0
Thursday 16 Apr 2020 15:15

پشاور، ڈبلیو ایس ایس پی قرنطینہ سے اٹھائے کچرے کا کیا کرتی ہے؟؟؟

متعلقہ فائیلیںرپورٹ: ایس علی حیدر

ماہرین کے مطابق قرنطینہ مراکز، آئی سولیشن سینٹرز اور ہسپتالوں اور کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے صحت ورکرز کی جانب سے استعمال کئے جانے والی حفاظتی کٹس سے وائرس کے مقامی آبادی میں پھیلاؤ کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق صوبائی حکومت نے وفاقی وزارت صحت کی جانب سے 2 ماہ قبل جاری کئے گئے معیاری کام کے طریقہ کار (ایس او پیز) کو نافذ کرنا ہے تاکہ فضلے کے مراکز سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایس او پیز کورونا وائرس کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہیں جو تمام صوبوں کو 2 ماہ قبل دیئے گئے تھے جب ملک میں کوئی تصدیق شدہ کیس سامنے نہیں آیا تھا۔ خیبر پختونخوا میں حفاظتی کٹس (پی پی ای) کو ٹھکانے لگانے کے مناسب طریقہ کار کا فقدان ہے جنہیں میونسپل کے فضلے کی طریقے سے ٹھکانے لگایا جا رہا ہے، جبکہ انہیں ڈسپوز کرنے کی واضح گائیڈ لائنز موجود ہیں۔

محکمہ صحت کے عہدیداروں نے بتایا کہ وہ جانتے ہیں کہ حیات آباد اور حسن گڑھی، جبکہ شہر کے دیگر علاقوں میں تصدیق شدہ کیسز اپنے گھروں میں آئی سولیشن میں ہیں لیکن وہاں سے آنے والے کوڑے دانوں کو صحیح طریقے سے نہیں اٹھایا جا رہا جو محلوں کیلئے ایک بم ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صوبے کے دارالحکومت پشاور میں ہو رہا ہے، جبکہ دیگر اضلاع کی صورتحال مزید تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ استعمال شدہ کٹس اور دیگر پی پی ایز گلیوں میں پھینک رہے تھے یہاں تک کہ ہسپتالوں نے بھی پروٹوکول پر عمل نہیں کیا۔ دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ ایس او پیز کا مقصد ہیلتھ ملازمین، عوام اور ماحول کو مختلف سطحوں پر پیدا ہونے والے کوڑے کے خطرات سے بچانا تھا تاکہ ہسپتالوں میں محفوظ، صحتمند اور بہتر کام کے ماحول کو برقرار رکھا جاسکے اور وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ لیبارٹریز، ہسپتالوں اور کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے قرنطینہ مراکز آئی سولیشن کی سہولیات سے پیدا ہونے والے تمام کچرے کو ’متعدی فضلہ‘ سمجھا جانا چاہیے اور لینڈ فلز میں اس کو ضائع نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ان میں کسی بھی دوسری چیز سے وائرس کے پھیلاؤ کا 95 فیصد زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

مریض کو دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کو ڈیوٹی کے مقام کو چھوڑنے سے قبل تمام سازوسامان، سپلائی اور لینن کو اتارنا چاہیے اور انہیں ایک بند ڈبے میں رکھنا چاہیے تاکہ انہیں جلانے کے مقام تک منتقل کیا جاسکے، تمام فضلہ، بشمول پی پی ایز، ڈریپس اور وائپس کو متعدی مادہ سمجھا جانا چاہیے اور اسے ضائع کرنے کیلئے مناسب طریقے سے پیک کیا جانا چاہیے۔ ایس او پیز میں کہا گیا تھا کہ دستانے اور حفاظتی لباس پہنیں، بشمول جوتوں کو بھی کوور کریں، چہرے اور آنکھوں کی حفاظت کیلئے بھی آلات کا استعمال کریں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ صحت کو کورونا وائرس کے فضلہ اور پی پی ایز سے متعلق گائیڈ لائنز موصول ہوئی تھیں تاہم ان کو نظرانداز کردیا گیا۔ دوسری جانب واٹر اینڈ سینیٹیشن سروسز پشاور نے اپنے اقدامات کو مزید تیر کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ قرنطینہ کے کچرے کو پوری احتیاط کے ساتھ تلف کیا جا رہا ہے، عوامی صحت پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کریں گے۔ قرنطینہ مرکز اور کورونا کے مریضوں کے گھروں سے کوڑا کرکٹ اٹھا کر پشاور سے 22 کلومیٹر دور گڑھی فیض اللہ شمشتو کے مقام پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تجویز کردہ محفوظ طریقے سے تلف کیا جاتا ہے۔ یہ تمام آپریشن ڈبلیو ایس ایس پی کے اہلکار سرانجام دے رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 857026
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش