0
Friday 20 Sep 2013 23:21

امریکہ اور روس محاذ آرائی کی حقیقت

امریکہ اور روس محاذ آرائی کی حقیقت
تحریر: صابر کربلائی (ریسرچ سکالر) 

امریکی کانگریس کی جانب سے شام پر امریکی حملے کو رد کئے جانے سے پہلے ہی امریکہ کی کمر ٹوٹ چکی تھی۔ دراصل اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے زیادہ دقت کی ضرورت نہیں ہے، امریکی صدر باراک اوباما نے غالبا دو ستمبر کو ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ امریکہ شام پر حملہ ضرور کرے گا لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس معاملے کو امریکی کانگریس پر چھوڑ دیا تھا جس کے بعد غاصب صیہونی اسرائیل سمیت عرب ریاستوں کے حکمرانوں سمیت متعدد افراد کی خوشیاں خاک میں مل گئی تھیں، کیونکہ تاثر یہ مل رہا تھا کہ شاید امریکی کانگریس شام پر امریکی ممکنہ حملے کی مخالفت کرے گی تاہم یہ تاثر بھی موجود تھا کہ امریکی صدر جو کہ ہٹ دھرمی کی اعلٰی ترین مثال ہیں ان کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ امریکی کانگریس کے فیصلے کے خلاف اپنا فیصلہ سنا دیں۔ بہرحال ساری کی ساری شیطانی تدبیریں دھری رہ گئیں اور امریکہ سمیت عرب حکمرانوں اور اسرائیلی حکمرانوں کے خوان عین اس وقت چکنا چور ہوئے جب میڈیٹیرین میں امریکی میزائلوں کا جواب روسی ریڈاروں نے دیا اور یہ واقعہ کانگریس کے اجلاس سے دو روز قبل ہی وقوع پذیر ہو چکا تھا۔ 

اعلٰی ترین سفارتی ذرائع یہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے شام کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ اس وقت شروع ہوئی اور ختم بھی ہو گئی جب میڈیٹیرین میں دو بلاسٹک میزائل شام کی طرف داغے گئے جس کے بارے میں اسرائیلی انتظامیہ نے پہلے تو انکار کر دیا لیکن روسی انتظامیہ نے ان دونوں میزائلوں کی تصدیق کر دی جس کے بعد اسرائیلی انتظامیہ نے اس بات کا اعتراف کر لیا کہ دونوں بیلسٹک میزائل امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی مشقوں کے دوران داغے گئے تھے لیکن ان میزائلوں کا شامی بحران اور امریکہ کی جانب سے شام پر ممکنہ حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق شام کی طرف داغے جانے والے دونوں بیلسٹک میزائل اسپین میں قائم نیٹو کی ایک بیس سے امریکی افواج نے فائر کئے تھے جن کو روسی دفاعی نظام نے جانچ لیا اور ان دو میزائلوں میں سے ایک کو ہوا میں ہی تباہ کر دیا گیا جبکہ دوسرے میزائل کو سمندر کی طرف موڑ دیا گیا۔ 

ذرائع کے مطابق روس کی وزارات دفاع نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ دو میزائل مشرق وسطی کی طرف داغے گئے ہیں جن کو روسی دفاعی نظام نے جانچ کر ایک کو تباہ اور دوسرے کا رخ سمندر کی طرف موڑ دیا ہے، اسی طرح روس کی اعلی فوجی قیادت اور ایجنسیز نے امریکی فوجی اعلٰی قیادت سے رابطہ کر کے انہیں بتایا کہ امریکہ کی طرف سے شام کی طرف دو بیلسٹک میزائل داغے گئے ہیں تاہم شام پر حملے کا مطلب ہے کہ ماسکو پر حملہ لہذا امریکی افواج سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں۔ روس کی اعلٰی فوجی قیادت نے امریکی اعلٰی فوجی قیادت کو بتایا کہ ہم نے امریکہ کے دونوں میزائلوں کو روک لیا ہے اور ان کا حملہ ناکام بنا دیا ہے۔ 

یہ وہ اہم ترین موقع تھا کہ جس نے امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ کی کنفیوژن میں مزید اضافہ کر دیا، دراصل یہ امریکہ اور روس کے مابین غیر اعلانیہ جنگ کے مترادف تھا جس کے باعث امریکی صدر کو شدید تشویش لاحق ہوئی اور امریکی انتظامیہ اس بات سے بھی باور ہو گئے کہ روس شام کے حوالے سے شروع ہونے والی امریکی جنگ میں امریکہ کے خلاف آخری وقت تک لڑنے کے لئے عملی طور پر تیار ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر نے شام کے حوالے سے روس کی جانب سے بنایا جانے والا فارمولا فوری طور پر قبول کر لیا ہے لیکن امریکی صدر کی ہمیشہ سے گیدڑوں والی عادت رہی ہے کہ گیدڑ بھبکی ضرور دینی ہوتی ہے جوکہ انہوں نے روس کی جانب سے پیش کئے جانے منصوبے کو قبول کرنے کے بعد بھی دے ہی ڈالی، دراصل تو امریکہ کی شکست واضح اور بڑی صاف نظر آ رہی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ واشنگٹن نے اپنے چہرے کو صاف رکھنے کے لئے دونوں میزائلوں کی ذمہ داری اسرائیل کو لینے پر مجبور کیا اور مطالبہ کیا کہ اسرائیل ان دو میزائلوں کی ذمہ داری قبول کر لے تا کہ امریکہ عالمی برادری کے سامنے سرخرو رہے، تاہم اسرائیل اپنے پہلے بیان میں اس بات کو رد کر چکا تھا لیکن دوسرے بیان میں اسرائیلی انتظامیہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ دونوں میزائل امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی مشقوں کے دوران فائر کئے گئے تھے۔ 

دوسری طرف روسی انتظامیہ نے میڈیٹیرین میں اپنی دفاعی صلاحیت کو مزید مستحکم کرنا شروع کر دیا ہے تا کہ امریکہ کے کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دیا جائے تاہم اسی اثنا میں G-20 کانفرنس کا آغاز بھی قریب تھا تاہم روس ہر حوالے سے آمادہ تھا کہ امریکہ کی کسی بھی جارحیت کے خلاف بھرپور جواب دیا جائے گا اور شام پر حملہ روس پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ بہر حال G-20 سربراہی کانفرنس میں روس اور ایران کی مشترکہ حکمت عملی کے باعث امریکہ کو ایران اور روس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور روس کی جانب سے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے عنوان سے پیش کیا جانے والا منصوبہ قبول کرنا پڑا جسے ماہرین سیاسیات امریکہ کی بدترین شکست سے تشبیہ دے رہے ہیں اور اس جنگ کے آغاز اور اختتام کو ان دو بیلسٹک میزائلوں کے آغاز اور خاتمے کو قرار دیا جا رہا ہے جو کہ امریکی اور روسی محاذ آرائی کی حققیت کو واضح کرتا ہے۔ 

ذرائع کے مطابق امریکی اور روسی محاذ آرائی کے بعد برطانوی دارالعوا م کو بھی شام پر حملے کو مسترد کرنا پڑا ہے اور اسی طرح یورپ کا موقف بھی واضح طور پر سامنے آیا ہے جو کہ جرمنی کے چانسلر اینجل مارکل کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ امریکی اور روسی محاذ آرائی کی حقیقت دو بیلسٹک میزائلوں سے شروع ہوئی اور بالآخر امریکہ کی شکست کے ساتھ امریکی ناپاک عزائم کا خاتمہ ہوا ہے۔ تاہم شام کے افق سے خطرات کے بادل ڈھلے نہیں ہیں کیونکہ تا حال شام میں امریکی ایما اور مدد سے پلنے والے دہشت گرد گروہ موجود ہیں جو عوام کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے لئے کسی بھی قسم کے اقدامات سے دریغ نہیں کرتے۔
خبر کا کوڈ : 303200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش