3
Saturday 6 Jan 2024 11:50

شہداء مکتب میں کیسے تبدیل ہوتے ہیں؟

شہداء مکتب میں کیسے تبدیل ہوتے ہیں؟
تحریر: ایم اے راجپوت

یہ 4 جنوری 2024ء کی بات ہے۔ ایم ڈبلیو ایم قم کی جانب سے نماز مغربین کے بعد مدرسہ حجتیہ کے شہید مطہری کانفرنس ہال میں تکریم شہداء کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ کانفرنس شہید قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کی مناسبت سے تھی۔ جمعرات کی شب ہونے اور حرمِ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے نزدیک ہونے کی وجہ سے کانفرنس کو چار چاند لگ گئے تھے۔کانفرنس کی اہمیّت کے باعث کانفرنس ہال کی کرسیاں کم پڑ گئیں، جو کہ حوزہ علمیہ قم کے طلباء کی شہید قاسم سلیمانی سے والہانہ عشق و محبت کی علامت ہے۔

اس عظیم کانفرنس پر میرے قلم اٹھانے کی وجہ اس کانفرنس کے خصوصی خطیب (قم میں مقیم بحرینی طلاب کے حوزہ علمیہ کے سربراہ جناب حجت الاسلام والمسلمين آقای عبداللہ دقاق حفظہ اللہ) کی طرف سے بیان کئے گئے وہ نکات ہیںو جو انہوں نے ایک شہید کو مکتب میں تبدیل کرنے کیلئے ضروری بیان کئے۔ انہوں نے کہا کہ شہید شہادت سے پہلے فقط ایک فرد اور محض ایک شخص ہوتا ہے۔ لیکن شہادت کے بعد وہ ایک مکتب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ تبدیلی کیسے ہوتی ہے؟ آقای دقاق نے یہ سوال اٹھانے کے بعد فرمایا: شہید ایک شخص سے مکتب میں خود بخود تبدیل نہیں ہو جاتا بلکہ شہید کے شخص سے مکتب میں تبدیل ہونے کیلئے شہید کے ورثاء، شہید کی قوم، شہید کے پیروکاروں اور شہید کے محبّوں کو کچھ اقدامات کرنے پڑتے ہیں، جن کے بعد شہید ایک شخص سے مکتب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

ان اقدامات میں سے پانچ اقدامات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
۱۔ شہید کے ذکر کو زندہ رکھتے ہوئے اس کے افکار، سوچ، نظریات، اقوال اور میدان عمل میں حضور کی نشر و اشاعت اور اسے مختلف طریقوں سے آئندہ نسلوں تک پہنچانا۔
۲۔ پہلے اقدام میں بیان شدہ نکات کی نشرو اشاعت اور انہیں آئندہ نسلوں تک پہنچانے کیلئے منظم، مضبوط، پختہ اور عمدہ پلاننگ کرنا۔
۳۔ اس عمدہ، منظم، مضبوط اور پختہ پلاننگ کیلئے افرادی قوت کو جذب کرنا، ان افراد کی مربوطہ تربیت کرنا، ان کیلئے ایسے تعلیمی کورسز کا اہتمام کرنا کہ وہ عمدہ پلاننگ کے اہل ہو جائیں۔

۴۔ پلاننگ کرنے والے افراد کی تعلیم و تربیت کیلئے ایسے ادارے بنانا، جو ان منظور نظر افراد کی تربیت کرسکیں، چونکہ حوزہ علمیہ فقیہ تو بنا سکتا ہے، ایسی شخصیات بنا کر معاشرے کے سپرد نہیں کرسکتا۔ یونیورسٹی بھی پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان وغیرہ تو بنا سکتی ہے، لیکن ایسی شخصیات بنانے سے عاجز ہے۔ لہذا حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کے علاوہ ایسے ادارے بنانا بھی ضروری ہیں، جن سے تعلیم و تربیت پانے والے شہید عارف حسینی، شہید سلیمانی، شہید عباس موسوی، شہید شیخ احمد یاسین اور  شہید نمر بن کر نکلیں۔
۵۔ اپنے ادارے، اپنی تنظیم اور اپنی پارٹی کو شخصی ادارے یا مخصوص لوگوں کی پارٹی کے رنگ میں رنگنے کی بجائے اسے قومی، ملی و عمومی ادارے اور تنظیم میں تبدیل کرنا۔

آقا صاحب نے ان پانچ اقدامات پر مفصل گفتگو فرمائی اور ہر ایک کی چند مثالوں  کے ساتھ وضاحت فرمائی، لیکن میں اسی مختصر اشارے کے ساتھ اپنے پاکستانی شہداء کی نسبت ان قدامات کا ایک سرسری جائزہ لینے کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ہم نے ہزاروں شہید دیئے، جو واقعاً زندگی میں ایک شخص ہی تھے، لیکن شہادت کے بعد وہ مکتب میں تبدیل ہوسکتے تھے،  خصوصاً شہدائے پاکستان کے سالار شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور شہید علامہ سید ضیاء الدین رضوی۔ آئیں اور جائزہ لیں کہ کیا ہم نے ان شہداء کے خون کے ورثاء، ان کے پیروکاروں، ان کی قوم اور ان کے راستے پر چلنے کا دم بھرنے والے ہونے کی حیثیت سے یہ پانچ اقدامات انجام دئیے۔؟

کیا ہم نے ان شہداء کی یاد تازہ رکھی؟ کیا ہم نے ان شہداء کے نظریات، افکار اور میدان عمل میں موجودگی کی مثالوں کی نشرو اشاعت کی اور آئندہ نسلوں تک انہیں منتقل کرنے کا مناسب اہتمام کیا۔؟ اس حوالے سے ہماری پلاننگ کیا ہے۔؟ اگر ابھی تک پلاننگ نہیں کی تو کیا اب کر رہے ہیں۔؟ یا آئندہ کیلئے کسی ایسی پلاننگ کا سوچ رکھا ہے۔؟ ہماری افرادی قوت کیا ہے۔؟ اس کا کبھی جائزہ لیا ہے۔؟ قوم کے کتنے جوانوں کو ہم نے اپنا ہم فکر بنایا ہے۔؟ کتنے جوانوں کو ان شہداء کا راستہ دکھایا؟ جوانوں کی تربیت کیلئے کتنے ایسے ادارے بنائے ہیں، جہاں سے ڈاکٹر نقوی، شہید ضیاء الدین اور شہید حسینی جیسے رہبر نکلیں۔؟

اپنے ادارے، اپنی تنظیم اور اپنی پارٹی کو قومی، ملی اور عمومی پلیٹ فارم میں تبدیل کرنے کیلئے ہم نے کون کون سے اقدامات کئے ہیں۔؟ آقای عبداللہ دقاق حفظہ اللہ کی طرف سے اٹھائے گئے ان سوالات کے جوابات قارئین پر چھوڑتا ہوں اور ساتھ اتنی سی گزارش کرتا ہوں کہ یہ کانفرنسز، یہ جلسے، یہ جلوس، یہ سیمینار اور یہ مجالس ہماری قوم میں تبدیلی تب لاسکتی ہیں، جب ان میں پیش کئے گئے لائحہ عمل کو عملی کرنے کے اقدامات بھی کئے جائیں۔

تکریم شہداء کانفرنس اس وقت نتیجہ خیز ثابت ہوگی، جب اس میں بیان کئے گئے اقدامات کو عملی کرنے کی پیہم کوشش کی جائے گی۔ جس طرح ایرانی قوم نے شہید مطہری، شہید بهشتی اور شہید سلیمانی جیسی شخصیات کو مکتب میں تبدیل کیا، اس طرح شہید ضیاء الدین، شہید ڈاکٹر نقوی اور شہید قائد جیسی شخصیات کو بھی مکتب میں تبدیل کرنے کیلئے بھی ایسے اقدامات کئے جائیں، جن کے نتیجے میں مکتب  شہید ضیاء الدین، مکتب شہید ڈاکٹر نقوی اور مکتب شہید قائد وجود میں آئے، جو کہ در واقع وہی مکتب حضرت امام حسین علیہ السلام کا تسلسل ہوگا اور ان شہداء کا مکتب ہر پاکستانی کو حسینی بناتا چلا جائے گا۔ اگر ہم اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم یہ پانچ اقدامات فقط شہید قائد کے متعلق ہی کر لیں اور انھیں شہید قائد سے مکتب قائد میں تبدیل کر دیں۔
خبر کا کوڈ : 1107384
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش