0
Saturday 17 Nov 2018 10:36

فاٹا انضمام کے بعد ایشیا کی سب سے بڑی اسلحہ مارکیٹ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا

فاٹا انضمام کے بعد ایشیا کی سب سے بڑی اسلحہ مارکیٹ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا
اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے آدم خیل میں جہاں اسلحے کی قیمت موبائل فون سے بھی کم ہے، تاریخی حثیت رکھنے والے اس علاقے کے زیادہ تر لوگ اسلحہ سازی کے پیشے سے وابستہ ہیں، لیکن فاٹا انضمام کے بعد یہاں کے مکین اس کام کو جاری رکھ سکیں گے یا نہیں؟ اس کشمکش نے انہیں پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ درہ آدم خیل پشاور سے تقریبا 30 کلومیڑ کے فاصلے پر خوبصورت پہاڑوں کے درمیان واقع ہے، یہاں ذیادہ تر افراد اسلحہ سازی سے وابستہ ہیں، درہ بازار اور گرد و نواح میں اسلحے کی سینکڑوں دوکانیں اور کافی تعداد میں آرمز فیکٹریاں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسلحے کی یہ ایشیا میں سب بڑی مارکیٹ ہے۔
Related image
یہاں ناصرف درہ آدم خیل اور خیبر پختونخوا بلکہ پنجاب اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے افراد محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے یہ محنتی کاریگر جدید مشینری کی عدم دستیابی کے باوجود ہر قسم کے ہتھیار انتہائی مہارت کے ساتھ بناسکتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے کاریگروں کا دعویٰ ہے کہ وہ یورپی، امریکی اور روسی ساختہ سمیت دنیا بھر کی کسی بھی بڑی کمپنی کے بنائے گئے اسلحے کا نمونہ دیکھ کر اس کی نقل انتہائی کم قیمت میں بنا سکتے ہیں۔ مثلاََ 2 لاکھ کی قیمت والی پستول صرف 25 ہزار میں فروخت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلحے کے شوقین ملک بھر سے خریداری کیلئے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔

اسلحے بنانے والے کاریگر عابد خان کا کہنا ہے کہ چند سال قبل تک یہاں پر بڑی تعداد میں غیر ملکی بھی خریداری کیلئے آتے تھے جو ان کے کام کوبے حد پسند بھی کرتے تھے، لیکن دہشت گردی نے اسلحہ کی صنعت کو کافی نقصان پہنچایا۔ سال 2005ء میں بدامنی شروع ہونے کے بعد زیادہ تر کارخانے بند ہوگئے، جس کے باعث وہ فاقوں پر مجبور ہوگئے اور اس دوران بیشتر کاریگروں نے دوسر ے کاروبار شروع کئے، جبکہ کئی افراد نے اپنی مشینریاں اور اوزار بیچ کر اپنے گھر کا خرچہ چلایا۔

کاریگروں کے بقول وہ اس کام کے علاوہ کوئی اور ہنر جانتے ہیں نہ ہی کوئی اور کام کرسکتے ہیں۔ وہ بچپن سے ہی اس پیشے سے وابستہ ہیں اور یہاں محنت کرنے سے ان کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں لیکن اب انضمام کے فیصلے نے انہیں تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ درہ آدم خیل کے مرکزی بازار میں اسلحے کا کاروبار کرنے والے حاجی فہیم اللہ آفریدی کا کہنا ہے کہ کافی عرصے بعد یہاں کے حالات بہتر ہو گئے ہیں لیکن اب انہیں معلوم نہیں کہ صوبے میں ضم ہونے کے بعد وہ اپنے آباؤ اجداد کے اس کام کو جاری رکھ سکیں گے یا نہیں؟

حاجی فہیم کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس صنعت کی جانب توجہ دے اور یہاں ماہر کاریگروں کی حوصلہ افزائی کرے تو وہ ملکی معیشت میں بہتری کیلئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 761680
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش