0
Friday 24 Apr 2020 23:23

چترال میں مزید 3 افراد کا ٹیسٹ پازیٹیو آگیا، کرونا وائرس مریضوں کی تعداد 9 ہوگئی

چترال میں مزید 3 افراد کا ٹیسٹ پازیٹیو آگیا، کرونا وائرس مریضوں کی تعداد 9 ہوگئی
اسلام ٹائمز۔ چترال میں تین اور مریضوں کا ٹیسٹ  پازیٹیو آگیا، جس سے کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد نو 9 ہوگئی۔ محکمہ صحت کے ترجمان پبلک ہیلتھ کو آرڈینیٹر ڈاکٹر نثار اللہ کے مطابق مسماۃ بی بی سارا عمر 24 سال زوجہ حضرت علی سکنہ دمیل دروش جس نے پشاور کا سفر کیا تھا اور عبد الاعظم عمر 47 سال ولد حاجی خان سکنہ تریچ کا ٹیسٹ بھی پازیٹیو آیا ہے، اس مریض کا تعلق اپر چترال سے ہے، اس نے بھی پشاور کا سفر کیا تھا، جبکہ شیر زمان ڈرائیور ولد محمد نواز خان سکنہ عشریت جو پشاور سے آیا تھا اور گرین لینڈ کے قرنطینہ مرکز میں تھا، اس کا ٹیسٹ بھی آج پازیٹیو آگیا۔ اس طرح چترال میں کرونا وائریس کے مریضوں کی تعداد نو ہوگئی۔ ڈرائیور شیر زمان سکنہ عشریت نے تریچ س تعلق رکھنے والے مریض کو عشریت سے بونی لے گیا تھا، جس کی وجہ سے اس ڈرائیور کو بھی کرونا وائرس کی بیماری لگ گئی۔ واضح رہے کہ یہ مرض نیچلے اضلاع سے چترال میں آنے والے لوگوں کے ذریعے ایک دوسرے کو منتقل ہوا ہے اور اکثر لوگ بغیر قرنطینہ کے سیدھا اپنے گھروں کو جاتے ہیں، جس سے یہ مرض مزید پھیلتا جاتا ہے۔

 لوئر چترال کے مریضوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میں داحل کر دیا گیا ہے، جہاں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد چھ ہوگئی جبکہ ضلع اپر چترال کے مریض تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال بونی میں زیر علاج ہیں۔ چترال میں کرونا وائرس کی بڑھتی ہوئی تعداد سے عوام میں شدید تشویش پائی جاتی ہے، جبکہ بعض حلقے اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ چترال کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں سہولیات کے فقدان کی وجہ سے نہ صرف مریضوں بلکہ ڈاکٹروں کیلئے بھی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس وقت DHQ ہسپتال میں صرف چار ونٹی لیٹرز ہیں، جن میں ایک حراب بتایا جاتا ہے اور باقی تین کو چلانے کیلئے بھی کوئی تربیت یافتہ عملہ نہیں ہے، جبکہ ہسپتال میں مریضوں کی تعداد سات ہے۔ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے ڈپٹی کمشنر کو بار بار لکھا ہے کہ وہ ہسپتال میں ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کروائیں اور ضروری سامان، مشینری منگوائیں، جس میں فی الحال ڈپٹی کمشنر ناکام نظر آتے ہیں۔

دوسری طرف عوامی حلقے اس بار پر بھی شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں کہ قرنطینہ مراکز میں SOP کا کوئی حیال نہیں رکھا جاتا، ایک ایک بیڈ پر دو سے زیادہ لوگ رکھے جاتے ہیں اور جو مشکوک مریض ہیں، ان کے ساتھ دوسرے صحت مند لوگ بھی اکٹھے رکھ کر ان کو بھی مریض بنایا جاتا ہے، جبکہ لوئر اضلاع سے آنے والے لوگ چوری چھپے سیدھے اپنے گھروں کو جاتے ہیں اور عشریت سے یا قرنطینہ مراکز سے لانے والے لوگوں کو بھی ایک ہی گاڑی میں کئی افراد بٹھائے جاتے ہیں، جو حلاف قانون ہے، اس سے یہ بیماری مزید پھیلنے کا حطرہ ہے۔ چترال کے سیاسی اور سماجی طبقات نے صوبائی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ چترال کے دونوں اضلاع کے ہسپتالوں میں ونٹی لیٹرز، لیبارٹریز، سکینرز اور دیگر سامان و مشنری ہنگامی بنیادوں پر بھجوائی جائے، تاکہ اس وباء پر بروقت قابو پایا جا سکے۔
خبر کا کوڈ : 858795
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش