0
Wednesday 26 Sep 2018 15:57

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس، صوبے بھر میں بی ایس پروگرام پر عملدرآمد کا مطالبہ

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس، صوبے بھر میں بی ایس پروگرام پر عملدرآمد کا مطالبہ
اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس چالیس منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسٰی خیل کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے پوائنٹ آف آرڈر پر ایوان کی توجہ بی ایس پروگرام کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال بلوچستان بھر میں بی اے اور بی ایس سی ختم کرکے بی ایس پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس پر پورے صوبے میں عملدرآمد ہوا، مگر اچانک گذشتہ روز ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا، جس کے تحت صوبے کے 74 میں سے اب صرف 18 کالجز میں بی ایس پروگرام کے تحت کلاسز ہوں گی۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر یہ فیصلہ کرکے طلبہ کے مستقبل کے خطرات سے دوچار کردیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر عبدالخالق ہزارہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر دس فیصد بھی عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے اٹھارہ پوائنٹس پر عملدرآمد سے ہر قسم کی دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ خطے کی موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ تمام ادارے اور حکومت ایک پیج پر ہوں۔ دہشتگردی سے ہزارہ قوم سب سے زیادہ متاثر رہی ہے، ہم نے سب سے بڑے سانحے کا سامنا کیا ہے۔ بسوں سے ہمارے لوگوں کو اتار کر شناخت کرکے انہیں قتل کیا گیا۔ سانحہ پی ٹی سی اور سول ہسپتال کے واقعے میں ہماری ریڑھ کی ہڈی پر وار کئے گئے۔ 2012ء میں بارہ دنوں کے اندر ہزارہ قبیلے کے 31 افراد کو شہر کے بیچ مصروف شاہراہوں پر قتل کیا گیا، مگر اس وقت ایوان میں بیٹھے لوگوں کی توجہ اس جانب نہ ہونے سے مسائل میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ اس نے نہ صرف ایک مسلک یا زبان نہیں بلکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگنے سے یقیناً صوبے میں دہشتگردی کا خاتمہ اور بیرونی مداخلت کو روکا جاسکے گا۔ لیویز اور ایف سی سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشتگردی کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہوئے ملک میں قیام امن کو یقینی بنایا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی قربانیوں پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں تاہم ضروری ہے کہ بیرونی ایجنڈوں کو عوام کے سامنے لایا جائے، تاکہ عوام کو صورتحال اور محرکات سے باخبر رکھا جا سکے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ دہشتگردی کا نشانہ بننے والے شہداء کے ورثاء کو معاوضہ دیا جائے۔ دہشتگردی کی حمایت کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، تاہم دہشتگردی کے نام پر معصوم لوگوں کو ہراساں کرنا مناسب عمل نہیں۔ بین الاقوامی دہشتگردی نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس کی آڑ میں مسلم ممالک کو کمزور کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ دہشتگردی نے افغانستان، عراق، لیبیا اور فلسطین کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم سب کے سامنے عیاں ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی پارلیمنٹ اور باشعور عوام کو سوچنا ہوگا کہ ترکی اور پاکستان دونوں بین الاقوامی دہشتگردوں کی نظروں میں ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ ہمارے ہاں سیاسی وسماجی مسائل بہت زیادہ ہیں۔ 34 ارب روپے ہر سال امن وامان کے لئے مختص کئے جاتے ہیں۔ فی کس اخراجات 2835 بنتی ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ امن وامان پر صوبہ بلوچستان میں فنڈز خرچ ہوتے ہیں۔ اگر تعلیم اور صحت پر توجہ دی جاتی تو یہاں حالات بہتری کی طرف جاتے۔ بیروزگاری میں اضافہ اور لوگوں کو صاف پانی میسر نہ ہونا بھی لوگوں کو اسلحہ اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ معاشرے میں ہونے والی ناانصافیاں ہیں۔ بلوچستان میں بیرونی مداخلت بھی موجود ہے۔ اب ہمیں معاشی طور پر بلوچستان کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب یہاں فوڈ سیکورٹی، ہیلتھ سکیورٹی اور تعلیمی سکیورٹی کا مسئلہ ہو تو امن وامان کیسے بہتر کرسکتے ہیں۔؟ لیویز کے لئے صوبائی کابینہ نے 8 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ اگر یہ آٹھ ارب روپے بلوچستان کی تعلیمی بہتری اور فوڈ سکیورٹی کے لئے خرچ کرتے تو صورتحال بہتر ہوتی۔ اس وقت 66 فیصد بچے بھوک سے مرتے ہیں اور دہشتگردی سے دس فیصد لوگ مرتے ہیں۔ ثناء بلوچ کا کہنا تھا کہ مشرف کے دور میں گیارہ ارب روپے پولیس و لیویز کے لئے مختص ہوئے۔ ان میں چھ ارب روپے سیمنٹ، سریا اور دوسرے کاموں پر خرچ ہوا، مگر آج بھی جہاں جہاں چیک پوسٹیں ہیں، ان کی حالت بہتر نہیں ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ و قبائلی امور میر سلیم کھوسہ نے بحث سمیٹتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ پشین اور قلعہ سیف اللہ میں حالیہ پیش آنے والے دہشتگردی کے واقعات کی تحقیقات میں پیشرفت ہوئی ہے۔ چند لوگ گرفتار کرلئے گئے ہیں، مزید تفتیش کا عمل بھی جاری ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر سو فیصد عملدرآمد سے امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئے گی۔ سی پیک کے حوالے سے نیشنل پروٹیکشن یونٹ لیویز کے حوالے کیا جائے گا۔ کوئٹہ شہر میں سیف سٹی پروجیکٹ پر آئندہ چند ہفتوں میں باقاعدہ کام شروع ہو جائے گا، جس کے تحت کوئٹہ شہر میں چودہ سو کیمروں کی تنصیب کی جائے گی۔ اجلاس 28 ستمبر تک ملتوی کر دیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 752335
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش