0
Monday 11 Mar 2019 15:15

امریکہ دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا برآمد اور سعودی عرب سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے

امریکہ دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا برآمد اور سعودی عرب سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے
اسلام ٹائمز۔ بین الاقوامی سٹالکہام صلح انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کی تازہ ترین رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ سعودی عرب نے درآمد کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ سعودی عرب اور مغربی ایشیا میں موجود اس کے چند ایک اتحادی عرب ممالک کے اسلحے کی درآمدات پوری دنیا کی اسلحے کی تجارت کا ایک سوم ہے۔ تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی سٹالکہام صلح انسٹیٹیوٹ (SIPRI) نے اتوار کے دن اپنی رپورٹ شائع کی، جس میں یہ بھی بتایا گیا کہ مغربی ایشیائی ممالک کو گذشتہ پانچ سالوں میں برآمد کئے گئے اسلحے میں 78 فیصد افزائش ہوئی ہے، جو مجموعی طور پر پوری دنیا میں اسلحے کی خرید و فروش کا ایک تہائی ہے۔ اس تحقیقاتی انسٹیٹیوٹ نے جو ہر سال اسلحے کی تجارت اور وارفیئر پروڈیوسرز کے بارے میں رپورٹس شائع کرتا ہے، سعودی عرب کو 2014ء سے لے کر 2018ء کے درمیان دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک قرار دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان پانچ سالوں کے دوران سعودی عرب کی اسلحے کی درآمدات پچھلے پانچ سالوں کے عرصے کے مقابلے میں 192 فیصد بڑھی ہیں۔  مصر، الجزائر، متحدہ عرب امارات اور عراق بھی پوری دنیا کے اسلحہ درآمد کرنے والے پہلے 10 ممالک میں سر فہرست ہیں۔ اس تحقیقی سنٹر کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو بیچا جانے والا جنگی سازوسامان یمن کی جنگ میں نہتے عوام کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی سٹالکہام صلح انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کے محقق پیٹر وائزمین (Peter Wiseman) کا کہنا ہے کہ خلیج (فارس) کے بہت سے ممالک امریکہ، برطانیہ اور فرانس کا اسلحہ خریدنے کے خواہاں ہیں کیونکہ اس خطے میں تناؤ اور تنازعات عام ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران روس، فرانس اور جرمنی نے بھی مصر کو اسلحہ بیچنے میں قابل توجہ اضافہ کیا ہے۔
 
اس تحقیقی انسٹیٹیوٹ (SIPRI) نے اسلحے کی درآمدات میں اس ناگہانی اضافے کی وجہ یمن، شام، عراق اور لیبیا کی جنگوں میں اسلحے کی سپلائی اور اسی طرح سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور غاصب اسرائیلی حکومت کی ایران اور قطر کے خلاف جنگی تیاریاں بیان کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب نے 2014ء تا 2018ء برطانیہ اور امریکا سے کروز میزائلوں اور دوسرے ٹارگٹڈ اسلحے سے لیس 94 جنگی جہاز خریدے ہیں۔ اسی عرصے کے دوران متحدہ عرب امارات نے امریکہ سے میزائل ڈیفنس سسٹمز، کم رینج کے بیلسٹک میزائل اور 1700 کے قریب بکتربند گاڑیاں اور فرانس سے 3 جنگی بحری بیڑے بھی درآمد کئے ہیں۔ قطر بھی ان ممالک میں سے ایک ہے، جن کی اسلحے کی درآمدات قابل توجہ حد تک بڑھ گئی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پچھلے پانچ سالوں کے درمیان قطر کی اسلحے کی درآمدات میں 225 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو جرمنی کے ٹینکوں، فرانس کے جنگی جہازوں اور چین کے کم رینج کے بیلسٹک میزائلوں پر مشتمل ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ رجحان اگلے کئی سال تک جاری رہے گا۔ سعودی عرب اگلے پانچ سالوں کے دوران بھی امریکہ سے مزید 98 جنگی جہاز، 83 ٹینک اور میزائل ڈیفنس سسٹم، کینیڈا سے 737 بکتر بند گاڑیاں، سپین سے 5 جنگی بحری بیڑے اور کم رینج کے بیلسٹک میزائل خریدے گا۔ قطر نے بھی اس مدت کے دوران امریکہ، فرانس اور برطانیہ سے مزید 93 جنگی جہاز خریدنے کا معاہدہ کیا ہے، جبکہ اٹلی نے بھی قطر کو 4 جنگی بحری بیڑے بیچنے کا اعلان کیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں جو بات سب سے زیادہ تعجب آور ہے، وہ یہ کہ ایران کی اسلحے کی درآمدات ان ممالک کی درآمدات کے اعداد و شمار کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ بین الاقوامی سٹالکہام صلح انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کی رپورٹ کے مطابق پورے خطے میں اسلحے کی درآمدات میں ایران کا حصہ 0.9 فیصد ہے۔ سیپری  (SIPRI) کے مطابق ایران اور اس کے حلیفوں کی فوجی ساز و سامان کی درآمدات کا یہ فرق مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔

اس انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اس مرتبہ بھی پوری دنیا میں سب زیادہ اسلحہ بیچنے والا ملک باقی رہا۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکہ نے پچھلے پانچ سالوں کے دوران اپنی اسلحے کی برآمدات میں 29 فیصد اضافہ بھی کیا ہے جبکہ امریکہ کی آدھی سے زیادہ (52 فیصد) برآمدات مغربی ایشیا بھیجی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسی مدت کے دوران برطانیہ کی اسلحے کے برآمدات بھی 5.9 فیصد بڑھی ہیں۔ اس کی برآمدات میں سے بھی زیادہ تر حصہ (59 فیصد) مغربی ایشیا کا تھا جبکہ اس کے تمام تر جنگی ہوائی جہاز سعودی عرب اور عمان کو بیچے گئے ہیں۔ اسلحے کی خرید و فروش کی یہ صورت حال ایک ایسے وقت میں ہے، جب گذشتہ کئی سالوں سے انسانی حقوق کی حامی عوامی تنظیمیں مغربی ایشیا میں اسلحے کی اتنی بڑی مقدار برآمد کرنے پر مسلسل احتجاج کر رہی ہیں اور مغربی ممالک سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ یمن، شام اور عراق میں وسیع پیمانے پر انسانوں کی ہلاکت کا باعث بننے والی اس تجارت کو بند کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 782706
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش