0
Saturday 1 Dec 2012 20:36

کرم ایجنسی، آئندہ انتخابات کیلئے سیاسی دنگل

کرم ایجنسی، آئندہ انتخابات کیلئے سیاسی دنگل
رپورٹ: ایس این حسینی

پاراچنار بلکہ کرم ایجنسی کا پورا علاقہ اس وقت سیاسی امیدواروں کے اشتہارات، بڑی بڑی قدآور تصاویر اور پینافلیکسز سے مزین ہے۔ اب تک ایک درجن کے قریب امیدواروں نے اس شو میں حصہ لیا ہے اور عوام کو اپنے ضمیر کی آواز سے باخبر کر رہے ہیں۔ کرم ایجنسی کے حلقہ این اے 37 سے آئندہ انتخابات میں حصہ لینے والوں میں موجودہ ممبر قومی اسمبلی ساجد حسین طوری، گزشتہ الیکشن میں ہار جانے والے ڈاکٹر سید ریاض حسین، ابرار حسین، سید اقبال حسین میاں، زاھد حسین اور ایم کیو ایم کے ممتاز بھائی قابل ذکر ہیں، جبکہ انکے علاوہ بھی ایک آدھ درجن کا کسی حد تک انتخابات میں شرکت کا ارادہ تو ہے لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ وہ اپنے ارادے پر ڈٹ جاتے ہیں یا پھر اپنی سوچ تبدیل کرلیں گے۔
 
مذکورہ بالا افراد میں سے 3 امیدواروں کا ووٹ بینک کچھ زیادہ ہے۔ سید اقبال حسین میاں کو خاندانی ووٹوں کے علاوہ کافی حد تک اپنی شخصیت اور تعلقات کی بناء پر ووٹ پڑ سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ ساجد حسین طوری نے ایم این اے رہ کر لوگوں کے لئے کام کئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے بعض لوگوں کے کام معلق اور ادھورے چھوڑے ہوئے ہیں، تاکہ بوقت ضرورت انہیں کیش کروایا جاسکے۔ تاہم پاکستان کے اکثر حلقوں اور خصوصاً پاراچنار کی یہ سیاست رہی ہے کہ کوئی بھی امیدوار دوسری مرتبہ آسانی سے نہیں جیت سکتا، لیکن پھر بھی طوری صاحب کافی حد تک قوی امیدوار ہیں۔ ان دو کے علاوہ ڈاکٹر سید ریاض حسین بھی نہایت مضبوط امیدوار ہیں۔
 
مگر یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ کرم ایجنسی میں دیگر علاقوں کی طرح سیاسی سسٹم نہیں ہے کہ لوگ سیاسی پارٹیوں کی بنیاد پر ووٹ دیں اور نہ ہی برادریوں اور قبیلوں کی بنیاد پر ووٹ دیئے جاتے ہیں۔ یہاں تین گروہوں کا بڑا ووٹ بینک ہے۔ مرکزی جامع مسجد اور امام بارگاہ میں موجود انجمن حسینیہ کے حامی افراد، مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای اور اسکے زیر اثر تحریک حسینی کے حامی اور میاں خاندان کے حامی افراد، چنانچہ یہ تین قوتیں پاراچنار کے اہم سیاسی مراکز کی حیثیت رکھتی ہیں، جبکہ تقریباً 5 فیصد ایسے لوگ بھی ہیں جو انکے علاوہ اپنے علاقائی امیدوار کو علاقے یا خاندان کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔
 
2002ء کے انتخابات میں انجمن حسینی اور تحریک حسینی کے امیدواروں میں سخت مقابلہ ہوا تھا اور انتخابات کے بعد دونوں گروہوں کے درمیان کافی رنجش بھی پیدا ہوگئی تھی۔ جس کے بعد تحریک حسینی نے 2008ء کے انتخابات میں ڈائریکٹ کودنے سے گریز کیا اور اپنا کوئی امیدوار بھی سامنے نہیں لائی۔ اسی نہج پر چلتے ہوئے انجمن حسینی نے بھی ڈائریکٹ کسی امیدوار کا اعلان نہیں کیا۔ چنانچہ دونوں کے حامی افراد نے ساجد حسین طوری اور ڈاکٹر سید ریاض حسین کے حق میں ووٹ ڈالے اور یوں 2002ء کی طرح دوبارہ سیاسی کشیدگی نہیں دھرائی گئی۔
 
لیکن یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ حلقہ این اے 38 سنٹرل کرم سے دو دفعہ ڈاکٹر منیر خان اورکزئی منتخب ہوئے، جبکہ سینٹ کی سیٹ رشید خان کے حصے میں آئی۔ حالانکہ یہ دونوں کافی سیاسی سوجھ بوجھ کے مالک ہونے کے علاوہ متعصب اور پاراچنار کے امیدواروں کے مقابلے میں کافی تیز، چالاک اور فعال ہیں۔ اگرچہ اس سیٹ پر تو انکا طوری قبیلہ کے امیدوار کے ساتھ براہ راست مقابلہ نہیں ہوتا، لیکن چونکہ ایک ہی ایجنسی اور انتظامی ڈھانچے سے تعلق ہے، چنانچہ اسمبلی میں بنیادی حقوق پر باہم مقابلہ ہونا تو فطری بات ہے۔ 

اگرچہ اس سیٹ سے وہ بلامقابلہ ہی جیت جاتے ہیں، کیونکہ پاراچنار  کے امیدوار اسمبلی میں اور سیاسی شخصیات کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں انکا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ انکا اسمبلی میں بھی مقام متعین ہے۔ ڈاکٹر منیر خان اورکزئی فاٹا کے پارلیمانی لیڈر ہیں اور فاٹا کے 12 ایم این اے اور 8 سینیٹر تمام اسی کے ماتحت ہیں۔ انکی بات ایوان میں جتنی چلتی ہے، طوری قبیلے کے ممبر کی وہاں تک رسائی ہی نہیں ہوتی۔ بلکہ پاراچنار کے ممبر حضرات شرم کی وجہ سے بعض مقامات و شخصیات سے ملنے سے محروم رہتے ہیں۔ 

کرم ایجنسی سے اورکزئی قبیلے کے ایم این اے اور سینیٹر اسلام آباد کے علاوہ کرم کی سیاست میں بھی کافی فعال ہیں اور طوریوں کے مقابلے میں اپنے حقوق حاصل کرنے میں بہت زیادہ عمل دخل رکھتے ہیں، جبکہ پاراچنار کے ایم این اے کو طوریوں کے مجموعی حقوق سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ زیادہ سے زیادہ انکی نظر فنڈز کی فراہمی اور پراجیکٹ کی منظوریوں پر ہی ہوتی ہے۔ پاراچنار آکر لوگوں کے سرکاری مسائل اگر سنتے بھی ہیں تو انہیں انکا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ انکے مقابلے میں رشید خان اور منیر خان بہت فعال ہیں۔

طوریوں کے حقوق چھین کر اپنے حامیوں کو دلوانا، طوریوں کی زمینوں پر قبضہ کرانے میں اپنے حامیوں کے ساتھ سرکاری سطح پر تعاؤن کرنا، سیاسی قیدیوں کی رہائی، طوریوں کے مقابلے میں دہشتگرد سرگرمیوں میں ملوث افراد کی جیلوں سے رہائی وغیرہ انکے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، جبکہ انکے مقابلے میں پاراچنار کے ایم این اے بےحد شریف النفس ہیں۔ وہ ایسے کام کرنا تو درکنار انکے قریب سے گزرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ پچھلے رمضان میں طوری قبیلے کے گھروں میں گھس کر پہلی بار ایک بے گناہ شخص کے ساتھ اسکے تین دیگر رشتہ داروں کو انکی چادر اور چاردیواری کی دھجیاں اڑا کر گرفتار کروا دیا گیا اور انکے گھر سے تقریباً 10 لاکھ کا اسلحہ اور 10 لاکھ کی نقدی اور گھریلو سامان لے اڑے، وہ افراد تقریباً ایک ماہ بعد رہا ہوئے، مگر انکا سامان وعدوں کے باوجود نہیں ملا، جبکہ مخالف فریق کے لوگ سڑکوں میں دہشتگردی کرتے ہوئے پکڑے جائیں تو انکی سفارش ہوکر رہائی ہو جاتی ہے۔ 

اب جبکہ عنقریب انتخابات ہونے والے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ پاراچنار کے تمام موثر گروہ ملکر ایک ایسے شخص کو سامنے لائیں جو منیر خان اور رشید خان کا مقابلہ کرسکے۔ جو ایوان میں بول سکے، سیاسی لوگوں، شخصیات اور سیاسی پارٹیوں سے مذاکرات کرنا جانتا ہو، جو ایوان کو اپنے حق میں قائل کرسکے۔ اس سلسلے میں امیدواروں کو نہیں بلکہ ان تینوں قوتوں کو چاہئے کہ وہ ملکر بیٹھیں اور متفقہ طور پر ایک ایسے امیدوار کو سامنے لائیں جو کرم کے حقوق کا دفاع کرسکے، جبکہ مرکزی حکومت سے جو فنڈز ملتے ہیں وہ تو ہر صورت میں انکو دیئے جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 216874
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش