3
0
Thursday 1 Aug 2019 10:37

شہید علامہ عارف الحسینی اور قیادت کے نشیب و فراز(1)

شہید علامہ عارف الحسینی اور قیادت کے نشیب و فراز(1)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

علامہ شہید عارف حسین الحسینی ان چند شخصیات میں سے ایک ہیں، جن سے میرا جذباتی تعلق اتنا گہرا ہے کہ میں جب ان کے بارے لکھنے بیٹھتا ہوں تو یہ تعلق اظہار خیال میں آڑے آجاتا ہے۔ یہ کیفیت صرف میری نہیں بلکہ ہماری نسل کے ہر مکتبی فرد کو درپیش رہی ہے۔ ہم نے اپنی عین جوانی میں اپنی آنکھوں کے سامنے ایک انتہائی مقدس، وجیہ، باحیا، مبارز، مجاہد اور اخلاق حسنہ کے پیکر کو اپنے دور کے آمر سے پنجہ آزما دیکھا۔ انتہائی کم وسائل اور مخلص علماء و بزرگان کا عدم تعاون بھی ان کے راستے میں کبھی رکاوٹ نہ بنا۔ دین اسلام اور ایران کے اسلامی انقلاب سے متاثر ہماری نسل کے افراد نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کو ٹی وی اور ذرائع ابلاغ کے توسط سے دیکھا اور محسوس کیا تھا، لیکن شہید عارف الحسینی بنفس نفیس ہمارے سامنے موجود تھے اور ہم ان میں امام خمینی، شہید مطہری اور شہید بہشتی جیسی شخصیات کا پرتو دیکھتے تھے۔

راہ اسلام و انقلاب اور تشیع پاکستان کی مشکلات نیز بحران کے حل میں کوشاں یہ ہستی اپنے حسن اخلاق اور بے پناہ خلوص سے ہر ملنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لیتی۔ نوجوان ہو، بوڑھا ہو، ادھیڑ عمر ہو، مخالف ہو یا غیر جانبدار، آپ سے ملنے کے بعد آپ کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتا۔ ایک عام انسان میں یہ خصوصیات آیا خداداد ہوتی ہیں یا اکتسابی اس پر طویل بحث کی جا سکتی ہے لیکن ان کے بچپن، لڑکپن اور زمانہ طالبعلی کے ساتھی بھی ان تمام صفات کا ذکر کرتے ہیں، جو قیادت کے بعد ان میں دیکھی اور محسوس کی جاتی تھیں۔ ذاتی صفات حسنہ کے ساتھ ساتھ ان میں دین اور قوم و ملت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، نجف اشرف کا زمانہ طالبعلمی ہو یا قم کی طلبگی کا دور، وہ کبھی بھی لاتعلق اور غیر جانبدار فرد کی حیثیت سے نہیں رہے۔ نجف اشرف میں امام خمینی کا ساتھ اور نجف سے جلاوطنی اور قم میں قیام نیز قم سے امام خمینی کی حمایت کے جرم میں ایک اور ہجرت، یہ سب ان کی متحرک اور انقلابی شخصیت ہونے کی علامتیں ہیں۔

ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی اور پاکستان میں قیادت کا منصب سنبھالنے کے بعد یعنی 1979ء سے 1984ء کا دور شہید عارف الحسینی کی زندگی کا وہ دور ہے، جس پر بہت کم لکھا اور بولا گیا ہے۔ آپ کو ملت جعفریہ کا قائد بنانے کے حوالے سے مختلف افراد کے متعدد دعوے ہیں اور ممکن ہے کہ سب صحیح بھی ہوں، لیکن میں ذاتی طور پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ اس منصب کے نہ صرف اہل تھے بلکہ اس کے لیے انہوں نے ہوم ورک بھی کر رکھا تھا، البتہ وہ ابھی اس طویل سفر کی ابتدا میں تھے۔ میرے مذکورہ جملے پر بعض لوگ ضرور چونکیں گے اور اعتراض بھی کریں گے کہ کیا شہید حسینی قم میں قائد بنے کی تیاری کر رہے تھے۔ جی ہاں بات یہی ہے، لیکن تھوڑے سے فرق کے ساتھ۔ قم میں ان کے قیام کا دور پاکستان مین قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین کی قیادت کا دور تھا۔ ایران میں اسلامی انقلاب آچکا تھا۔ شہید عارف الحسینی سمیت کئی پاکستانی طلباء انقلاب کی سرگرمیوں میں پوری طرح شریک تھے اور اس انقلاب کے پیغام کو برآمد کرنے میں بھی مکمل سنجیدہ اور پرعزم تھے۔

شہید عارف الحسینی نے پاکستان میں انقلاب اسلامی کو درآمد کرنے لیے قم المقدسہ میں بیٹھ کر مکمل منصوبہ بندی کی، مختلف موضوعات پر کام کرنے کے لیے طلباء و غیر طلباء کی باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دیں اور اس کے لیے باقاعدہ فائل ورک اور دفتر وغیرہ کا انتظام کیا۔ پاکستان کی قوم و ملت کو بحرانوں سے نکالنے، اسلام کے راستے پر لانے اور استوار کرنے لیے انہوں نے مختلف ورکنگ گروپ تشکیل دیئے اور اس کے لیے باقاعدہ افراد نامزد کئے۔ شہید حسینی نے اس دور مین پاکستان میں تبلیغات کی انجام دہی، میڈیا کو موثر بنانے کے لیے، سیاسی پیشرفت کے لیے منصوبہ بندی کی، حتی پاکستان میں موثر قوتوں منجملہ فوج کے عمل و کردار سے متعلق آگاہی و آشنائی کے لیے باقاعدہ افراد متعین کیے۔ طے پایا کہ قم اور تہران میں رہ کر یہ لوگ ان موضوعات پر تحقیق کریں گے اور ورکنگ پیپر اور تجاویز بنا کر سامنے لائیں گے کہ مختلف شعبہ جات میں کس طرح کام کو آگے بڑھانا ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب تازہ تازہ کامیاب ہوا تھا اور ایران کیا انقلابی قوتیں بھی امام خمینی کے افکار و نظریات کی روشنی میں انقلاب کو برآمد کرنے کے نطریئے پر سختی سے کاربند تھیں۔ یہ انقلابی قوتیں بھی علامہ عارف حسین الحسینی کے ساتھ کھڑی تھیں اور ان کی منصوبہ بندی میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک تھیں، اس حوالے سے قم المقدسہ میں قائم مدرسہ رسالت کا کردار بہت نمایاں ہے۔ یہ مدرسہ شہید حسینی کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے ایک ہیڈکوارٹر کا کام کرتا تھا۔ کاش کوئی شخص اس مدرسہ کی اس دور کی سرگرمیوں پر قلم اٹھائے تو اس دور کے انقلابیوں اور غیر انقلابیوں کی سرگرمیاں کھل کر سامنے آجائیں۔ شہید حسینی کی قیادت سے قبل کی ایران میں گزری زندگی پر بات چل رہی تھی کہ مدرسہ رسالت کا ذکر سامنے آگیا۔ یہ مدرسہ کس کے زیر انتظام تھا اور جب یہ بات سامنے آئی کہ اس کی مالی سرپرستی کرنے والے افراد انقلاب سے ہم آہنگ نہیں تو کتنی عجلت میں راتوں رات مدرسہ کو خالی کیا گیا، ایک دلچسپ اور عبرت انگیز داستان ہے۔

شہید عارف الحسینی اور ان کی ٹیم پاکستان کے مستقبل کو سامنے رکھ کر انقلابی بنیادوں پر منصوبہ بندی میں مصروف تھی کہ پاکستان میں مفتی جعفر حسین کا انتقال پرملال ہوگیا۔ شہید حسینی کی قم و تہران میں سرگرم ٹیم کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مفتی جعفر حسین کا اتنی جلدی انتقال ہو جائے گا اور پاکستان کے علماء شہید عارف حسین الحسینی کو اپنا قائد بنا دیں گے۔ یہ ٹیم ابتدائی مرحلے میں تھی اور شہید حسینی بھی اپنے ان امور اور سرگرمیوں کو کسی پر آشکار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ شہید حسینی کی قیادت کے اعلان نے اس ٹیم کو حیران و ششدر کر دیا، جس کے نتیجے میں تمام کی تمام منصوبہ بندی کا رخ بدل کیا اور وہ منصوبہ نیز اس سے متعلق ٹیم جسے چند سال کی تحقیقات و محنت و ریسرچ کے بعد علمی میدان میں آنا تھا، ابتدائی مرحلے میں ہی اجرائی عمل میں داخل ہوگئی۔ شہید عارف الحسینی اور ان کے ساتھی جس انداز میں آگے بڑھنا چاہ رہے تھے، وہ منصوبہ اپنی سمت کھو بیٹھا اور اس ٹیم کے تقریباً سب افراد شہید حسینی کی قیادت کو منوانے اور پاکستان میں ان کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ختم کرنے میں مصروف ہوگئے۔ شہید حسینی کو کسی منصوبہ بندی کے بغیر اس اہم منصب پر فائز کیا گیا تھا، نہ ان کے پاس پاکستان میں کوئی ٹیم تھی، نہ پاکستان کے علماء ان سے آشنا تھے۔

تحریک نفاذ فقہ جعفریہ مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین کی علالت اور دوسری متعدد وجوہات کی بنا پر عدم فعالیت کا شکار تھی، تنظیم کا ڈھانچہ تک مکمل نہیں تھا، اوپر سے نئے قائد کے انتخاب میں تاخیر نے حکومتی عناصر کو اس بات کا موقع دے دیا کہ وہ راولپنڈی کے ایک عالم حجت الاسلام سید حامد علی شاہ موسوی کی قیادت کو سامنے لانے میں کامیاب ہوگئے۔ شہید عارف حسین الحسینی کو قیادت کے فوراً بعد جو مسئلہ درپیش تھا، وہ دوسری قیادت اور اس کے پس پردہ مخصوص قوتوں کے عزائم کا مقابلہ کرنا تھا۔ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی اور ان کی ٹیم کی بیشتر توانائیاں ان داخلی اختلافات کے حل میں صرف ہونے لگیں۔ شہید عارف حسین جو اپنی قوم و ملت کے سنوارنے کا ملک گیر منصوبہ اپنے قلب و ذہن میں رکھے تھے، انہیں شیعہ قوتوں کے مقابلے مین لاکھڑا کیا گیا۔ شہید عارف حسینی امام خمینی کے انقلاب کو اپنے لیے نصب العین قرار دیتے تھے اور وہ پاکستان میں سنی شیعہ تمام مسالک و مکاتب کو ساتھ لے کر پاکستانی معاشرے میں ایک دینی و اسلامی تبدیلی کے خواہش مند تھے، لیکن حالات کے جبر نے انہیں ایک ایسے داخلی معرکے میں الجھا دیا، جس کے لیے وہ ہرگز تیار نہیں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 808400
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
با عرض معذرت راشد صاحب: ان معلومات کی آپ کے پاس کیا دلیل اور سند ہے که شهید نے زمانه طلبگی میں ٹیم اور دفتر بنا رکها تها اور خود کو قیادت کے لیے آماده کر رہے تھے؟!!! شهید کے زمانه طلبگی کے ایک هم بحث، قریبی دوست اور هم حجره مولانا غلام جعفر آف سرگودها سے بنده حقیر نے اس بارے میں تفصیلی پانچ چھ نشستیں کی ہیں اور اسی طرح شهید کو جن برزگ علماء نے بهکر میں قائد نه صرف بنایا بلکه شهید کا آخر تک ساتھ نبهایا، مانند آیت الله علامه محمد حسین نجفی ڈهکو... ان بزرگان کے بقول شهید کی قیادت کا جس دن اعلان هوا اور مرحوم وزارت حسین نقوی کی طرف سے ان کے نامزد هونے سے قبل تک خود شهید کے وهم و گمان میں بهی اس ذمه داری کے حصول کا خیال تک نه تها، لذا آپ بتا سکتے ہیں که شهید نے جو زمانه طلبگی میں ٹیم تشکیل دی تهی، وه کن افراد پر مشتمل تهی اور تهران میں ان کا دفتر کہاں تها؟!! اور خود شهید نے حوزه علمیه نجف و قم میں حوزوی دروس کس سطح تک پڑھا تها اور قم میں آیت ا... حرم پناهی کے علاوه شهید نے کن اساتذه سے دروس پڑھے تھے اور شهید کے درسی نوٹس کے علاوه علمی آثار و تالیفات کیا تهیں۔؟!!! اور شهید نے حضرت امام خمینی رضوان الله تعالیٰ علیه کے کس درس میں شرکت کی؟ اور اسی طرح مدرسه علمیه رسالت کب اور کس کے توسط سے تاسیس هوا۔؟!!! احساسات و جذبات سے ہٹ کر اگر لکهنا ہے تو مستند اور علمی معلومات دیں. شکریه
Iran, Islamic Republic of
المرء یقیس علی نفسہ؛ حقیقت یہ ہے کہ ایسا آخرالزمان آچکا ہے جہاں بات کسی بھی پیرائے میں ہو، اسکو اپنی ذاتی اطلاعات اور کلچر کے سیاق و سباق میں دیکھا جاتا۔ جس طرح پاکستان میں قیادتوں کی ریل پیل ہے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر اور قوانین کو تروڑ مروڑ کر اپنے ہی ہم مباحثیوں اور ساتھیوں کی پگڑیوں کو اچھال کر، اپنے رقباء کو شکست دینے کیلئے حتی غالیوں سے استفادہ کرکے آگے بڑھنے کا رواج بن گیا ہے تو ایسے ماحول میں جب یہ جملہ کہا جائے گا کہ قائد شہید قم میں اپنی قیادت کیلئے ہوم ورک کر رہے تھے تو وہ "ہوم ورک" موجودہ لیڈروں کی " کلاس ورک" کی چیٹنگ میں ہی دیکھا جائے گا۔ بہرحال اب وقت آگیا کھل کر بات ہونی چاہئے، قوم کو حقائق سے آشنا ہونا چاہیئے، منبر بر بیٹھنے بندروں کو بھی مزید قوم کو ریچھ کتے کی لڑائی دکھا کر بھولا بنانے کا کوئی سد باب ہونا چاہیئے۔ جب شہید عارف حسینی کیلئے قیادت کے میدان کو ہموار کرنے کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد شہید کی اپنی تزکیہ نفس میں مہارت، عرفانی مقامات اور سیروسلوک کا عروج، معاشرے کی مدیریت، معاشرے میں جاری مسائل سے آشنائی اور ان کے حل کی کوششیں ۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ ہے۔ جہاں تک شہید عارف حسینی کے اساتید اور ان کے کلاسوں کے نوٹس کی بات ہے وہ تو شائد ان کے خانوادے سے مل ہی جائیں، لیکن عطر آن است کہ خودش ببوید نہ آن کہ عطار بگوید؛ شہید کی تقاریر، شہید کی زندگی، شہید کا تفکر، شہید کی گفتگو، شہید کا طرز زندگی ان کے دروس ان کے علمی اور معنوی مقامات کی بین دلیل ہے، جس کیلئے کسی قسم کے کلاسی نوٹس اور معدل سازی و نمرات شفاھی و کتبی ۔ ۔ ۔ کی ضرورت نہیں ہے۔ شہید ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ جب لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران شہید کی لکھی ہوئی تقریر میں غالبا ثاقب اکبر صاحب نے "سن تیھتر کے آئین" کو بحال کرنے کی بات لکھ دی تھی اور اس پر صحافی نے شہید سے سوال کر لیا کہ آپ نے یہ آئین پڑھا ہے تو شہید نے صریحاً جواب دیا کہ نہیں پڑھا اور اس کے بعد اپنے احباب کو سختی کے ساتھ کہا کہ میری پہلے سے لکھی ہوئی گفتگو میں اضافات نہ کئے جائیں۔ ایسی صادق و امین شخصیت کو موجودہ فھییییم لوگوں کے ساتھ کیا قیاس کرنا، یہ قیاس مع الفارق ہے ۔ ۔ ۔
محترم بات بہت عمده اور پتے کی آپ نے کی ہے که شهید نے طلبگی کے زمانه میں اپنی اخلاقی تربیت کی تهی اور اسکی هر شخص منصف تائید کرتا ہے، باقی رہا یہ کہ لکهاری سے مبالغه آرائی سے ہٹ کر مستند اور علمی مطالب کا تقاضا کرنا اور دعویٰ کی دلیل طلب کرنا کونسا جرم ہے؟!!! شهید حسینی، امام خمینی سے بڑھ کر تو نہ تھے، امام خمینی رضوان الله تعالی علیه کے بارے بهی اگر کوئی بات هوتی ہے تو آثار امام کا اداره اس کے جھوٹ اور سچ کی تائید کرتا ہے۔ هماری بدقسمتی که همارے پاس اس قسم کا کوئی ادراه تو نہیں ہے، لهذا اگر کوئی بات کرے تو اس سے دلیل طلب کرنا کونسا جرم ہے؟! علماء اور دانشوران کے آثار اور تالیفات اور ان کے زندگی نامه کے بارے درست معلومات کا سوال کرنا کونسی غلط بات ہے؟!! کیونکه تاریخ کی تحریف بهی تو کوئی درست کام نہیں ہے، بالاخر جهوٹ اور سچ کا معیار کیا ہے؟!! اور جس پیراہے میں لکهاری نے لکها ہے که شهید زمانه طلبگی میں خود کو قیادت کے لیے آماده کر رہے تھے اور قم تهران میں دفتر قائم کیا هوا تها اور ٹیم تشکیل دے رکھی تھی، آپ کی بات سے تو لکهاری کی بات بالکل غلط ثابت هوتی ہے، کیونکه جس شخص نے مملکت کے آئین کا قائد بننے کے بعد بهی مطالعه نہیں کیا تھا، وه زمانه طلبگی سے خود کو قیادت کے لیے کیسے آماده کر رها تها۔؟!!!
ہماری پیشکش