0
Sunday 10 Mar 2024 17:44
قول و فعل میں مطابقت

شہید ڈاکٹر کے "تنظیمی مکتب" کی تیسری خصوصیت

شہید ڈاکٹر کے "تنظیمی مکتب" کی تیسری خصوصیت
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی قومی و ملی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ وہ بلاشبہ اپنے زمانے کی ایسی شخصیت تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کے شب و روز دین و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر رکھے تھے۔ آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو آپ کے قول و فعل میں عدم تضاد تھا۔ آپ کے دوستوں اور قریبی احباب کی متفقہ رائے ہے کہ وہ جب تک خود کوئی کام نہیں کرتے تھے، کسی دوسرے کو اس کا نہیں کہتے تھے۔ ان کا انداز یہ نہیں تھا کہ "تم چلو" بلکہ وہ کہتے تھے "آو چلیں۔" یعنی پہلے خود قدم بڑھاتے تھے، بعد میں دوسروں کو دعوت دیتے تھے۔ ذاتی معاملات ہوں یا اجتماعی، وہ گفتار کے نہیں کردار کے غازی تھے۔ ماہرین سماجیات کے بقول جو شخص کسی دوسرے کو کہنے سے پہلے خود وہ کام انجام دے تو یہ اس کے اپنے کام سے اخلاص اور کمٹمنٹ کی علامت ہوتی ہے۔ تنظیمی امور ہوں یا عبادی احکام، شہید ڈاکٹر صرف دوسروں کو نصیحت نہیں کرتے تھے بلکہ خود دوسروں سے پہلے انجام دیتے تھے۔

قول و فعل میں تضاد کو دینی ثقافت میں ایک قبیح امر جانا جاتا ہے۔ قرآن پاک اور معصومین کے ارشادات میں اس عمل سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: "يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۳" (الصفّ ۶۱: ۲- ۳)  "اے اہلِ ایمان! ایسی بات کیوں کہتے ہو، جس کو تم کرتے نہیں؟ یہ بات اللہ کی ناراضی بڑھانے کے لحاظ سے بہت سنگین حرکت ہے کہ تم زبان سے جو کہو اسے نہ کرو"(یعنی اپنی اپنی کہی ہوئی بات پر عمل نہ کرے)۔ اس آیت میں اہلِ ایمان کو قول و فعل میں تضاد جیسی انتہائی ناپسندیدہ حرکت پر متنبہ کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز اللہ رب العزت کی سخت ناراضی کا موجب بنے، اس کے انجام کے اعتبار سے مہلک ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔؟ آیت کا اسلوب بتا رہا ہے کہ اس میں بری روش پر تنبیہ کے ساتھ اس سے باز آجانے کی ہدایت بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قول و فعل میں مطابقت انسان کی بنیادی صفات میں سے ہے۔ اہلِ ایمان کے قول و فعل میں مطابقت ان کی امتیازی خصوصیت ہے۔ یہ صدقِ ایمان کی علامت ہے، اسی سے ایمان کی پختگی ظاہر ہوتی ہے۔

قرآن پاک میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: "اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۝۰ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝۴۴"(البقرہ ۲:۴۴) "کیا تم لوگ دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالاں کہ تم لوگ کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔؟" یہ آیت پیغام دے رہی ہے کہ ٹھنڈے دل سے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ نیکی و خیر کی جس بات کو تم خود اپنی زندگی میں داخل نہیں کرتے، تو پھر کیسے توقع رکھتے ہو کہ دوسرے اسے دل و جان سے قبول کریں گے یا تمھاری باتوں پر دھیان دیں گے؟ کیا تم لوگوں نے اللہ کی کتاب پڑھتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ جو ہدایات اس میں دی گئی ہیں، وہ عمل کے لیے ہیں۔؟ کیا اللہ کی کتاب میں بار بار لوگوں کو اس حقیقت کی جانب متوجہ نہیں کیا گیا ہے کہ اس کی ہدایات و تعلیمات اسی صورت میں ان کے لیے موجبِ برکت و باعثِ رحمت ثابت ہوں گی، جب ان پر صدقِ دل سے عمل کیا جائے۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ مذکورہ آیت میں خطاب بنی اسرائیل سے ہے، تاہم اس میں ہر دور کی اُمتِ مسلمہ (جس کا ہر فرد اپنی اہلیت کے مطابق اپنی جگہ دین کا داعی ہے) کے لیے بھی یہ بڑا قیمتی سبق ہے۔ لہٰذا ضرورت، بلکہ اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ جو کچھ نیکی و بھلائی کی باتیں اور قیمتی و کارگر نصیحتیں ہمیں یاد ہوں اور دوسروں کو بتانا چاہیں، لیکن پہلے خود ان پر سنجیدگی و پابندی سے عمل کرکے ان کے فیوض و برکات کا اپنے کو مستحق بنانا چاہیئے، پھر دوسروں کو انھیں بتا کر یا ان کی راہ دکھا کر انھیں بھی مستفیض کرنے کی کوشش کی جائے۔ قرآن حکیم و مجید میں اس طرح بھی آیا ہے: "وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ"، ’’اور وہ لوگ وہ باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں‘‘ (الشعراء:۲۲۶)

احادیت نبوی اور روایات معصومین (ع) میں بھی قول و فعل کی مطابقت پر تاکید ملتی ہے۔ "عَنْ اُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:’’ يُوْتَي بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُلْقَي فِي النَّارِ، فَتَنْدَلِقُ اَقْتَابُ بَطْنِهِ، فَيَدُورُ بِهَا كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِالرَّحَي، فَيَجْتَمِعُ إِلَيْهِ اَهْلُ النَّارِ، فَيَقُولُونَ: يَا فُلَانُ مَا لَكَ؟ اَلَمْ تَكُنْ تَاْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنْهَي عَنِ الْمُنْكَرِ؟ فَيَقُولُ: بَلٰي، قَدْ كُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيهِ، وَاَنْهَي عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ۔‘‘، "اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: ’’قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا، جس سے اس کے پیٹ کی آنتیں نکل آئیں گی، وہ آنتوں کو لے کر اس طرح گھومے گا جس طرح گدھا چکی کو لے کر گھومتا ہے، دوزخ والے اس کے پاس اکٹھے ہو کر کہیں گے: "اے فلاں! تجھے کیا ہوا؟ (یعنی آج تو کس حالت میں ہے؟) کیا تو لوگوں کو نیکی کا حکم نہیں دیتا اور برائی سے نہیں روکتا تھا؟ وہ کہے گا: "ہاں میں لوگوں تو نیکی کا حکم دیتا تھا، لیکن خود اس نیکی پر عمل نہیں کرتا تھا اور لوگوں کو برائی سے منع کرتا تھا، لیکن میں خود برائی میں مبتلا تھا۔"

امیر مؤمنان علی علیه السلام فرماتے ہیں: "اَیُّها النّاس، اِنّى واللهُ ما اَحُطَّکُم عَلى طاعَة اِلاّ اَسْبِقُکُم اِلَیْها وَلا اَنْها کُمْ عَنْ مَعْصیَة اِلاّ اَتْناها قَبْلَکُمْ مِنْها"، "میں تمہیں کسی اطاعت کی دعوت نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ میں خود کروں اور میں تمہیں کسی گناہ سے نہیں روکتا، جب تک کہ میں خود اس گناہ سے باز نہ آؤں۔" علی (علیه السلام) نهج البلاغه کے ایک خطبے میں فرماتے ہیں: "لعن الله الامرین بالمعروف التاركین له و الناهین عمن المنكر العاملین به"، "خدا کی لعنت ہے، ان لوگوں پر جو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور خود عمل نہیں کرتے اور برائی سے روکتے ہیں اور جس سے دوسروں کو روکتے ہیں، اس کا خود ارتکاب کرتے ہیں۔" (نہج البلاغہ، ص 129)۔ امام حسین(ع) فرماتے ہیں: "إِنّ الْكَريِمَ إِذَا تَكَلّمَ بِكَلاَمٍ، يَنْبَغِى اَنْ يُصَدّقَهُ بِالْفِعْلِ"، "محترم وہ ہے، جس کے الفاظ اس کے عمل سے ملتے ہیں۔"

قول و فعل کا تضاد ہمارا ایک بڑا مسئلہ اور معاشرے کے لیے تباہ کن خصلت ہے۔ یہ تضاد ہی سماج کو برباد کر دیتا اور برائی کو فروغ دیتا ہے۔ ایک سچے مسلمان کا عمل مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اس کے قول و فعل میں مطابقت ہونی چاہیئے، وہ جو کہے، وہی کرے۔ دنیا میں وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں، جو صرف باتیں نہیں، بلکہ عمل کرتی ہیں اور ان کا کردار مضبوط ہوتا ہے۔ جن افراد اور اقوام کے ارادے صرف باتوں تک محدود ہوں، ان میں عمل نہ پایا جاتا ہو، انھیں کبھی کامیابی نہیں ملتی۔ انھیں رسوائی ملتی ہے۔ان کا اعتبار ختم ہو جاتا ہے اور دنیا میں ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ قول و فعل میں تضاد کو اگر منافقت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ منافقت یہی تو ہے کہ دِل و دماغ میں جو سوچ ہو، زبان سے اْس سوچ کا برعکس اظہار کیا جائے۔

قول و فعل کا تضاد ہمارے معاشرے کا نمایاں المیہ اور ہمارے زوال کا اہم سبب ہے۔ ہم اخلاص سے خالی اور دکھلاؤے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا ہر عمل اغراض و مفادات کے پردوں میں چھپا ہوتا ہے۔ ہماری عبادات، معاملات، معیشت و تجارت، لین دین کے پیمانوں میں دو رخی اور جھوٹ شامل ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارا دین ہمیں دوسروں سے خیر خواہی کا درس دیتا ہے، لیکن ہم دوسروں کی زندگی اجیرن بنا کر خوش ہوتے ہیں۔ ہم ساری دنیا پر اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں، لیکن خود اچھا مسلمان بننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ہم دعوے کچھ کرتے ہیں، لیکن عملی زندگی میں ان دعوؤں پر عمل نظر نہیں آتا۔ جھوٹ، مکر، فریب، غیبت ، بخیلی، تنگ دلی، ناانصافی، فضول گوئی، بے صبری، خود نمائی، خود ستائی، دروغ گوئی، وعدہ خلافی، راز کی سبوتاژی، دشنام طرازی، لڑائی جھگڑے، آبروریزی، ایذا رسانی، نفرت، ظلم، غصہ، تخریب کاری، چغل خوری، حرام کاری، کام چوری، ہٹ دھرمی، ناپ تول میں کمی، حرص، ریاکاری اور منافقت سمیت ہر برائی کی ہم مذمت کرتے ہیں، لیکن یہی تمام برائیاں ہم میں پائی جاتی ہیں۔

قول و فعل کا تضاد ہمیں پاکیزگی سے دور کر دیتا ہے۔ قول و فعل میں مطابقت زندگی میں سکون لاتی ہے اور ہمیں کامیابیوں سے نوازتی ہے۔ بہرحال اوپر ذکر کی گئی آیات و روایات کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ شہید ڈاکٹر نقوی کے تنظیمی مکتب میں قول و فعل میں مطابقت کی بنیادی وجہ دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہے۔ شہید اگر کسی کارکن کو اول وقت نماز پڑھنے، قرآن کی تلاوت کرنے یا دعا و مناجات پر توجہ دینے کا کہتے تھے تو وہ خود پہلے سے اس پر عمل پیرا تھے۔ آپ کسی فرد کو جب اجتماعی امور کی انجام دہی کی دعوت تھے تو پہلے خود اس کام کو انجام دے رہے ہوتے تھے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی کی متعدد مثالیں موجود ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آرام دہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر یا دفتر کے ائیرکنڈیشنڈ میں ٹھنڈی ہوا کے مزے لیتے ہوئے کارکنان کو سختیاں جھیلنے کا حکم نہیں دیتے تھے۔

اگر تنظیمی کارکنان پولیس کی موجودگی میں رات کو دیوار نویسی اور پوسٹر لگانے کا خطرہ مول لیتے اور تنظیمی ذمہ داری ادا کرتے تو شہید بھی گاہے بگاہے ان کے ہمراہ ہوتے۔ شہید ڈاکٹر کے بارے میں یہ واقعہ کئی بار نقل ہوا کہ آپ نے راولپنڈی یا ہری پور میں وکلاء سے خطاب کرنا تھا۔ ان دنوں لاہور میں تشیع کا ایک مرکزی اجتماع منعقد ہونا تھا، جس کے لیے تشہیراتی مہم جاری تھی۔ آپ نے رات کو لاہور سے سفر کا آغاز کیا اور راستے میں اہم جگہوں پر دیوار نویسی اور پوسٹر چسپاں کرتے کرتے صبح راولپنڈی پہنچے۔ دیوار نویسی اور پوسٹر لگانے سے کپڑے اس قابل نہیں رہے تھے کہ اس لباس کے ساتھ وکلاء کے اجتماع سے خطاب کرتے، لہذا ایک ساتھی سے لباس عاریتاً لیا اور پروگرام میں خطاب کیا۔

آپ نے کبھی کسی کو خطرے میں نہیں ڈالا، جب تک وہ خود اس پرخطر کام میں شامل نہ ہوں۔ آپ جب سعودی عرب میں برائت از مشرکین کا فریضہ ادا کرنے کے لیے جا رہے تھے تو کئی احباب نے اس پرخطر سفر سے روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ آپ اپنی ٹیم کو بھیج دیں اور اس پراجیکٹ کو دور سے مانیٹر کریں، لیکن آپ نے کسی کی نہ مانی اور سب ساتھیوں سے پہلے جان کا خطرہ مول لیتے ہوئے یہ معرکہ سرانجام دیا۔ احتجاجات ہوں یا حکومت مخالف اجتماعات، آپ ان سب میں صف اول میں نظر آتے تھے۔ پرخطر امور میں سبقت اور پیش قدمی آپ کا شیوہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کارکن بھی آپ کو دیکھ کر بڑے سے بڑے خطرے میں کود پڑتے تھے۔

1980ء کے تاریخی اسلام آباد کنونشن میں کفن پوش دستے کی قیادت ہو یا 6 جولائی، 1985ء میں مارشل لاء کی سخت پابندیوں اور کرفیو میں کوئٹہ میں تنظیمی فرائض کی ادائیگی ہو، ڈیرہ اسماعیل خان میں چلتی گولیوں میں جلوس برآمد کرنے کی کوشش ہو یا ایران عراق جنگ میں کیمیکل اور خطرناک بمباری میں زخمیوں کا علاج، شہید ڈاکٹر دوسروں سے آگے بڑھ کر خطرات کو مول لینے کے لیے تیار ہوتے۔شہید ڈاکٹر کے قول و فعل میں ہم آہنگی کے متعدد واقعات نقل کیے جا سکتے ہیں، لیکن مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے ایک واقعہ نقل کر دیتا ہوں۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ اکثر اوقات انسان خود تو زحمتیں اور مشکلات برداشت کر لیتا ہے، لیکن اپنے بچوں کو سختیوں اور خطرات میں نہیں ڈالتا۔ بچوں کا مستقبل تمام والدین کے لیے ترجیحات میں ہوتا ہے۔ شہید ڈاکٹر نے اس حوالے سے بھی قول و فعل کے عدم تضاد کو مدنظر رکھا اور اپنے بچوں کے مستقبل کو بھی خطرات سے دوچار کرنے سے پرہیز نہیں کیا۔

آپ نے جب لاہور میں المصطفیٰ ایجوکیشن کونسل کے تحت سکولوں کا سسٹم شروع کیا تو شہید ڈاکٹر نے اپنے بچوں کا داخلہ اس نئے شروع ہونے والے سکول میں کر دیا۔ خاندان اور دوست احباب نے متوجہ کیا کہ یہ نئے اسکولز ہیں اور ان کی تعلیمی معیار کی بہتری میں وقت لگے گا۔ آپ اپنے بچوں کا مستقبل کیوں داو پر لگا رہے ہیں۔ آپ نے پورے اطمینان سے جواب دیا کہ اگر مین ان سکولوں میں اپنے بچوں کے داخلے نہیں کرواوں گا تو کسی دوسرے کو کیسے کہہ سکوں گا کہ آپ اپنے بچوں کا ان اسکولوں میں داخل کرائیں۔ میں اپنے بچوں کا رسک نہ لوں اور دوسروں کے بچوں کو تجربہ گاہ میں بھیج کر ان کے مستقبل سے کھیلوں؟ اس زمانے میں والدین اپنی بچیوں کو دینی تعلیم کے لیے قم نہیں بھیجتے تھے۔ آپ نے اپنی بیٹی کو قم بھیج کر دوسروں کے لیے مثال قائم کی۔

آپ تنظیمی اور ذاتی زندگی کے دیگر امور میں اس بات پر سختی سے کاربند تھے کہ جو اپنے لیے پسند کرو، وہی دوسروں کے لیے پسند کرو۔ آپ ایسے رہنماء نہیں تھے، جن کے قول و فعل میں تضاد ہو۔ آپ ایسے لیڈر نہیں تھے کہ جن کے بچے تو عیش و عشرت میں پلے بڑھیں، لیکن تنظیمی کارکنان کے بچے غربت و افلاس میں زندگی کے دن پورے کریں۔ آپ اپنے مولا و آقا امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس فرمان پر عمل کرتے تھے کہ "لوگوں کو زبان سے نہیں بلکہ عمل سے تبلیغ کرو۔"
خبر کا کوڈ : 1121626
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش