0
Saturday 12 Jan 2019 11:25

کراچی، سالِ گذشتہ 2018ء میں بھی کار لفٹنگ و اسٹریٹ کرائم کا جن بے قابو رہا، رپورٹ

کراچی، سالِ گذشتہ 2018ء میں بھی کار لفٹنگ و اسٹریٹ کرائم کا جن بے قابو رہا، رپورٹ
رپورٹ: ایس حیدر

شہر قائد میں گزشتہ سال 2018ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیاں تابڑتوڑ انداز میں جاری رہیں، تاہم کراچی میں 2018ء کے دوران بھی دیگر جرائم کی طرح گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے چوری و چھینے جانے کے واقعات ماضی کی طرز پر جاری رہے، شہر میں ٹارگٹڈ آپریشن جاری رہا، مگر متعلقہ اینٹی کارلفٹنگ سیل کی کارروائی سست روی کا ہی شکار رہی اور گزشتہ سال بھی کراچی کے شہریوں کو تقریباً دو ہزار گاڑیوں اور بیس ہزار سے زائد موٹرسائیکلوں سے محروم ہونا پڑا، ان اعدادوشمار کی تصدیق خود متعلقہ پولیس افسران بھی کرتے نظر آتے ہیں، دوسری جانب کراچی شہر میں لوٹ مار کرنے والے عناصر بھی سرگرم رہے اور شہر قائد کے باسیوں سے ہزاروں کی تعداد میں موبائل فونز چھینے و چوری کر لئے گئے، کراچی میں گزشتہ سال 2018ء کے دوران 32 ہزار سے زائد موبائل فونز چھینے اور چوری کئے گئے، جبکہ پولیس صرف 1500 موبائل فون ہی ریکور کرانے میں کامیاب ہو سکی۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ سال 2018ء میں جنوری کے مہینے میں 1557 موٹر سائیکلیں اور 132 گاڑیاں چھینی وچوری کی گئیں، ماہ فروری میں 1560 موٹر سائیکلیں اور 220 کاریں و دیگر گاڑیاں موٹر سائیکل و کارلفٹرز کے ہاتھ آئیں۔ مارچ کے مہینے میں بھی 1676 موٹر سائیکلیں اور 187 گاڑیاں پولیس ریکارڈ کا حصہ بنیں۔

اپریل میں بھی موٹر سائیکل و کارلفٹرز اے سی ایل سی حکام کو فول بناتے ہوئے 1612 موٹر سائیکلیں اور 186 دیگر گاڑیاں لے اڑے، مئی کے مہینے میں بھی موٹر سائیکل و کارلفٹرز سرگرم رہے اور شہریوں کو 1671 موٹر سائیکلوں اور 191 گاڑیوں سے محروم کرگئے، ماہ جون میں بھی شہریوں کی املاک پر موٹر سائیکل و کارلفٹرز ہاتھ صاف کرتے ہوئے 1683 موٹر سائیکلیں اور 184 گاڑیاں لیکر فرار ہوئے، جولائی میں کراچی کے شہریوں کو 1949 موٹر سائیکلوں اور 183 دیگر گاڑیوں سے ہاتھ دھونا پڑا، اگست کا مہینہ بھی موٹر سائیکل و کارلفٹرز کیلئے سازگار رہا اور اس ماہ کراچی شہر سے 1999 موٹر سائیکلیں اور 137 گاڑیاں ان کے ہاتھ آئیں، ماہ ستمبر بھی شہریوں پر ستم ڈھاتے ہوئے کار لفٹرز و موٹر سائیکل لفٹرز پر مہرباں رہا اور اس ماہ میں 1798 موٹر سائیکلیں اور 159 گاڑیاں لفٹرز کے ہتھے چڑھ گئیں، اکتوبر کے مہینے میں 1703 موٹر سائیکلیں اور 103 گاڑیاں موٹر سائیکل و کارلفٹرز اے سی ایل سی کی نظر سے بچا کر چلتے بنے، ماہ نومبر میں بھی کار لفٹرز و موٹرسائیکل لفٹرز کی کارروائیاں جاری رہیں اور 1808 موٹرسائیکلوں اور 163 گاڑیوں کو شہر کی شاہراہوں اور گلی کوچوں سے غائب کر دیا گیا، گزشتہ سال 2018ء کے آخری ماہ دسمبر میں 100 سے زائد بڑی گاڑیاں اور ایک ہزار سے زائد موٹر سائیکلوں کے چوری و چھینے جانے کے واقعات پولیس ریکارڈ کا حصہ بنے, مگر دوسری جانب اے سی ایل سی حکام سب اچھاہے کا راگ الاپتے نظر آئے۔

سالِ گزشتہ 2018ء کے دوران کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن جاری رہا، لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے اسٹریٹ کرائم کے جن کو قابو کرنے میں ناکام رہے، موبائل فون چھینے اور چوری کئے جانے کے اعدادوشمار بھی دیگر جرائم کی طرح مختلف نہیں، 2018ء میں اسٹریٹ کرمنلز نے کراچی کے شہریوں کو 32000 سے زائد موبائل فونز سے محروم کر دیا۔ موٹرسائیکل پر سوار ہو کر آنا، اسلحہ دکھانا اور موبائل فون چھین کر لے جانا، یہ صورتحال کراچی شہر کے محض چند علاقوں میں نہیں، بلکہ پورے شہر میں ہی اسٹریٹ کرمنلز نے یہ اندھیر مچا رکھی ہے، اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے، تو گمان ہوتا ہے کہ کراچی میں موبائل فون چھیننا تو جیسے اسٹریٹ کرمنلز کا پسندیدہ مشغلہ ہو، پولیس ریکارڈ کے اعدادوشمار کے مطابق سال گزشتہ 2018ء کا تقابلی جائزہ لیں، تو 2018ء کے پہلے مہینے جنوری میں 1257 موبائل فونز چھینے گئے، جبکہ 1500 موبائل فون چوری ہونے کے واقعات رپورٹ ہوئے، فروری کے مہینے میں بھی 1103 موبائل فون چھینے اور 1479 موبائل فون چوری کئے گئے، مارچ کے مہینے میں موبائل فون چھیننے کے 1036 موبائل فون چھینے اور 1440 موبائل فون پر چوروں نے ہاتھ صاف کیا۔

ماہ اپریل میں 1110 موبائل فونز چھینے جانے کے واقعات پولیس کے ریکارڈ کاحصہ بنے، جبکہ اسی ماہ میں 1466 موبائل فونز چوروں کے بھی ہاتھ لگے، مئی کے مہینے میں بھی ملزمان 1040 موبائل فون لے اڑے، جبکہ ایک 1600 موبائل فونز چوری بھی کئے گئے، ماہ جون میں بھی موبائل فون کی چھینا جھپٹی عروج پر رہی اور 1162 موبائل فون چھینے اور 1725 موبائل فون چوری کئے جانے کے واقعات پولیس کے ریکارڈ کا حصہ بنے، سال کے ساتویں مہینے جولائی میں بھی شہر میں اسٹریٹ کرمنلز کا راج چلتا رہا اور سڑکوں پر دندناتے اسٹریٹ کرمنلز نے شہریوں کو 1363 موبائل فونز سے محروم کیا، جبکہ 1844 موبائل فون چوری ہونے کی شکایات پولیس کو موصول ہوئیں، اگست کے مہینے میں بھی سڑکوں پر آزاد اسٹریٹ کرمنلز نے 1506 موبائل فونز اسلحے کے زور پر حاصل کئے، جبکہ اسی 1930 موبائل فون چوری بھی کر لئے گئے، ماہ ستمبر میں 1252 موبائل فون پر اسٹریٹ کرمنلز ہاتھ صاف کر گئے، جبکہ 1497 موبائل فون چوری کیے گئے، اکتوبر کے مہینے میں 1449 موبائل فون شہریوں سے چھن گئے، جبکہ 2019 موبائل فونز پر چوروں کی جانب سے ہاتھ کی صفائی دکھائی گئی۔

نومبر میں بھی شہریوں سے چھینا جھپٹی کے واقعات کا تسلسل برقرار رہا اور 1319 موبائل فونز چھینے اور 1936 موبائل فون اس ماہ بھی چوری کئے گئے، جبکہ سالِ گزشتہ 2018 کے آخری مہینے دسمبر میں 650 سے زائد موبائل فون چھینے گئے۔ سی پی ایل سی کے ریکارڈ کے مطابق گزشتہ سال 2018ء میں پولیس اور دیگر اداروں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کے دوران 1500 سے زائد موبائل فون ریکیور کیے گئے، جنہیں تصدیق کے بعد انکے مالکان کے حوالے کر دیا گیا، یہ تمام اعدادوشمار وہ ہیں کہ جن لوگوں نے واردات کے بعد پولیس کو رپورٹ درج کروائیں، تاہم سی پی ایل سی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اصل اعدادوشمار اس سے کہیں زیادہ ہیں، کیونکہ بیشتر لوگ موبائل فون چوری یا چھینے جانے کے بعد پولیس کو رپورٹ درج ہی نہیں کرواتے، بلکہ صرف سم کارڈ سیلولر کمپنی سے بند کروا دیتے ہیں، جو شہریوں کی پولیس پر عدم اعتبار کا منہ بولتا ثبوت ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے سال 2019ء میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ان لوٹ مار کے واقعات پر قابو پانے کیلئے مثبت حکمت عملی اپنائیں گے یا ماضی کی طرز پر ان واقعات میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا، اس کا فیصلہ تو وقت ہے کرے گا۔
خبر کا کوڈ : 771608
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش