0
Saturday 9 Mar 2024 21:35

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
تحریر: سید سبطین ضیاء رضوی

لفظ اسرائیل پڑھتے، سنتے اور دیکھتے یا لکھتے ہی دماغ میں بہت سے واقعات اور ان کا پس منظر گھوم جاتا ہے۔ سرِدست تو سب سے پہلا خیال جناب یعقوب علیہ السلام کی طرف جاتا ہے کہ جن کا شجرہ نسب حضرت اسحٰق علیہ السلام کے ذریعے ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام (خلیل اللہ) سے ملتا ہے۔ پھر جناب یعقوب علیہ السلام کی اولاد کہ جس کو تاریخ نے بنی اسرائیل لکھا، جو کہ کسی دور میں بڑی برگزیدہ اور لاڈلی رہی۔ ان کے ہاں بڑے بڑے جلیل القدر پیغمبرانِ خدا آئے۔ مگر اس قوم نے اپنی ہٹ دھرمی اور عقیدتی انحرافات کے ساتھ ان انبیائے کرام علیھم السلام کی نہ صرف تکذیب کی بلکہ ان میں سے اکثر کا ناحق خون بہایا اور ناحق تکالیف پہنچائیں۔ جناب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور کی قوم ِبنی اسرائیل کے واقعات دیکھیے کہ کس طرح ان کے لیے بارہ چشمے جاری ہوئے۔ آسمان سے من و سلویٰ اترتا رہا، یہاں تک کہ ان کا جی اچاٹ ہونے لگا اور وہ گیہوں، ککڑی، پیاز اور مسور وغیرہ مانگنے لگے۔

حیلے بہانے ایسے کہ دشمن کے مقابلے میں جنگوں کی دعوت پر پیغمبر ِخدا کو گرمیاں اور سردیاں بتاتے رہے اور اگر ان کی آزمائش کے لیے ایک اندھے قتل کا عقدہ کھولنے کو ایک گائے کی قربانی دینے کا کہا گیا تو اس پر سوال در سوال اور شکوک شبہات کے ابنار لگا دیئے۔ یہ وہی قوم ہے کہ ان سے ایک پیغمبر ِخدا کی فقط چالیس روز کی دوری پر ایک حجتِ خدا کے ہوتے ہوئے ذاتِ پروردگار کی واحدانیت اور اقرارِ توحید کو پس ِ پست ڈالتے ہوئے گوسالہ کو اپنا معبود مان کر اس کی پرستش میں لگ گئے۔ ہرچند کہ مطالعہ قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے اس قوم کو بار بار اپنی نعمتوں اور احسانات کا ذکر کرکے قدم قدم پر ان کو یاد کرایا۔ کبھی پیار سے سمجھایا تو کبھی سخت الفاظ میں متنبع کیا۔ مگر جنھوں نے نہ ماننا تھا، نہ مانے اور خود سری پر قائم رہے۔

انھوں نے اپنے ذاتی مفادات اور تھوڑی سی دنیاوی منفعت کے بدلے میں تورات کی آیات کو بدلا۔ معانی میں تغیر و تبدل کیا، کتب سماویہ میں اپنے مطلب اور مرضی کی آیات ڈالیں اور ردوبدل اور تحریف کے مرتکب ہوئے۔ پھر اللہ نے دو بار ان کی پکڑ کی، مگر انھوں نے سبق نہ سیکھا۔ پوری دنیا میں ذلیل خوار ہوئے اور ہر دو طبقات مسلم اور عیسائیوں کے ساتھ دشمنی پالی اور مکار ایسے کہ اپنے مفادات کی خاطر مسلم دشمنی میں عیسائیوں سے تعلقات اور روابط کو فروغ دیا۔ قرآن جو کہ تمام مذاہب اور طبقات کے لیے اللہ کی آخری کتاب ہے اور امید کی آخری کرن ہے۔ نیز پیغمبر آخر الزمان ختمی مرتبت خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ پر آخری نازل ہونے والی آفاقی آسمانی کتاب ہے۔ جس میں برملا اعلان موجود ہے کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے کبھی بھی دوست نہیں ہوسکتے۔ تو سمجھ نہیں آتی کہ قرآن و پیغمبر ِخاتمﷺ کی وارث قوم اور خاص کر وہ عرب ریاستیں اور حکمران کہ جن کی سرزمین سے عظیم محمدی انقلاب کا آغاز ہوا ہے، ان کو یہود و نصاریٰ میں کونسی خوبی نظر آئی کہ وہ ان استعماری قوتوں خصوصاً امریکہ و اسرائیل کی گود میں جا کر بیٹھے ہیں۔

موجودہ دہشت گرد گروہ اسرائیل کہ جس کو میرا قلم کبھی بھی ریاست یا ملک نہیں لکھے گا، یہ قوم بنی اسرائیل کی ان تمام بری خصلتوں، بداعمالیوں اور شرارتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جس کی وجہ سے قرآن پاک نے ان کو بار بار تنبہیہ کی ہے۔ یہ اسی قوم کی سوچ رکھنے والا گروہ ہے، جنھوں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ جنگیں کی۔ موجودہ دور میں جنھوں نے فلسطین کی ارض مقدس پر قبضہ جمایا اور پھر اپنے ظلم و تشدد کے بل بوتے پر روز بروز فلسطینیوں پر ان کی اپنی ہی زمین تنگ کی اور ان کو ایک پٹی تک محدود کر دیا۔ کچھ فلسطینی تو ہمسایہ ممالک میں ہجرت کر گئے۔ یوں اس گروہ نے عظیم تر اسرائیل کے ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے گذشتہ پچھتر سالوں سے لاکھوں فلسطینیوں کو قتل کیا، ان کی جائیدادوں سے انھیں بے دخل کرکے طاقت اور ظلم و جبر کے بل بوتے پر وہاں ناجائز یہودی بستیاں بسائیں۔

ماضی قریب میں مسجد اقصیٰ جو کہ بیت المقدس اور مسلمانوں کے قبلہ اول کے نام سے مشہور اور تاریخ میں محفوظ ہے۔ اس پر غاصبانہ قبضہ جمایا اور اس کو آگ لگانے کی جسارت کی۔ آئے روز اسی کی بے حرمتی کی جاتی ہے، کبھی اس میں مسلمانوں کا داخلہ بند کیا جاتا ہے، کبھی نمازیوں پر تشدد اور کبھی نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ اس غاصبانہ قبضہ کی وجہ سے تین بار عربوں اور اسرائیل میں جنگ بھی ہوئی، جو کہ ہر بار عرب ہی ہارے۔ وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے پاس جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی کا فقدان تھا، جبکہ قرآنی حکم یہی تھا کہ دشمن کے خلاف جہاد کے لیے اپنے سامان حرب و ضرب کو تیار رکھو۔ شاید عیاشی کی لت انھیں اس مقام پر لے آئی ہے کہ اب یہ اپنا برا بھلا اور نفع و نقصان تک سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔

اُس وقت کے عرب حکمرانوں میں پھر بھی کچھ غیرت کی رمق موجود تھی کہ انھوں نے کم از کم ہتھیار تو اٹھائے اور اعلان جہاد تو کیا، جنگ تو لڑی۔ وہ الگ بات کہ جب تیاری نہیں تھی تو ہارنا ہی مقدر تھا۔ وہ بدر والی قوت ایمانی تو تھی نہیں کہ فرشتے اترتے۔ فرشتے تو آج بھی اترسکتے ہیں، پر شرط وہی بدری جوش و جذبہ اور قوت ایمانی ہے۔ اُس وقت کے عربوں نے شاید اسرائیل کے ترانے کے الفاظ کو سن کر سمجھا ہوا تھا کہ اسرائیل کا ایک ایک بچہ ہمارے خلاف دہشت گردی اور جنگ پر اکسایا گیا ہے۔ ذرا اسرائیل کا ترانہ تو دیکھیے، جسے عبرانی میں ہاتکوا (امید) کہتے ہیں۔

اسرائیلی قومی ترانے کا اردو ترجمہ 
’’جب تک دل میں یہودی روح ہے، یہ تمنا کے ساتھ مشرق کی طرف بڑھنا ہے، ہماری امید ابھی پوری نہیں ہوئی، اپنی زمین پر ایک ہزار سال کا خواب، اپنے خوابوں کی دنیا یروشلم۔ ہمارے دشمن یہ سن کر ٹھٹھر جائیں، مصر اور کنعان کے سب لوگ لڑکھڑا جائیں، بیبولون (بغداد) کے لوگ ٹھٹھر جائیں۔ ان کے آسمانوں پر ہمارا خوف اور دہشت چھائی رہے، جب ہم اپنے نیزے ان کی چھاتیوں میں گاڑھ دیں گے  اور ہم ان کا خون بہتے ہوئے اور ان کے سر کٹے ہوئے دیکھیں، تب ہم اللہ کے پسندیدہ بندے ہوں گے، جو چاہتا ہے۔" اردو کا محاورہ ہے کہ رسی جل گئی، ہر بل نہ گیا۔ ہٹلر نے ان کو ٹھیک ہی مارا اور یہ نمونے چھوڑ گیا، تاکہ لوگ ان کے کرتوت دیکھ کر سمجھ جائیں کہ اس کا یہ اقدام غلط نہ تھا۔

اس ترانے کو پڑھ کے لگتا ہے کہ اسرائیلیوں کو مصریوں اور اہل کنعان اور بغداد سے کوئی تاریخی دشمنی ہے۔ میں موجودہ مصر کے حکمرانوں پر حیران ہوں کہ انھوں نے اس غاصب صیہونی دہشت گرد گروہ، جو کہ ان کا اعلانیہ دشمن ہے، اس کو بطور ریاست کیسے تسلیم کر لیا ہے اور موجودہ حماس اور حزب اللہ کی طرف سے لڑی جانے والی بیت المقدس کی جنگ آزادی جسے "طوفان الاقصیٰ" کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں یہ اسلامی مزاحمت کے جنگجو تو اسرائیل کی فوج اور فوجی تنصیبات پر تاک تاک کے نشانے لگا رہے ہیں اور جواب میں اسرائیلی فوج کی طرف سے سکولوں، ہسپتالوں، شفاخانوں، عبادگاہوں، رہائشی عمارات اور سڑکوں پر مسلسل بم باری ہو رہی ہے، جس میں ممنوعہ سفید فاسفورس شامل ہے۔

 وہ آبادی میں بسنے والے عام شہریوں بالخصوصی عورتوں، بچوں، زخمیوں اور صحافیوں کا بے دریغ قتل عام کر رہا ہے۔ اب جبکہ پچھلے کئی ماہ سے یہ جنگ جاری ہے، جس میں ملبے کے نیچے دبے افراد کے علاوہ اکتیس ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے اور ستر ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ پوری دنیا سے اسرائیل کو تو ہر قسم کی امداد اور اسلحہ و ہتھیار اور گولہ بارود مل رہا ہے۔پورا عالم کفر اس کفر کی حمایت میں متحد ہے۔ یہ الگ بات کہ یورپ اور خود امریکہ اور اسرائیل کی عوام اس جنگ اور ظلم و اسرائیلیت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، مگر مصریوں کو اپنے رفاح بارڈر سے فلسطین کے زخمیوں اور بھوکوں اور پیاسوں کو امداد بھجوانے کے لیے اسرائیل سے اجازت لینا پڑتی ہے، جبکہ وہاں پانی بجلی کی بندش ہے۔ توانائی کی قلت سے ہسپتال بند ہوچکے ہیں۔

جہاں نومولود بچے، حاملہ عورتیں اور شدید زخمی بغیر کسی طبی امداد کے مر رہے ہیں۔ وہاں اسرائیل کھل کر جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے اور مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ پوری دنیا میں یہ پروپیگنڈا کرکے یورپ اور مسلم ممالک کی ہمدردیاں لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر اس وقت حزب اللہ اور حماس کو نہ ختم کیا گیا تو اگلا نمبر آپ کا ہے، جبکہ اسلامی مزاحمتی محور سے بار بار امت مسلمہ کو جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ اگر اس وقت اسرائیل کے مقابلہ میں حماس کا ساتھ دے کر ان صیہونی مظالم کو نہ روکا گیا تو یاد رکھا جائے کہ اگلا ہدف اور نشانہ ہمسایہ مسلم ممالک مصر، اردن، شام اور لبنان ہوں گے۔ جیسا کہ اسرئیل کے توسیع پسندانہ رجحانات ہیں، جس کا واضح ثبوت ان کا ہاتکوا ہے۔ جس میں مصر اور بغداد کو للکارا گیا ہے۔ یہاں مجھے حضرت اقبال کا وہ قطعہ یاد آرہا ہے کہ
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں (
ضرب کلیم)

حماس والے تو اس شعر کو سمجھ گئے اور وہ راز پا گئے۔ وہ تو طوفان الاقصیٰ سے مکمل آشنا ہیں اور ایران کے تعاون اور اللہ کی مدد سے میدان عمل میں مصروف جہاد ہیں۔ ان کے عزم اور حوصلے بلند ہیں، جو شہادت کو سرمایہ و افتخار سمجھتے ہوئے دشمن کی کسی دھمکی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ انھوں نے کمال تدبر اور حکمت عملی سے اسرائیلی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے انٹیلیجنس نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے ان کی حساس تنصیبات پر حملے کرکے نیٹ ورکنگ میں خلل ڈالا۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ مٹھی بھر جوان آئرن ڈوم کو ناکام اور معمولی آر پی جی راکٹ سے دشمن کے جدید ترین مرکاوہ ٹینک کو تباہ کرسکتے ہیں اور ان کے راکٹوں کے ساتھ اسرائیل کے اپنے راکٹ بھی اسرائیلی آبادیوں پر تباہی مچا دیں گے۔

بقول ِاقبال یہ اضطراب حماس اور لبنان کی حزب اللہ کے بحر میں تو آیا، یہ اضطراب عراق کی حشد الشعبی میں تو آیا، یہ اضطراب یمن کے انصار اللہ کے بحر میں بھی آیا۔ یہی اضطراب داعش کے خلاف برسوں لڑنے والے شامی زینبیون کے بحر میں تو آیا۔ جو کہ سب ایران کے ہی مزاحمتی محور کا حصہ ہیں، مگر بات یہ ہے کہ جب مسجد اقصیٰ کی حرمت کی بات ہو۔ جب ارض مقدس پر غاصب اسرائیل کے قبضے کی بات ہو۔ جب بیگناہ عورتوں اور بچوں کے قتل ِعام کی بات ہو۔ جب مظلوموں پر بندش آب اور ان کی بھوک پیاس اور افلاس کی بات ہو۔ جب ہسپتالوں اور رہائشی عماتوں پر وحشیانہ بمباری اور ملبوں کے نیچے اجتماعی قبریں بننے کی بات ہو، تب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور مصر کے بحر میں یہ اضطراب کیوں نہیں آتا۔

چند دن قبل عرب لیگ کے اجلاس میں یہ تجویز تھی کہ اسرائیل کا تیل اور رسد بند کیا جائے۔ مگر سات عرب ممالک نے اس کو تسلیم نہیں کیا۔ کسی نے امریکہ کو اڈے دے رکھے ہیں، کسی نے تیل تو کسی نے دیگر سازو سامان۔ پھر اس کا سادہ سا مطلب تو یہی ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی امت محمدی کتاب خوان تو ہیں، مگر شاید صاحب کتاب نہیں، جبکہ عربوں کے لیے کتاب بھی عربی میں ہے اور نہ سمجھنے کا کوئی بہانہ بھی نہیں ہے۔ کاش ہم نے قرآن سے یہ درس غیرت و حمیت لیا ہوتا۔ قرآن تو حق و حقانیت کا راستہ ہے۔ قرآن تو بزدلی کے بجائے بہادری کا درس دیتا ہے۔ قرآن تو طاقت اور جہاد کی بات کرتا ہے۔ قرآن تو درس انقلاب ہے۔ ہم تو حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال کے مسلم قوم کو دیئے گئے قرآنی نسخے بھی نہ سمجھ سکے۔
خبر کا کوڈ : 1121510
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش