1
Wednesday 9 May 2018 21:44

پاکستانی سیاست میں عدم برادشت

پاکستانی سیاست میں عدم برادشت
تحریر: طاہر یاسین طاہر

پاکستانی سماج میں ہیجان روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ کم علمی، جہالت اور چیزوں کو ان کے پس منظر سمیت سمجھنے کے بجائے سرسری جائزہ لینے والے، سماج کے لئے عذاب سے کم نہیں۔ جہالت قتال کے فروغ کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔ میں وزیر داخلہ پر ہونے والے حملے کے اسباب کی تفصیل میں جائے بغیر یہ کہنا فرض سمجھتا ہوں کہ اگر یونہی مرتد، گستاخ اور کافر کافر کے نعرے لگنے کا رحجان زور پکڑتا رہا تو بخدا ہم سارے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوں گے۔ علمائے حق کو مذہب کے سیاست میں بے رحمانہ استعمال کی حوصلہ شکنی کرنے چاہیے۔ رحمت اللعالمین ﷺ کے نام لیوا اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے لئے زحمت کیسے کھڑی کرسکتے ہیں۔ جس طرح علمائے حق کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے بلکہ اسی طرح سماج میں رواداری قائم کرنے کے لئے سیاسی قیادت، لکھاریوں اور دانشوروں و شاعروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم سب انسانی سماج کی اکائی ہیں، ہمیں اپنی اپنی جگہ اپنے مثبت کردار کے بارے میں آگاہ ہونا چاہیے۔

یہ صریحاً جھوٹ ہے کہ پاکستانی سیاست میں گالم گلوچ اور مار دھاڑ کو رواج دینے میں پی ٹی آئی کا کردار ہے۔ پاکستانی سیاسی تاریخ کا اگر بہ غور مطالعہ کیا جائے تو یہ رویہ ہمیں بہت دور سے رواج پاتا نظر آتا ہے۔ ہاں اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا، نہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز تھے۔ پی ٹی آئی کو جب عروج ملا اور اس کی سیاسی قوت میں اضافہ ہوا تو سوشل میڈیا بھی اپنے عروج کی طرف ہے۔ سینکڑوں پرائیویٹ ٹی وی چینلز بریکنگ نیوز کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ ورنہ سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور ان کے اعصاب پہ سوار ہونے کی روش پہلے سے موجود ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں اس رویہ نے جڑ پکڑ لی تھی۔ آگے چل کر ذوالفقار علی بھٹو جیسا ذہین سیاستدان بھی اس روش سے اپنی پارٹی اور خود کو نہ بچا سکا۔ حالانکہ بائیں بازو کی سیاست کرنے والی پیپلز پارٹی سے اس جارحانہ رویہ کی توقع نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے مخالفین پہ عرصہء حیات تنگ کیا۔ اس کے بعد آمر ضیاء الحق کے عہد میں سیاسی مخالفین، بلکہ درست الفاظ میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر بے پناہ تشدد کیا گیا۔ کئی ایک رہنمائوں اور کارکنوں کو جلا وطن ہونا پڑا۔ آمر ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی جلا وطنی ویسی نہیں تھی، جیسی نواز شریف کی پرویز مشرف کے دور میں ہوئی تھی۔ سیاست میں مخالفین کو زور بازو سے کچلنے اور کردار کشی کی روایت کو مستحکم اور اس میں جارحیت لانے کے حوالے سے نون لیگ اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

یہ نون لیگ ہی ہے جس نے 90 کی دھائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید، نصرت بھٹو اور پیپلز پارٹی کی دیگر خواتین کی کردار کشی کی۔ اس حوالے سے میڈیا کے کچھ ایسے "معتبر" نام بھی ہیں، جو نون لیگ کی میڈیا ٹیم کا حصہ تھے اور پروپیگنڈا کرنے میں نون لیگ کی قیادت کی معاونت کرتے تھے۔ نون لیگ نے پیپلز پارٹی کے بعد عمران خان کے سیتا وائٹ سکینڈل کو خوب اچھالا اور عمران خان کے خلاف اسے بہ طور سیاسی ہتھیار استعمال کیا۔ جماعت اسلامی کی ساری سیاسی تاریخ  ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام (ف) اور (س) نے بھی مذہب کے سہارے سیاست میں سختی کو رواج دیا اور بعض اوقات تو ووٹ کے لئے فتووں کا سہارا بھی لیا گیا۔ سیاسی مخالفین کے لئے مذہبی قوتوں سے فتویٰ لینے کی روایت بھی بہت پرانی ہے۔ ایم کیو ایم نے کراچی میں ایک اور طرح کی سیاست کی "طرح" ڈالی۔ قوم پرست جماعتوں اور اے این پی نے بھی اپنی سیاسی روش میں مخالفین کے لئے سختی برتی۔ مذہبی قوتوں سے نون لیگ کے سیاسی اتحاد کو "فطری" اتحاد کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ فطری اتحاد سیاسی ضرورتوں کی ایسی ایجاد ہے، جس نے ہمیشہ مذہبی شدت پسندوں کے لئے گنجائشیں پیدا کیں۔

آج ہمارا سماج عدم برداشت کی تکلیف دہ تصویر بنا ہوا ہے۔ بیدار معاشروں میں اختلاف رائے سماج کے شعوری ارتقا کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مگر متشدد معاشروں میں اختلاف رائے کو دلیل سے رد کرنے کے بجائے گالی اور گولی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ہم لاکھ خود کو مہذب دنیا کے سامنے لانے کی اداکاری کرتے رہیں، مگر فی الواقعہ ہم مخالف سوچ کو برداشت کرنے سے عاری ہیں۔ ہم اپنے غلط فیصلوں کی تاویلات بھی مذہبی شخصیات کے خوابی اشاروں سے لیتے ہیں۔ حضرت داتا ہجویری سرکار نے ساری زندگی محبتوں اور سلامتی کا درس دیا۔ آپ کی تعلیمات  رواداری اور محبت و امن کی ہیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ کوئی شخص اٹھ کے یہ کہے، مجھے خواب میں فلاں بزرگ نے کہا تھا کہ گولی چلائو۔ علمائے حق، ماہرین نفسیات اور سماجی علوم کے ماہرین کہاں ہیں؟ کیا ہم ایک ایسی نسل کی زد میں آگئے ہیں، جس کے پاس کوئی دلیل نہیں؟ جس کے پاس کوئی عقل نہیں، جو مخالف نظریات والے شخص کو مار دینا ہی "کارِ ثواب" سمجھتی ہے؟ سیاسی و مذہبی اختلاف بیدار مغز معاشروں میں ضرور ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا صرف جامد فکر اور ذہنی طور پہ مفلوج گروہوں میں ہوتا ہے کہ کسی کو کافر کہہ کر مار دیا جائے تو کسی کو گستاخ کہہ کر قتل کر دیا جائے۔

بے شک چار چھ عشروں سے ہم نے جو بویا تھا، وہ اب کاٹ رہے ہیں۔ سماج کو عقل و منطق اور دلیل کے بجائے فتوے اور کردار کشی پر لگانے والے بھی انگشت بدنداں ہیں۔ بخدا پاکستان بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ جن داخلی خطرات سے دوچار ہے، ان کا ادراک بہت ضروری ہے۔ سماج تیزی سے ایک نئی انتہا پسندی کی طرف جا رہا ہے۔ سیاست دانوں پر جوتے برساتے برساتے گولیاں برسانے کی روش معاشرے کو خون آلود کر دے گی۔ پہلے ہی طالبانی فہم اسلام نے سماج پر جو خونی دھبے لگائے، انھیں پاکستانی عوام اور سکیورٹی ادارے بڑی مشکل مگر بہادری سے دھو رہے ہیں۔ ہمیں نئی طرح کی مشکل میں پڑنے سے پہلے ہی اس کے اسباب کا ادراک کرکے ان کا تدارک کرنا ہوگا۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ یونیورسٹیوں اور کالجز میں پاکستانی سماج میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت پہ سیمینارز کرائے جائیں اور تدریجاً اس عمل کو ہر تحصیل تک پھیلا دیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 723501
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش