کو بند کرکے ملازمین کو گھر بیٹھے تنخواہیں دیں تو شاید اتنا نقصان نہ ہوتا جتنا ہم اسے چلانے پر برداشت کررہے ہیں۔ اگر ہم نے چیزوں کو درست سمت میں نہ دیکھا تو یہ مسائل کا سبب بنیں گی۔ اب جذباتی تقریروں کا وقت نہیں، کیونکہ محض تقاریر سے ملک نہیں چلتا۔ اقتصادی راہداری سے ملک اور بلوچستان کا مستقبل وابستہ ہے۔ ہمیں ان رویوں کی سختی سے مخالفت کرنا ہوگی، جو اقتصادی راہداری میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ یہاں اقتصادی راہداری سے متعلق واویلا کیا گیا۔ مگر ہم نے تمام سیاسی جمہوری قوتوں کے تحفظات کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ اقتصادی راہداری میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جارہی۔ اب وہ وقت نہیں کہ ہم لوگوں کو گمراہ کرے۔ ہمیں اپنے عوام کو سچ بتانا ہوگا۔ اقتصادی راہدای منصوبے کے تحت اٹامک گیس، کوئلے اور تیل سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے زیرغور ہے۔ 2016ء میں 3 ہزار جبکہ 2017ء میں 7 ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی۔ 2018ء میں ہمیں پورا امید ہے کہ یا تو ہم لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیں گے یا تو اس میں بڑی حد تک کمی آ جائیگی۔ گذشتہ پانچ سالوں میں غیرملکی قرضہ جات میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے، مگر اس کے پیش نظر ترقیاتی منصوبے نہ ہونے کے برابر تھے۔

صدر مملکت ممنون حسین نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت نے ترقیاتی منصوبوں پر توجہ مرکوز کی، مگر جو لوگ آج دعوے کرتے ہیں ان پر تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے دوراقتدار میں ملک کس قدر قرضوں میں ڈبو دیا۔ ہر معاملے پر وفاق کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ بلوچستان کے پیچھے رہ جانے میں یہاں کے لوگ بھی شامل تھے۔ صرف چند لوگوں پر ذمہ داری عائد نہ کی جائے۔ جس طرح اقتصاداری راہداری کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے سنجیدگی سے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ اس پر بھارت سمیت بہت سے ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے۔ گوادر اور اکنامک کوریڈور کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک پاکستان میں مکمل طور پر کام شروع نہیں ہوا لیکن سینٹرل ایشیاء ممالک نے ابھی سے شاہراہوں کی تعمیر شروع کردی ہے۔ اقتصادی راہداری کی تکمیل سے متعلق ٹائم فریم جلد سامنے آجائے گا اور یہاں چینی انجینئرز اور عملے کی بڑی تعداد کام کرنے آئے گی۔ جنہیں سیکورٹی فراہم کرنے کیلئے پاک فوج کے ایک ڈویژن فوج مامور کی جائے گی۔ بلوچستان کے معاملات کو وفاقی حکومت سے زیادہ صوبے کی حکومت جانتی ہے کہ ماضی میں یہاں کون مزاحمت کو معاونت فراہم کرتا رہا۔ مگر یہ خوش آئند امر ہے کہ آج مزاحمت کار خود ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ بعض اوقات امن کے قیام کیلئے حکومتوں کو نرم رویئے اختیار کرنے پڑتے ہیں، ہمیشہ سزائیں مسائل کا حل نہیں ہوتی۔
خبر کا کوڈ : 489657
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش