0
Sunday 26 Oct 2014 00:09
سکیورٹی لیپس کی وجہ سے حالیہ واقعات ہوئے

وفاقی حکومت کو کالعدم دہشتگرد تنظیموں کیخلاف کاروائی کرنی چاہیئے، محمد خان اچکزئی

بلوچستان کے مسائل کو صحیح اجاگر نہیں کیا جاتا
وفاقی حکومت کو کالعدم دہشتگرد تنظیموں کیخلاف کاروائی کرنی چاہیئے، محمد خان اچکزئی
اسلام ٹائمز۔ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے کہا ہے کہ کالعدم تنظیم پابندی کے باوجود دہشتگردیوں میں مصروف ہے۔ بعد میں دہشتگردیوں کا کلیم کرتے ہیں اور اخبارات بھی ان کو چھاپ رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کو چاہیئے کہ ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائی کریں۔ مولانا فضل الرحمان پر خودکش حملہ اور حالیہ دہشتگردی کے واقعات میں سکیورٹی لیپس تھا۔ گھوسٹ سکول کئی علاقوں میں موجود ہے، مگر نشاندہی کم ہوتی ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ جب بچوں کو سکول بھیجیں تو یہ معلوم کریں کہ واقعی بچے صحیح سکول میں پڑھنے جا رہے ہیں یا ایسے سکولوں میں گئے جہاں نہ ٹیچر ہے۔ نہ ہی کوئی پڑھائی صرف گھوسٹ سکول ہے، ٹیچرز تنخواہیں لے رہے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں پانی کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ جیسے حل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ پانی کے بغیر انسان کا زندہ رہنا بہت مشکل ہے۔ گورنر پنجاب کے مشکور ہیں کہ وہ دورہ کوئٹہ پر آئے ہیں اور ہم نے بھی ان کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا ہے۔ کیونکہ ہم آپس میں مل بیٹھ کر ہی تمام مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ کوئٹہ میں حالیہ دنوں میں ہونیوالے دہشتگردی کے جو واقعات ہوئے ہیں، اس کو سکیورٹی لیپس کہا جا سکتا ہے۔ کالعدم تنظیمیں جن پر پابندی ہے اس کے باوجود وہ تنظیمیں کام کررہی ہے اور وہ واردات کے بعد ذمہ داری بھی قبول کرتی ہیں، اخبارات ان کی ذمہ داریاں چھاپتے بھی ہیں۔ اس سلسلے میں ایسی کالعدم تنظیمیں جو دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہوتی ہے، ان پر پابندی ہونی چاہیئے۔ کبھی کوئی جھنگوی کے نام سے اپنے آپ کو شناخت کراتا ہے، معلوم کرنا چاہیئے کہ یہ لوگ کہاں ہیں۔ کہاں سے آئے ہیں اور ان کو کون سپورٹ کررہا ہے۔

انہوں نے گلہ کیا بلوچستان کے مسائل کو باہر کے اخبارات صحیح طور پر اجاگر نہیں کرتے۔ انہیں چاہیئے کہ بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کریں تاکہ وفاقی حکومت اس بارے میں نوٹس لے۔ ہمیں باہر کے اخبارات دو دن کے بعد ملتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ میں نے اپنے محدود فنڈز سے 107 سکیمیں شروع کرائی تھی۔ جس میں پانی کی سکیمیں زیادہ تھی۔ مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوا ہے کہ 20 اسکیمیں مکمل کی گئی۔ باقی سکیموں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ہمارے یہاں پانی کو سٹور کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے نہ کوئی اس کے بارے میں پلاننگ کی گئی۔ اگر ہم پانی کو سٹور کرلیں تو بہت سے مسئلے ہمارے حل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت پانی بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ کے کئی علاقوں میں جب پانی کا مسئلہ پیدا ہوا تھا تو وہاں کے اساتذہ اور طلباء نے یونیورسٹیوں میں ریسرچ کیا اور مسائل کے حل دریافت کئے تھے۔ بعد میں پانی کے مسئلے کو حل کر لیا تھا۔ ہمارے اساتذہ کو بھی چاہیئے کہ وہ اس طرح کی ریسرچ کرے، تاکہ پانی کا مسئلہ حل ہو سکے۔ بلوچستان میں سالانہ 10 انچ بارش ہوتی ہے مگر اس بارش کے پانی کو جمع کرنے کا ہمارے پاس کوئی ڈیم نہیں اور ایسی فصلوں کا کاشت کی جائے جن پر پانی کا استعمال کم ہوں۔
خبر کا کوڈ : 416417
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش