0
Tuesday 21 Jan 2014 10:18

ایریل شیرون، جنگی مجرم، انسانیت کا دشمن

ایریل شیرون، جنگی مجرم، انسانیت کا دشمن
تحریر: صابر کربلائی

 ایریل شیرون کے نام سے پوری دنیا اچھی طرح واقف ہے اور خاص طور پر غاصب اسرائیل کے قرب و جوار میں موجود عرب خطوں میں بسنے والے لوگ بہت زیادہ اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں کیونکہ فلسطینیوں اور عربوں کے لئے ایریل شیرون ایک انسان نہیں بلکہ انسانوں کو کاٹنے والا ایک خطرناک قصائی ہے کہ جس نے اپنی زندگ میں دسیوں ہزار معصوم انسانوں کو موت کی نیند سلایا ہے۔ ایریل شیرون جو کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا وزیراعظم بھی رہا ہے اور اس سے قبل فوج میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتا رہا ہے آخر کار فوجی اور سیاسی زندگی کے ساتھ اس کی آخری سانس بھی 85برس کی عمر میں، آٹھ برس تک کومہ میں رہنے کے بعد 04 جنوری 2014ء کو اس کے جسم سے جان نکل گئی ہے اور اس طرح اس کی ظالمانہ سیاسی و فوجی زندگی کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔ ایریل شیرون کی موت کے ساتھ ہی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل شاید ایک وفادار اور دشمنوں کے لئے خوف کی علامت سے محروم ہو گئی ہے۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو نے ایریل شیرون کی موت پر کہا کہ صیہونی ہمیشہ سابق وزیراعظم کی خدمات کو یاد رکھیں گے، نیتن یاہو نے شیرون کو غاصب اسرائیلی ریاست کے قیام کا ایک مرکزی اور اہم کردار بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایریل شیرون صیہونیوں کے دلوں میں زندہ رہے گا، اور اس موقع پر انہوں نے اپنے دلی دکھ اور غم کا اظہار بھی کیا۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ شیرون ایک بہادر سپاہی اور اسرائیلی افواج میں عظیم ترین رہنما تھا۔ اسی طرح صیہونی جارح ریاست کا صدر شمعون پیریز بھی نیتن یاہو سے پیچھے نہ رہا اور شیرون کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شیرون ایک بہادر سپاہی اور جانباز تھا جو کہ اپنی قوم (صیہونیت) سے بےپناہ محبت کرتا تھا اور صیہونی بھی اس سے محبت کرتے ہیں، شمعون مزید کہتا ہے کہ وہ اسرائیل کی حفاظت کے لئے ایک بہترین کمانڈر تھا اور ہم اسے بے پناہ یاد کریں گے، اس کی کمی پوری نہیں کی جا سکتی۔

دوسری طرف مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بسنے والے فلسطینیوں نے اسرائیلی سیاست دانوں کے بیانات پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایریل شیرون جو کہ دسیوں ہزار معصوم انسانوں کا قاتل ہے اور جنگی مجرم ہے، فلسطینی الفتح جماعت کے ایک رہنما صعید جبریل کہتے ہیں کہ شیرون ایک جنگی مجرم تھا کہ جس نے ہزاروں معصوم فلسطینی بچوں اور عوام کو قتل کیا اور فلسطینی صدر یاسر عرفات کے قتل میں ملوث تھا، ہم چاہتے تھے کہ ایریل شیرون کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور اس پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے۔ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے شیرون کی موت کو ایک تاریخی لمحہ قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ ایک ایسا خونخوار بھیڑیا تھا جو آخر کار اپنے منطقی انجام کو جا پہنچا ہے اور اس بھیڑئیے کے ذمہ ہزاروں بے گناہوں کا خون ہے جو اسے قیامت تک حساب دینا ہو گا۔ مشرق وسطیٰ میں انسانی حقوق کی ڈائریکٹر Sarah Leah Whitson کہتی ہیں کہ شیرون کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہئیے تھا کیونکہ مشرق وسطیٰ کے ہزاروں بے گناہوں کو انصاف ملے بغیر شیرون کی موت دراصل ہزاروں بے گناہوں کے دکھوں کا مداوا نہیں ہے جبکہ ضروری تھا کہ شیرون جیسے خطرناک اور درندہ صفت کسائی کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا اور جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جاتا۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی دنیا بھر میں شیرون کی موت پر آنے والے اسرائیلی بیانات پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے اور دنیا بھر میں جو مشترکہ نقطہ سامنے آیا ہے اس میں سب نے ایریل شیرون کو ایک خطرناک کسائی اور انسانیت کا دشمن قرار دیا ہے اور جنگی مجرم قرار دیا ہے۔

ایریل شیرون قدرتی اور پیدائشی قاتل:
شیرون کی فوجی تربیت کا آغاز 14برس کی عمر میں سنہ 1942ء میں فلسطین کے حوالے سے برطانوی مینڈیٹ سے قبل پولیس فورس میں شمولیت سے ہوا، برطانوی اور صیہونی گٹھ جوڑ سے کام کرنے والی دہشت گرد تنظیم ہگانہ کے ساتھ ایریل شیرون نے متعدد آپریشن اور دہشت گردانہ کاروائیوں میں بنفس نفیس شرکت کی اور اسی طرح یوم نکبہ 1948ء میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں میں ہگانہ کے ساتھ ایریل شیرون سر فہرست رہا، یاد رہے پندرہ مئی سنہ1948ء (یوم نکبہ)کو ہزاروں فلسطینیوں کو کشت و خون میں غلطاں کیا گیا تھا۔ 1953ء میں ایریل شیرون کو اسرائیلی فوج کے ایک نئے یونٹ 101کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ اس یونٹ نے ایریل شیرون کی سربراہی میں قبایہ میں درجنوں فلسطینیوں کو موت کی نیند سلایا، خود اسرائیلی تاریخ دانوں کے مطابق اس تباہی میں قتل و غارت کا نشانہ بننے میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ ایریل شیرون کو ہمیشہ لبنان میں "Butcher of Beirut" کے لقب سے یاد رکھا جائے گا کیونکہ 1982ء میں لبنان پر فوجی چڑھائی کے دوران اور ایک سال کے عرصے میں بیس ہزار سے زائد معصوم شہریوں کا قتل عام کرنے کا سہرا بھی ایریل شیرون کے نام جاتا ہے۔ اس تباہی میں لوگوں کو لبنان میں ان کے گھروں کے دروازوں، بازاروں اور اسکولوں سمیت متعدد مقامات پر قتل کیا گیا اور اس تباہی کی براہ راست سربراہی ایریل شیرون کر رہا تھا۔ ایریل شیرون کی انہی جارحانہ کاروائیوں کے بدلے میں اسرائیلی آرمی میں اسے مزید ترقی کے عہدوں سے نوازا جاتا رہا ہے، ایک طرف شیرون معصوم انسانوں کا خون بہاتا رہا اور دوسری طرف اسرائیلی آرمی میں شیرون کو مزید ترقی سے نوازا جاتا رہا، تاہم ایریل شیرون کو ہمیشہ لبنان میں "Butcher of Beirut" کے لقب سے یاد رکھا جائے گا کیونکہ 1982ء میں لبنان پر فوجی چڑھائی کے دوران اور ایک سال کے عرصے میں بیس ہزار سے زائد معصوم شہریوں کا قتل عام کرنے کا سہرا بھی ایریل شیرون کے نام جاتا ہے۔

صبرا شاتیلا قتل عام کی منصوبہ بندی:
ایریل شیرون کے سب سے خطرناک جرم صبر شاتیلا کے وہ مظالم ہیں کہ جس میں ایک ہی وقت میں دو ہزار شہریوں کو موت کی نیند سلایا گیا تھا، یہ واقعہ 1982ء میں لبنان پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط کے وقت رونما ہوا تھا، ایریل شیرون کی جانب سے صبرا اور شاتیلا میں فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر تین روز تک 16ستمبرسے 18ستمبر تک جارحیت جاری رکھی گئے اور معصوم انسانوں کا قتل عام جاری رہا، انسانی حقوق کی تنظیموں اور متاثرہ خاندانوں نے مطالبہ کیا تھا کہ شیرون کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ قائم کیا جائے کیونکہ شیرون ایک جنگی مجرم ہے۔ صبرا، شاتیلا میں انسانیت کے ہوئے اس قتل عام کی تصویروں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح اسرائیلی بھیڑیوں نے فلسطینی بچوں، خواتین اور مردوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا، ذبح کیا اور بدترین ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔

اسرائیلی انتظامیہ کی ایک اندرونی تحقیقاتی کمیٹی نے فیصلہ دیا کہ فلسطینی کیمپوں میں ہونے والے ظلم کا تعلق ایریل شیرون کی ذات سے ہے کیونکہ شیرون نے ذاتی طور پر یہ سارا عمل انجام دیا ہے، کمیٹی کی جانب سے شیرون پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ اپنے عہدے سے برطرف ہو جائے تاہم ایسا نہ ہوا، شیرون نے تمام باتوں کو بڑی ڈھٹائی اور بےشرمی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں نہیں جانتا تھا کہ وہاں پر عام شہری موجود ہیں، جبکہ اس نے اپنے جرم کو چھپانے کی خاطر کہا کہ اس کی معلومات کے مطابق وہاں فرقہ وارانہ عیسائی اور مسلم تنظیمیں موجود تھیں جن کا خاتمہ کرنا ضروری تھا لیکن دوسری طرف ثبوت شیرون کے خلاف تھے، کیونکہ شیرون نے منصوبہ بندی کے تحت صبر ا شاتیلا کے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں پر چڑھائی کی تھی اور چاہتا تھا کہ بیروت کے مغربی حصے کو بالکل خالی کر دیا جائے تا کہ اسرائیلی فورسز کو اپنے اڈوں کے لئے مناسب اور بہتر جگہ مہیا ہو سکے۔ ایک سال قبل امریکی جریدے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک کہانی میں لکھا گیا ہے کہ ایریل شیرون نے امریکی سفیر موریس ڈریپر کو قتل عام کے پہلے ہی روز یعنی 16ستمبر1982ء کو بتایا تھا کہ صبرا شاتیلا کے کیمپوں میں ہزاروں دہشت گرد موجود ہیں اور اسرائیلی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور سب کو یرغمال بنا لیا گیا ہے تاہم ڈریپر نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی فورسز کو وہاں سے ہٹا لے لیکن اس بات پر شیرون شدید ناراض ہوا اور کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔

ایریل شیرون نے دوسرے فلسطینی انتفادہ کو اکسایا:
مقبوضہ فلسطین میں بھی شیرون ایک قاتل کے نام سے جانا جاتا تھا، شیرون ہی وہ خطرناک دہشت گرد تھا کہ جس نے فلسطینیوں کے دوسرے انتفادہ کو اس وقت اکسایا جب 2000ء میں  مسجد اقصیٰ میں داخل اور مسجد اقصیٰ کے تقدس کو پامال کیا گیا۔ شیرون نے یہ حرکت عین اس وقت کی جب فلسطینی صبرا شاتیلا کے ہزاروں معصوم انسانوں کی شہادت پر اٹھارویں برسی منا رہے تھے، اس موقع پر شیرون اعلان کرتا ہوا کہ مسجد اقصیٰ میں داخل ہونا اس کا حق ہے اور مسجد اقصیٰ کی طرف مارچ کرتا ہوا چلا آیا، شیرون نے اس موقع پر اعلان کیا کہ مسجد اقصیٰ پر ہمارا حق تھا اور ہمارا رہے گا اور اب تمام انتظامات ہمارے ہاتھ میں رہیں گے، اس کے نتیجے میں فلسطینی نوجوان سخت ناراض ہوئے اور انہوں نے شیرون کی طرف پتھر پھینکنا شروع کئے یہی وہ موقع تھا کہ جب شیرون کے حکم پر غاصب اسرائیلیوں نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں پر اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کر دیا اور پھر درجنوں، سیکڑوں اور بالآخر موت کا شکار بننے والوں کی تعداد ہزاروں میں تبدیل ہو گئی۔

مزاحمت کے شروع کے چند ایام میں ہی درجنوں فلسطینی شہید ہو چکے تھے اور شیرون اس جنگ کو مزید طول دینے کی منصوبہ بند کر رہا تھا، انہی قتل ہونے والوں کے درمیان ایک 12سالہ معصوم بچہ محمد الدرہ بھی موت کی نیند سو گیا لیکن اس معصوم بچے کی درد ناک موت کے مناظر پوری دنیا نے ٹی وی اسکرین پر براہ راست دیکھے جس کے بعد فلسطینی بچہ محمد الدرہ دوسرے فلسطینی انتفاضہ کی نشانی بن گیا۔ حیرت انگیز بات ہے کہ ہزاروں انسانوں کو قتل کرنے والا ٹھیک دوسرے انتفاضہ کے ایک ماہ بعد ہی 2001ء مارچ میں وزیراعظم ہائوس پہنچ گیا، شیرون کی افواج نے فلسطینی عوام پر امریکی اپاچی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے موت برسائی اور ظلم اور بربریت کی نہ ختم ہونے والی داستانیں رقم کیں اور دوسری طرف اس تمام کے نتیجے میں شیرون بڑی آسانی کے ساتھ وزیراعظم بن گیا۔ اس کے اگلے ہی برس 2002ء میں سیکڑوں فلسطینیوں کو قتل کیا گیا، اپریل 2012ء میں اسرائیلی فوج نے جنین کیمپ کا محاصرہ کر لیا اور بتایا گیا کہ اس علاقے میں بڑی تعداد میں خودکش بمبار موجود ہیں، اس بہانے کے ساتھ اسرائیلی افواج نے بھاری توپ خانے اور جدید ہتھیاروں کے ساتھ علاقے پر چڑھائی کر دی، اس قتل عام کو انسانی حقوق نے بین الاقوامی قوانین کی شدید خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے جنگی جرائم قرار دیا تھا۔


انسانی حقوق کے ادارے نے شیرون کی جانب سے انجام دئیے جانے والے جنگی جرائم کی لمبی فہرست تیار کی اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ صیہونی افواج نے فلسطینی جوانوں، بچوں، خواتین اور بزرگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے، اسرائیلی محاصرے میں 350عمارتیں تباہ ہوئی، 4000افراد گھروں سے بے گھر ہو گئے، ایک اور کیس میں ایک 57سالہ بوڑھا شخص اسرائیلی گولیوں کا نشانہ بنا جو اپنی وہیل چیئر پر سفید رنگ کا جھنڈا لگائے گزر رہا تھا تاہم اسرائیلی افواج نے گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ ایریل شیرون کو اس کی وزارت عظمیٰ کے آخری وقت 2005ء تک خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا اور اسرائیل میں ایک ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، ایک ایسے قاتل اور قصائی کو کہ جس کو انسانی حقوق کے اداروں نے بھی جنگی مجرم قرار دیا تھا، آج 6 دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی دنیا کی بڑی اکثریت شیرون کو ایک قاتل، مجرم، دہشت گرد، جنگی مجرم اور قصائی سمیت انسانیت کا قاتل تصور کرتی ہے، کیونکہ شیرون کے مظالم کا نشانہ بننے والے درجنوں، سیکڑوں میں نہیں بلکہ دسیوں ہزار خاندان موجود ہیں جو اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ شیرون پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جانا چاہئیے تھا کیونکہ یہ دسیوں ہزار افراد جو دنیا سے رخصت ہوئے ان سمیت ان کے گھر والوں کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے، کیونکہ شیرون ایک قاتل، جنگی مجرم اور قصائی تھا، لبنان میں ہمیشہ شیرون کو ''بیروت کا قصائی'' کے لقب سے یاد رکھا جائے گا اور معاف نہیں کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 342837
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش