0
Thursday 14 Feb 2013 01:27

صبح کا بھولا

صبح کا بھولا
تحریر: سیدہ ایمن نقوی

ہم کسی اور میدان میں ترقی کریں یا نہ کریں مغربی تہذیب کی پیروی میں سب سے آگے ہیں۔ نجانے کیا بات ہے کہ مغرب کی پیروی میں کیوں ہم اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے، اور اس پیروی کو ہم نے اپنا دین و ایمان بنا رکھا ہے۔ اور جو اصلِ دین ہے اسکو فراموش کئے بیٹھے ہیں۔ اپنے آپ کو ماڈرن ظایر کرنے کے چکر میں ہم اپنی اصلیت بھولتے جا رہے ہیں، بنا سوچے سمجھے اندھی تقلید کرنا عقلمندی کا تقاضا نہیں۔ بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں، لیکن مسلمانوں والی کوئی بات ہم میں نہیں پائی جاتی۔ خرافات کو اپنانے میں ہم اپنی مثال آپ ہیں، دین میں بدعتوں کو رواج دینا ہو تب بھی ہم نمبر ون ہیں، اسی کی ایک مثال "ویلنٹائن ڈے" ہے جسکو منانے میں ہم ان سے بھی آگے نکل گئے جہاں سے اس روایت کا آغاز ہوا تھا۔ آخر اس ویلنٹائن ڈے کی حقیت کیا ہے؟ اگر آپ انہی لوگوں سے سوال کریں تو شاید ہی کوئی درست جواب دے سکے، بس کچھ رسمیں ہم نے دیکھا دیکھی اپنا لی ہیں، متاسفانہ آج کا نوجوان انحراف کا شکار ہوتا جا رہا ہے، ایسا کیوں ہے؟ جب ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو اس کی جو سب سے بڑی وجہ نظر آتی ہے وہ اسلام سے دوری ہے، ماڈرنزم کے شوق اور مغرب کی پیروی میں ہم نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنی شاندار اسلامی ثقافت اور تعلیمات کو بھلا دیا ہے۔

اس دن کو منانے کے لیے ہم اپنے ہزاروں قیمتی روپے برباد کرتے ہیں، اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں، اپنے وہ قیمتی جذبات کو جو کسی اور کی امانت ہوتے ہیں اس میں خیانت کرتے ہوئے انہیں اس فرد کو جو ان کا اصلی حقدار نہیں، پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ اس دن کو محبت کرنے والوں سے مخصوص کیا گیا ہے ہم میں سے کتنے فیصد لوگ ہیں جو اس دن میں اپنی بیویوں کو، بیویاں اپنے شوہروں کو یا اپنے بہن بھائیوں کو، اپنے عزیز و اقارب بالخصوص غریب رشتہ داروں کو وہی گفٹس اور جذبات جو وہ "کسی اور" کو تقدیم کرتے ہیں بجائے انکے اپنے پیاروں کی نظر کرتے ہیں۔ ہم نے کیوں ہوا و ہوس کا نام ہی محبت رکھ دیا ہے، محبت کے اگر صحیح معنوں کو سمجھنا ہے تو ہمیں سرورِکائنات (ص) کی زندگی کو اپنے لیے اسوہ قرار دینا ہو گا۔ نوجوان نسل کی بربادی میں آج کے میڈیا کا بھی بہت ہاتھ ہے، آج آپ جس چیز کو مرضی اٹھا کر دیکھیں بالخصوص فلمز، ڈرامے، ناول ان میں زںدگی کا مقصد ہی جنس مخالف کے لیے ایک دوسرے کا حصول ہے، جیسے دنیا میں اس سے اہم کوئی اور کام نہیں، میڈیا کے ساتھ ساتھ والدین کی نادرست تربیت سونے پہ سہاگے کا کام کرتی ہے، جب والدین ہی ان باتوں کو برا نہیں سمجھیں گے بلکہ خود بھی انہی خرافی رسوم کا شکار ہونگے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بھی منع نہیں کرتے، ویلنٹائن ڈے جیسی خرافی رسم نے بھی پوری دنیا کو آکٹوپس کی طرح جکڑ رکھا ہے، شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جو اس سے محفوظ ہو۔

اس دن کی تاریخی حقیقت:
اگر یہ کوئی بہت اہم تہوار ہوتا تو انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا میں اس کا ذکر محض چند سطور پر مبنی نہ ہوتا، جہاں معمولی معمولی واقعات کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا میں سینٹ ویلنٹائن کے متعلق چند سطری تعارف کے بعد ویلنٹائن ڈے کے متعلق محض ان الفاظ میں تذکرہ ملتا ہے، کہ "سینٹ ویلنٹائن ڈے" کو آج کل جس طرح عاشقوں کے تہوار (Lover's Fesitival) کے طور پر منایا جاتا ہے یا ویلنٹائن کارڈز بھیجنے کی جو نئی روایت چل نکلی ہے، اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق رومیوں کے دیوتا لوپر کالیا کے حوالہ سے پندرہ فروری کو منائے جانے والے تہوارِ بار آوری یا پرندوں کے ’"ایامِ اختلاط" (Meeting Season) سے ہے۔" اس مستند کتاب کے مطابق اس دن کو سینٹ سے سرے سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ بعض رومانویت پسند ادیبوں نے جدت طرازی کے نشے میں ڈوب کر اس کو خواہ مخواہ سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ نے ماضی میں کبھی بھی اس تہوار کو قومی یا ثقافتی تہوار کے طور پر قبول نہیں کیا۔ التبہ آج کے یورپ کے روایت شکن دیوانوں کا معاملہ جدا ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور انسائیکلو پیڈیا "بک آف نالج" میں اس دن کے بارے میں نسبتاً زیادہ تفصیلات ملتی ہیں مگر وہ بھی چند سطور سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس کی پہلی سطر ہی رومان انگیز ہے "14 فروری مجبوبوں کے لئے خاص دن ہے"۔ اس کے بعد پرندوں کے اختلاط کا ملتا جلتا تذکرہ ان الفاظ میں ملتا ہے، "ایک وقت تھا کہ اسے سال کا وہ وقت خیال کیا جاتا تھا جب پرندے صنفی مواصلت کا آغاز کرتے ہیں اور محبت کا دیوتا نوجوان مردوں اور عورتوں کے دلوں پر تیر برسا کر انہیں چھلنی کرتا ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے تھے کہ انکے مستقبل کی خوشیاں ویلنٹائن کے تہوار سے وابستہ ہیں"۔ اسی انسائیکلو پیڈیا میں ویلنٹائن ڈے کو تاریخی اعتبار سے کچھ یوں بیان کیا گیا ہے، "ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کو سینٹ ویلنٹائن کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقۂ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلنٹائن والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیے کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے۔ اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے شوہر کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کر دیا"۔

اس دن کو 14 فروری سے کیوں منسوب کیا گیا؟
14 فروری کو سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں ہے البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری تھا جو ایک راہبہ(Nun) کی زلف ِگرہ گیر کا اسیر ہوا۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا اس لئے ایک دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ 14فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کر لیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے اس پر یقین کر لیا، کلیسا کی روایات کیخلاف ورزی پر انہیں قتل کر دیا گیا۔ بعد میں کچھ عاشقوں نے ویلنٹائن کو "شہید ِمحبت" کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یاد میں دن منانا شروع کر دیا۔ قدیم روم میں اس تہوار کو خاوند کے شکار کا دن سمجھا جاتا تھا۔ اسلامی نظام میں عورت کو جو احترام حاصل ہے اس کے پیش نظر اس کی شادی بیاہ کا اہتمام اس کے خاندان کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، لیکن آج ہم ان خرافی رسوم کی تقلید کرتے ںظر آتے ہیں۔ البتہ چرچ نے بھی ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ دو سال قبل بھی عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرِ آتش کردیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہو رہے تھے۔

محمد عطاء اللہ صدیقی صاحب ویلنٹائن ڈے سے متعلق اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ "یورپ و امریکہ میں ویلنٹائن ڈے کیسے منایا جاتا ہے اور اس کو منانے والے دراصل کون ہیں؟ اس کی تفصیلات جاننے کے بعد اس دن کو محض یومِ محبت سمجھنا درست نہیں ہے۔ یہ تہوار ہر اعتبار سے "یومِ اوباشی" یا "یومِ اباحیت" کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ مغرب میں محبت کا تصور و مفہوم یکسر مختلف ہے۔ جس جذبے کو وہاں محبت (Love) کا نام دیا جاتا ہے، وہ در حقیقت بو الہوسی (Lust) ہے۔ مغرب کے تہذیبی اہداف میں جنسی ہوس ناکی اور جنسی بائولے پن کی تسکین کی خاطر مرد و زن کے آزادانہ اختلاط کو بھرپور ہوا دینا ہے۔ اس معاشرے میں عشق اور فسق میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ مرد و زن کی باہمی رضامندی ہر طرح کی شہوترانی اور زنا کاری وہاں محبت (Love) ہی کہلاتی ہے۔ اسی طرح ویلنٹائن ڈے منانے والوں کی جانب سے محبت (Love) کا لفظ جنسی بے راہ روی کے لئے بطورِ استعارہ استعمال ہوتا ہے۔"

وہ اپنے اس مضمون میں اپنے ایک دوست کے حوالے سے لکھتے ہیں "کہ ہمارے ایک فاضل دوست جو نہ صرف امریکہ سے بین الاقوامی قانون میں پی ایچ ڈی کر کے آئے ہیں بلکہ وہاں ایک معروف یونیورسٹی میں پڑھانے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں، انہوں نے اپنے چشم دید واقعات کی روشنی میں اس کا پس منظر بیان کیا کہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور یورپ میں اس دن کو جوش و خروش سے منانے والوں میں ہم جنس پرستی میں مبتلا نوجوان لڑکے (Gay) اور لڑکیاں پیش پیش تھیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سان فرانسسکو میں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ہم جنس پرست خواتین و حضرات کے برہنہ جلوس دیکھے۔ جلوس کے شرکاء نے اپنے سینوں اور اعضائے مخصوصہ پر اپنے محبوبوں کے نام چپکا رکھے تھے۔ وہاں یہ ایسا دن سمجھا جاتا ہے جب "محبت" کے نام پر آوارہ مرد اور عورتیں جنسی ہوسناکی کی تسکین کے شغل میں غرق رہتی ہیں۔ جنسی انارکی کا بدترین مظاہرہ اسی دن کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہ دوست آج کل لاہور میں ایک پرائیویٹ لاء کالج کے پرنسپل ہیں۔ ایک جدید، روشن خیال اور وسیع المطالعہ شخص ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان میں
"ویلنٹائن ڈے" منانے والوں کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے کہا کہ "میرا جی چاہتا ہے کہ اس دن کو منانے کے لئے جہاں جہاں اسٹال لگائے گئے ہیں، انہیں آگ لگا دوں" 

اس دن کے آغاز کے بارے میں مختلف روایات:
اس دن کے آغاز کے بارے میں اور بھی بہت سی روایات مشہور ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ وہ دن ہے جب سینٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا تو اور لوگوں نے اُسے محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اُسی کے نام کر دیا۔ کئی لوگ اُسے کیوپڈ (محبت کے دیوتا) اور وینس (حسن کی دیوی) سے موسوم کرتے ہیں جو کیوپڈ کی ماں تھی۔ یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں جو اپنی محبت کے زہر بجھے تیر نوجوان دلوں پر چلا کر اُنھیں گھائل کرتا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آ رہے ہیں۔ 14 فروری کا دن وہاں رومن دیوی، دیوتاؤں کی ملکہ جونو کے اعزاز میں یوم تعطیل کے طور پر منایا جاتا تھا۔ اہلِ روم ملکہ جونو کو صنفِ نازک اور شادی کی دیوی کے نام سے موسوم کرتے ہیں جبکہ 15 فروری لیوپرکس دیوتا کا دن مشہور تھا اور اس دن اہلِ روم جشنِ زرخیزی مناتے تھے۔ اس موقع پر وہ پورے روم میں رنگارنگ میلوں کا اہتمام کرتے۔ جشن کی سب سے مشہور چیز لڑکے اور لڑکیوں کے نام نکالنے کی رسم تھی۔ ہوتا یوں تھا کہ اِس رسم میں لڑکیوں کے نام لکھ کر ایک برتن میں ڈال دئیے جاتے اور وہاں موجود نوجوان اِس میں سے باری باری پرچی نکالتے اور پھر پرچی پر لکھا نام جشن کے اختتام تک اُس نوجوان کا ساتھی بن جاتا جو آخرکار مستقل بندھن یعنی شادی پر ختم ہوتا۔

ایک دوسری روایت میں اس تہوار کے تاریخی پس منظر کو دیکھا جائے تو اس تہوار کا تعلق سینٹ ویلنٹائن سے جوڑا جاتا ہے۔ سینٹ ویلنٹائن نصرانی کنیسہ کے دوقدیم قربان ہونے والے اشخاص کا نام ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ دوشخص تھے، اور ایک قول میں ہے بلکہ اِس نام کا ایک ہی شخص تھا جو شہنشاہ کلاڈیس کی تعذیب کی تاب نہ لاتے ہوئے 296 عیسوی میں ہلاک ہو گیا، اور جس جگہ یہ ہلاک ہوا اُسی جگہ 350 عیسوی میں بطور یادگار ایک کنیسہ تیار کیا گیا۔ جب رومیوں نے عیسائیت قبول کی تو وہ اپنے اس سابقہ تہوار یوم محبت کو مناتے رہے لیکن اُنہوں نے اسے بت پرستی کے مفہوم سے نکال کر محبت الہٰی میں تبدیل کر لیا اور دوسرے معنوں میں محبت کے شہداء میں بدل لیا اور اُنہوں نے اسے اپنے گمان کے مطابق محبت و سلامتی کی دعوت دینے والے سینٹ ویلنٹائن کے نام کر دیا جسے اس راستے میں شہید گردانتے ہیں اور اسے عاشقوں کی عید اور تہوار کا نام دیا جاتا ہے۔

ان کے باطل اعتقادات اور اس دن کی مشہور رسم یہ تھی کہ نوجوان اور شادی کی عمر میں پہنچنے والی لڑکیوں کے نام کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر ایک برتن میں ڈالے جاتے اور اُسے ٹیبل پر رکھ دیا جاتا اور شادی کی رغبت رکھنے والے نوجوان لڑکیوں کو دعوت دی جاتی کہ وہ اُس سے ایک ایک پرچی نکالیں لہٰذا جس کا نام اُس قرعہ میں نکل آتا وہ لڑکا اُس لڑکی کی ایک برس تک خدمت کرتا اور وہ ایک دوسرے کے اخلاق کا تجربہ کرتے پھر بعد میں شادی کر لیتے یا پھر آئندہ برس اسی تہوار یومِ محبت میں دوبارہ قرعہ نکالتے۔ نصرانیت کے علماء بھی اس رسم کو بہت برا سمجھتے ہیں اور اِسے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے اخلاق خراب کرنے کا سبب قرار دیتے ہیں لہٰذا اٹلی جہاں پر اسے بہت شہرت حاصل تھی، ناجائز قرار دے دیا گیا، پھر بعد میں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دوبارہ زندہ کیا گیا۔ وہ کچھ یوں کہ یورپی ممالک میں چند بک ڈپوؤں پر ایک کتاب ( ویلنٹائن کی کتاب کے نام سے ) فروخت شروع ہوئی جس میں عشق و محبت کے اشعار ہیں، جسے عاشق قسم کے لوگ اپنی محبوبہ کو خطوط میں لکھنے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور اِس میں عشق و محبت کے خطوط لکھنے کے بارہ میں چند تجاویز بھی درج ہیں۔

اس تہوار کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب رومیوں نے نصرانیت قبول کی اور عیسائیت کے ظہور کے بعد اس میں داخل ہوئے تو تیسری صدی عیسوی میں شہنشاہ کلاڈیس دوم نے اپنی فوج کے لوگوں پر شادی کرنے کی پابندی لگا دی کیونکہ وہ بیویوں کی وجہ سے جنگوں میں نہیں جاتے تھے تو اُس نے یہ فیصلہ کیا لیکن سینٹ ویلنٹائن نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے چوری چھپے فوجیوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا اور جب کلاڈیس کو اس کا علم ہوا تو اُس نے سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور اُسے سزائے موت دے دی۔ کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران ہی سینٹ ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی اور سب کچھ خفیہ ہوا کیونکہ پادریوں اور راہبوں پر عیسائیوں کے ہاں شادی کرنا اور محبت کے تعلقات قائم کرنا حرام ہیں۔ شہنشاہ نے اسے عیسائیت ترک کرکے رومی دین قبول کرنے کا کہا کہ اگر وہ عیسائیت ترک کر دے تو اُسے معاف کر دیا جائے گا اور وہ اسے اپنا داماد بنانے کے ساتھ اپنے مصاحبین میں شامل کرے گا لیکن ویلنٹائن نے اس سے انکار کر دیا اور عیسائیت کو ترجیح دی اور اسی پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا تو 14 فروری 270 عیسوی کے دن اور 15 فروری کی رات اُسے پھانسی دے دی گئی۔ تو اُس دن سے اسے قدیس یعنی پاکباز بشپ کا خطاب دے دیا گیا۔ روایت کے مطابق اُس دن کی یاد میں محبت کرنے والوں کے درمیان پیار بھرے پیغامات کا تبادلہ ہو گیا۔

ویلنٹائن ڈے مختلف ممالک میں:
برطانیہ میں ویلنٹائن ڈے کو سترہویں صدی عیسوی میں مقبولیت ملی۔ اٹھارویں صدی کے وسط تک اس دن پیغامات کا تبادلہ عام ہو گیا۔ اس صدی کے اختتام تک ویلنٹائن ڈے کے کارڈز سامنے آ گئے جو جذبات کے اظہار کا آسان ذریعہ بنے۔ یہ برطانیہ کا وہ دور تھا جب عورتوں مردوں کا گھلنا ملنا زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ امریکیوں میں بھی ویلنٹائن ڈے کے پیغامات کا تبادلہ اٹھارویں صدی میں شروع ہوا۔ ویلنٹائن ڈے پر مختلف طرز کے تحفے دینے کا رواج ہے۔ ان تحائف میں پہلی بار جو تحفہ سامنے آیا وہ نقش و نگار والی پیپرلیس تھی جس کو امریکہ میں تیار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد برطانیہ میں ویلنٹائن ڈے کارڈ کا رواج عام ہوا۔ امریکن گریٹنگ کارڈ ایسوسی ایشن کے اندازے کے مطابق اس دن دنیا بھر میں ایک ارب کارڈ بھیجے جاتے ہیں اور اسی لحاظ سے یہ دوسرا بڑا دن ہے جس دن اتنے کارڈ بھیجے جاتے ہیں۔ دنیا میں سب سے ذیادہ کارڈ کرسمس پر لوگ ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں۔ ایسوسی ایشن نے ایک اور اندازہ لگایا ہے کہ 85 فیصد عورتیں ویلنٹائن کی چیزیں خریدتی ہیں۔ انیسویں صدی میں ہاتھوں سے لکھے گئے خطوط اس دن بھیجنے کا رواج تھا جس نے بعد میں گریٹنگ کارڈ کی شکل اختیار کر لی۔

ویلنٹائن ڈے اب ایک جشن کا دن نہیں بلکہ بہت بڑے کاروبار کا دن بھی ہے۔ رواں سال کینیا، بھارت اور دیگر ممالک سے لاکھوں ڈالر کے سرخ گلاب برطانیہ پہنچے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے والے دن ہیرے کے جواہرات بھی تحفے میں دیئے جاتے ہیں۔ امریکہ کے بعض ایلیمنڑی اسکولوں میں طلبہ سے اپنی جماعتوں کو سجانے کیلئے اور اپنی جماعت میں موجود تمام ساتھیوں کو ویلنٹائن کارڈ یا تحفہ دینے کیلئے کہا جاتا ہے۔ برطانیہ سے رواج پانے والے اس دن کو بعد میں امریکہ اور جرمنی میں بھی منایا جانے لگا۔ تاہم جرمنی میں دوسری جنگ عظیم تک یہ دن منانے کی روایت نہیں تھی۔ برطانیوی کاؤنٹی ویلز میں لکڑی کے چمچ 14 فروری کو تحفے کے طور پر دیئے جانے کیلئے تراشے جاتے اور خوبصورتی کیلئے ان کے اُوپر دل اور چابیاں لگائی جاتی تھیں جو تحفہ وصول کرنے والے کیلئے اِس بات کا اشارہ ہوتیں کہ تم "میرے بند دل کو اپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو"۔ کچھ لوگ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کو اگر کوئی چڑیا کسی عورت کے سر پر سے گزر جائے تو اُس کی شادی ملاح سے ہوتی ہے اور اگر عورت کوئی چڑیا دیکھ لے تو اُس کی شادی کسی غریب آدمی سے ہوتی ہے جبکہ زندگی بھی خوشگوار گزرے گی اور اگر عورت ویلنٹائن ڈے پر کسی سنہرے پرندے کو دیکھ لے تو اُس کی شادی کسی اُمیر کبیر شخص سے ہو گی اور زندگی ناخوشگوار گزرے گی۔ امریکہ میں روایت مشہور ہے کی 14فروری کو وہ لڑکے لڑکیاں کو آپس میں شادی کرنا چاہتے ہیں سٹیم ہاؤس جا کر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے نام دہرائیں۔ جونہی رقص ختم ہو گا اور جو آخری نام اُن کے لبوں پر ہو گا۔ اُس سے ہی اس کی شادی قرار پائے گی۔

دوسرے ممالک میں بھی یہ دن مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں ویلنٹائن ڈے کو علاقائی روایت مانا جاتا ہے۔ نور فولک میں جیک نامی ایک کریکٹر گھروں کے پچھلے دروازوں پر دستک دتیا ہے اور بچوں کیلئے دورازے پر ٹافیاں اور تحائف چھوڑ جاتا ہے۔ ویلز میں بہت لوگ اس دن کی جگہ 25 جنوری کو "سینٹ ڈائینونز" ڈے مناتے ہیں۔ فرانس روایتی طور پر ایک کیتھولک ملک ہے، یہاں ویلنٹائن ڈے کو "سینٹ ویلنٹین" کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہاں یہ دن مغربی ممالک کی طرح ہی منایا جاتا ہے اور اسپین میں بھی یہ دن دوسرے مغربی ممالک کی طرح منایا جاتا ہے۔ ڈنمارک اور ناروے میں یہ دن بڑے پیمانے پر نہیں منایا جاتا مگر کئی لوگ اس دن اپنے ساتھی کے ساتھ رومانوی ڈنر پر جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو کارڈز اور تحائف دیتے ہیں۔ سویڈن میں اس دن کو "آل ہارٹس ڈے" کہا جاتا ہے اور یہاں یہ دن پہلی بار 1960ء میں منایا گیا جس کی بنیاد فلاور انڈسٹری نے رکھی تھی۔ فن لینڈ میں اس دن کو "فرینڈ ڈے" کہا جاتا ہے اور اس دن کو خاص دوستوں کیلئے اور اُن کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

سلوانیا اور رومانیا میں یہ دن عام مغربی ممالک کی طرح منایا جاتا ہے۔ اور اس دن روایتی طور پر چھٹی ہوتی ہے۔ برازیل میں اکیس جون کو "بوائے فرینڈ ڈے" منایا جاتا ہے اور اس دن جوڑے آپس میں چاکلیٹس، تحائف، کارڈز اور پھولوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ جاپان، چین، کوریا اور دوسرے ایشیائی ممالک میں بھی یہ دن منایا جاتا ہے اور اس دن تحائف، کارڈز اور خاص طور پر ایک دوسرے کو سرخ گلاب تحفے اور محبت کی نشانی کے طور پر دئیے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی اس دن کو بہت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے تا ہم کئی بھارتی تنظیمیں اس دن کو منانے کے خلاف ہیں۔ مشرقی وسطیٰ کے کئی ممالک جن میں ایران، سعودی عرب اور دوسرے کئی ممالک شامل ہیں اس دن کے منانے پر پابندی ہے۔ سعودی عرب میں ویلنٹائن ڈے پر تحائف کے طور پر دئیے جانے والی چیزوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ دن منانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر اس دن کی خصوصی نشریات دکھائی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کو تحائف دینا، تفریحی مقامات پر جانا اور کھانے کی دعوت دینا اس دن کی مناسبت سے عام ہے۔

معزز قارئین کے نام:
اس مضمون کو پڑھ کر آپ یقینا اس نتیجے پر پہنچے ہونگے کہ ویلنٹائن ڈے کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اور اس دن کی تاریخ کو بیان کرنے کا ہدف بھی صرف قارئین کو اس کی حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ ہم نے کن جاہلانہ رسموں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے۔ معزز قارئین نے اگر ان مندرجہ بالا معلومات کو پڑھا ہے جو ہم نے مختلف سائٹس کو وزٹ کر کے جمع کی ہیں، کہ جن کو پڑھ کر انسان کو نہ صرف ہنسی آتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی اس پہ عمل کرنے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو بھی جی چاہتا ہے، تو یقیناً قارئین  بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہوں گے جس پر ہم پہنچے ہیں، اول یہ کہ ویلنٹائن ڈے ان خرافاتی داستانوں کا پلندہ ہے جو ہر دور کے ہوس پرست لوگوں نے مختلف داستانیں جوڑ کر اس دن کو خلق کیا اور اس کو تاریخی اہمیت دے ڈالی، دوسرا یہ کہ بالفرض اگر اس کی کوئی تاریخی حقیقت ہو بھی تو بالخصوص ہم مسلمانوں کے لئے اس بےراہروی کے دن کی اہمیت نہیں ہونی چاہیئے۔ ہمیں اپنے اعمال و افعال کے لئے اسلامی تعلیمات کو معیار قرار دینا چاہیئے نہ دوسروں کی خرافات سے بھری داستانوں کو۔ اگر کمسن بچے کو بھی مذکورہ بالا داستانیں سنائی جائیں تو وہ بھی تعجب کرے گا لیکن عقل کے وہ اندھے جو ان خرافاتی کہانیوں پر یقین کر بیٹھے ہیں یا صرف انجوائے منٹ کے لئے اس اور اسی طرح کی کئی اور رسوم کو رواج دے رہے ہیں یا تو اس کے نتائج سے بےخبر ہیں یا پھر واقعاً اتنے بے بند و بار ہیں کہ مسلمان ہونے کے باوجود رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اپنے لئے درست راہ کا انتخاب کریں:
خدا نے محبت کے لئے بہت پیارے رشتے خلق کئے ہیں، ان سے محبت کریں، ان میں انسان کے والدین، بھائی، بہنیں، میاں بیوی، بچے، دوست یا رشتہ دار شامل ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کو پیار کے اظہار کا دن کہا جاتا ہے لیکن ہم یہ کہیں گے کہ اگر اسکو "بےبند و باری" کا دن کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ صرف یہ دن ہی کیوں؟ یہ دن کیوں صرف اس قسم کی محبت کے لیے ہی مخصوص ہے اس میں ان تمام لوگوں کو کیوں شامل نہ کیا جائے جن کا آپ پر واقعاً حق ہے اور کیا ہی بہتر ہو کہ بالخصوص مسلمان کسی بھی اور نیک دن کا انتخاب کر کے اس دن کو "صلہ رحمی کا دن" کا نام دیتے ہوئے اپنے عزیزوں کے ساتھ منائیں اور اپنے جذبات اور پیسے کو صحیح راہ میں خرچ کریں جو نہ صرف ان کی دنیوی زندگی کو شیریں بنانے میں مددگار ثابت ہو گا بلکہ ان کے لئے توشہ آخرت بھی ہو گا، اپنے روٹھے ہوئے عزیزوں کے لیے تحائف لے کر جائیں، ان رشتوں کو اہمیت دیں جن کو خدا اور اسکے رسول ص نے اہمیت دی ہے۔

آج کی نوجوان نسل کی اس روش کو دیکھتے ہوئے فکر اس بات کی ہے یہ ہم کن راہوں پر چل نکلے ہیں، پرودگار عالم نے ہمیں منانے کے لئے بہت پیارے، بابرکت اور فضیلت سے بھرپور دن عطا کئے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ برادر اسلامی ملک ایران میں 12 سے 17 ربیع الاول، کو ہفتہ وحدت تو ہے ہی اسکے علاوہ اپنے عظیم نبی ص کی سنت پر عمل کرتے ہوئے انہی ایام کو صلہ رحمی کے ایام کے طور پر منایا جاتا ہے۔ عید الفطر، عید الضحیٰ، نئے شمسی سال کے پر عیدنوروز منائی جاتی ہے، کہ جس میں اپنی فیملی کے ساتھ سیر و تفریح کے علاوہ عزیز و اقارب سے دید و بازدید انجام دی جاتی ہے۔ عیدغدیر کا مایہ ناز دن، اسکے علاوہ 13 رجب، امیر المومنین علی ع کی ولادت کا دن کہ جسکو ایرانِ اسلامی میں "روز پدر" اور "روزِ شوھر" کے نام سے منایا جاتا ہے بچے اپنے والد کو اور بیویاں اپنے شوہروں کو گفٹ دیتی ہیں، اور حضرت فاطمہ زھرا س کی ولادت کے دن کو "روزِ زن" اور "روز مادر" کا نام دیا گیا ہے، سب لوگ اپنی ماوں کی دست بوسی کرتے ہیں۔ جن کی مائیں قید حیات میں نہ ہوں وہ ان کے قبر پر پھول لے کر جاتے ہیں، انکی روح کے ایصالِ ثواب کیلئے نذر و نیاز دیتے ہیں، انکی قبروں کو عرق گلاب یا پانی سے دھو کر پھول چڑھاتے ہیں۔ اس دن شوہر اپنی بیویوں کو اور بچے اپنی ماوں کو گفٹ دیتے ہیں، حضرت زینب س کی ولادت کے دن کو "روزِ دختر" اور روزِ پرستار(نرس) کے نام سے منایا جاتا ہے اس دن والدین اپنی بیٹیوں کو اور بھائی اپنی بہنوں کو گفٹ دیتے ہیں، اور نرسز کو ان کی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے، آئمہ اطہار علیہ السلام کی ولادتوں کے دن، اور اس کے علاوہ سال میں دو ہفتے "روز ھای عاطفہ" (یعنی ان لوگوں سے محبت کا اظہار جو نادار ہیں) کے نام سے منائے جاتے ہیں جس میں ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرتا ہے، نقد رقوم کے علاوہ مختلف ضروریاتِ زندگی کی اشیاء تحفے کے طور پر جکومت کی طرف سے مقرر کئے گئے مقامات پر جمع کرواتے ہیں ان تحائف کو نہ صرف ایرانی ضرورت مندوں کے لئے بلکہ پوری دنیا میں جہاں ضرورت ہو بھیجا جاتا ہے۔

تہوار منانے کا اتنا مقدس انداز کسی اور ملک میں آپ نے دیکھا ہو تو حقیر کو بھی باخبر کیجئے گا۔ اپنے ہمسایہ اسلامی ملک سے درس لینے اور ان خوبصورت اور شرعی رسوم کو اپنانے کی بجائے سات سمندر پار اغیار کی خرافات کو اپنانے میں ہم سب سے آگے ہیں، جنکا مقصد ہی صرف مسلمانوں کی بربادی ہے، اور اس کے لئے وہ کسی بھی حربے سے دریغ نہیں کرتے، لیکن ہماری عقلوں پر نجانے کیوں پردہ پڑ گیا ہے۔ خیر کے کاموں میں سستی اور گناہ کے کاموں میں چستی، یہ سب اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے، ابھی بھی وقت ہے اپنی قدر کرنا جانئے، اپنی شخصیت کو عزت اور تشخّص دیں، بجائے ان سے لائن لینے کے انہیں لائن دینے والے بن جائیں، کاش کہ ہم سب اسلامی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے والے بن جائیں، اسلامی قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں، آزمائش شرط ہے، خدا نے انسان کو انسانی اور فطری بنیادوں پر محبت کا درس دیا ہے، والدین کی بچوں سے محبت، جنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ازدواج کا مقدس رشتہ، بہن بھائی کی محبت، کتنے خوبصورت اور شیریں ہیں یہ رشتے، جنسِ مخالف سے محبت بھی فطری تقاضا ہے جسکو خدا نے ازدواج کا خوبصوت اور پاکیزہ لباس پہنا کر انسان کو جنسی بےراہروی سے محفوظ کر دیا ہے۔ اپنے ان مسلمان بہن بھائیوں سے درخواست ہے جو ان رسوم کی پیروی کر رہے ہیں وہ اس گناہ کی دنیا سے نکل کر اس پاک دنیا میں آ جائیں، جو آپ کے شایانِ شان ہے، جو آپ کو وقار بخشتی ہے، اپنی راہ سے بھٹکنے والوں کو یہ کہنا چاہیں گے کہ ہم آپکی واپسی کے منتظر ہیں کیونکہ:
"صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اس بھولا نہیں کہتے"۔
خبر کا کوڈ : 137837
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش