0
Sunday 5 Jun 2011 07:27

صدر زرداری کو قتل کرنے کی سازش ناکام بنا دی گئی، حاکم علی زرداری کی عیادت کے دوران پمز کو اڑانے کا منصوبہ تھا

صدر زرداری کو قتل کرنے کی سازش ناکام بنا دی گئی، حاکم علی زرداری کی عیادت کے دوران پمز کو اڑانے کا منصوبہ تھا
اسلام آباد:اسلام ٹائمز۔ پولیس حکام کے مطابق اسلام آباد پولیس نے صدر آصف زرداری کو قتل کرنے کی سازش ناکام بنا دی، سینئر حکام نے دی نیوز کو انکشاف کیا کہ اس منصوبے میں 42 رکنی سکواڈ ملوث تھا جس کے بیشتر ارکان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، اس وقت اُن سے تفتیش کی جا رہی ہے جبکہ پولیس بھی باقی لوگوں کی گرفتاری کیلئے سرگرم تعاقب میں ہے، تحریک طالبان پاکستان کے 42رکنی تربیت یافتہ خطرناک دہشت گردوں نے اسامہ بن لادن کی موت کا بدلہ لینے کیلئے صدر زرداری کو اپنے بیمار والد کی عیادت کے دوران پمز کی عمارت کو دھماکے سے اڑا کر ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن سکیورٹی فورسز نے 13مئی کو ہسپتال کی حدود سے 4دہشت گردوں کو گرفتار کر کے منصوبے پر عمل درآمد سے پہلے اسے ناکام بنا دیا، یہ دہشت گرد گروپ جسے پمز کی حدود میں صدر زرداری کو ہلاک کرنے کا کام سونپا گیا تھا 10خودکش بمباروں پر مشتمل تھا جنہوں نے خود کو خودکش جیکٹوں سے اڑا لینا تھا تاکہ صدر کے اس حملے کے دوران بچنے کا امکان نہ رہے، بتایا جاتا ہے کہ پمز کی مکمل عمارت کو تباہ کرنے کا منصوبہ اس لئے بنایا گیا کہ ماسٹر مائنڈ نے صدر کو کسی بھی طرح ہلاک کرنے کیلئے کوئی چانس نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ دہشت گرد گروپ ملکی تاریخ کے اس بدترین دہشت گرد حملے میں ممکنہ طور پر ہلاک ہونیوالے معصوم لوگوں جن میں مریض، لواحقین، تیمار دار اور ہسپتال کا عملہ شامل ہوتے کا خون بہانے کی کوئی پروا نہ کرتے، لیکن بتایا جاتا ہے کہ اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسی نے اس خوفناک منصوبے کا سراغ لگا لیا اور ہسپتال کی حدود سے گینگ کے 4 ارکان گرفتار کر لئے، جہاں وہ حملے کی منصوبہ بندی میں مشغول تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس اداروں نے صدر زرداری کو پمز کا دورہ کرنے سے روک دیا تاکہ کسی بھی نقصان سے بچا جا سکے۔
 ”دی نیوز“ کی طرف سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیوں کو 13 مئی کو اطلاع ملی کہ القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان نے صدر زرداری کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور پھر ان پر پمز میں اس وقت حملہ کیا جائے گا، جب وہ وہاں اپنے بیمار والد حاکم علی زرداری کی عیادت کیلئے جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی مہمند ایجنسی کے نائب امیر قاری شکیل کو  42 رکنی دہشت گرد گروپ کی قیادت سونپی گئی، ابتدائی مرحلے میں ٹی ٹی پی کے 4 ارکان کے گروپ کو مزدوروں کے بھیس میں ریکی کے لئے پمز میں تعینات کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق پمز کی سکیورٹی بڑھا دی گئی اور ہسپتال کے اندر اور ارد گرد پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار تعینات کر دیئے گئے۔ ذرائع نے بتایا کہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے ڈی آئی جی آپریشنز بنی امین خان کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطح کی ٹیم تشکیل دی گئی۔ ہر طرح کا تعمیراتی کام روک دیا گیا اور 8 مزدوروں کو مزید تفتیش کے لئے حراست میں لے لیا گیا اور پولیس نے اُن کے موبائل فون قبضے میں لے لئے، موبائل فون کمپنیوں سے حاصل کردہ ٹی ڈی آر کے مطابق ان کے دہشت گردوں سے رابطوں کی تصدیق ہو گئ۔
 کیس کی تفتیش میں مصروف اسلام آباد پولیس کے ایک اعلیٰ افسر سے جب ان کے کمنٹس کے لئے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رپورٹ کی تصدیق کی اور کہا ”پولیس کے تفتیش کاروں نے قتل کی سازش میں ملوث افراد کو حراست میں لے لیا ہے، یہ سب اتنا تیزی سے ہوا کہ تفتیش شروع ہوتے ہی چند گھنٹوں میں درجنوں افراد کو پکڑا گیا۔ افسروں نے انکشاف کیا کہ اگرچہ ہم نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے سیکڑوں مشتبہ افراد کو پکڑا لیکن ان میں سے 2 افراد ٹی ٹی پی کے اہم رہنما نکلے۔ افسروں نے تصدیق کی کہ دہشت گردوں نے اُس وقت پمز ہسپتال کو اڑانے کا منصوبہ بنایا تھا جب صدر زرداری اُس عمارت میں داخل ہوتے۔ افسر نے اس بات کی تصدیق کی کہ پمز ہسپتال کو اڑانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا، جب صدر زرداری اس عمارت میں داخل ہوتے۔ افسر نے اس بات کی تردید کی کہ پمز ہسپتال کی تلاشی کے دوران کوئی خودکش جیکٹ برآمد ہوئی، تاہم انہوں نے کہا کہ صدر آصف زرداری کے قتل کی سازش میں ملوث نیٹ ورک ٹوٹ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 42 رکنی گروپ اس منصوبے میں شامل تھا جن میں سے اکثر مشتبہ افراد کو پکڑا جا چکا ہے اور باقیوں کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ 
ذرائع نے ایک دہشت گرد لیڈر کی دوسرے کے ساتھ گفتگو کا حوالہ دیا جو یہ ہے ”ہسپتال کی سکیورٹی بڑی سخت ہے کیوں نہ پوری بلڈنگ ہی اڑا دی جائے۔“ذرائع کے مطابق کئی اطراف سے خودکش بمباروں کے ذریعے حملے کر کے پوری عمارت کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد شمال مغربی علاقے میں القاعدہ اور ٹی ٹی پی قیادت کے کچھ گروپوں کی میٹنگ ہوئی تھی، جس میں اس کی موت کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس میٹنگ میں کمانڈر جنون حفضہ، عصمت اللہ معاویہ اور قاری ظفر گروپ کے کچھ دہشت گرد بھی شریک ہوئے تھے۔ اجلاس میں ملک بھر میں بڑے پیمانے پر دہشت گرد کاروائیوں کا فیصلہ کیا گیا۔ شرکاء نے میڈیا میں طالبان کے خلاف جانبدارانہ رپورٹنگ پر سخت آزردگی کا اظہار کیا اور کچھ میڈیا اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ذرائع نے ایک خفیہ ایجنسی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دی نیوز کو بتایا کہ ٹی ٹی پی نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا بدلہ لینے کیلئے دہشت گرد حملوں اور خودکش دھماکوں میں اضافے کا عہد کیا ہے اور اس کے لئے مختلف گروپوں کو ان کے اہداف دیئے گئے ہیں۔ ٹی ٹی پی قیادت کی طرف سے اس فیصلے کے بعد مختلف گروپوں کو ان کے اہداف کے ساتھ اسلام آباد، راولپنڈی، مری، کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں بھیجا گیا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ اعلیٰ شخصیات، اعلیٰ فوجی عہدیدار اور اہم تنصیبات ان اہداف میں شامل ہیں، مہمند ایجنسی کے نائب امیر قاری شکیل کو صدر زرداری کے قتل کی ذمہ داری دی گئی، ذرائع نے انکشاف کیا کہ ٹی ٹی پی (عصمت اللہ معاویہ گروپ) کو جی ایچ کیو، چکلالہ گیریژن، سی او ڈی، اے ایس اینڈ آر سی رولپنڈی، پی او ایف واہ اور پی اے ایف بیس چکلالہ پر حملوں کے اہداف دیئے گئے ہیں، منصوبے پر عمل درآمد کے لئے انہوں نے عبداللہ ولد عبدالرحمن سکنہ رینال چکدرہ، تیمرگرہ، ضلع لوئر دیر، ذاکراللہ ولد زرکین خان سکنہ ایضاً، حبیب الرحمن عرف حذیفہ سکنہ تھاکوٹ ڈاکخانہ چلاس دیامر اور حبیب الرحمن کے ایک نامعلوم دوست کو راولپنڈی، اسلام آباد بھیجا، اسی گروپ کو چکلالہ میں ڈی جی آئی ایس آئی ہاؤس پر حملے کا ٹارگٹ بھی دیا گیا، کراچی اور اردگرد میں دہشت گرد حملوں کے لئے کمانڈر سید ملنگ اور فکر مند کی سربراہی میں دہشت گردوں کا ایک گروپ کراچی بھیجا گیا۔
 ذرائع نے مزید بتایا کہ ایک اور گروپ جس کی قیادت ٹی ٹی پی کمانڈر روح اللہ اور کمانڈر حضرت کو دی گئی 3 مزید افراد 27 سالہ تازہ خان اور 2 نو عمر لڑکوں کے ساتھ راولپنڈی، اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا تاکہ فوجی تنصیبات، اہم عمارتوں اور ڈپلومیٹک انکلیو پر حملے کئے جا سکیں۔ ایوان صدر اور صدر زرداری کی سکیورٹی کسی ممکنہ حملے کے پیش نظر مزید بڑھا دی گئی ہے۔ صدر کے سکیورٹی سکواڈ کو معاون دستہ بھی حاصل ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ زرداری کے وفا دار گارڈ ان کی ذاتی سکیورٹی میں شامل کئے گئے ہیں، کیس کی تفتیش میں مصروف ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے بتایا، ہم اس قتل کے منصوبے کے ماسٹر مائنڈ کے قریب پہنچنے والے ہیں، اس منصوبے کے سبھی کرداروں کو پکڑنا اب دنوں کا معاملہ ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈی آئی جی آپریشنز کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کی پولیس ٹیم کیس کی تفتیش کر رہی ہے جبکہ انٹیلی جنس اور تحقیقاتی ایجنسیاں بھی الگ طور پر تحقیقات کر رہی ہیں۔

خبر کا کوڈ : 76866
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش