0
Saturday 1 Feb 2014 21:06

کیا ورلڈ آرڈر تبدیل ہو رہا ہے؟ (2)

کیا ورلڈ آرڈر تبدیل ہو رہا ہے؟ (2)
تحریر: ثاقب اکبر

گذشتہ سے پیوستہ
 6۔ امریکہ اور مغربی دنیا کے دیگر اہم ممالک میں مفکرین اور دانشوروں کا ایک گروہ اسرائیل کے بارے میں مغربی دنیا کی پالیسی پر کھل کر تنقید کرنے لگا ہے۔ آج بھی سب سے زیادہ امریکی امداد دنیا میں اسرائیل کو ملتی ہے۔ دیگر اہم مغربی قوتیں بھی اسرائیل کی ناز برداری میں کسی سے پیچھے نہیں۔ عراق کا معاملہ ہو یا شام کا، مصر کا مسئلہ ہو یا لیبیا کا، مشرق وسطٰی میں تمام تر مغربی مداخلتوں کی بنیاد ان کی اسرائیل پالیسی ہے۔ فوجی مداخلتوں کے حوالے سے بدلتی ہوئی مغربی پالیسیاں یقینی طور پر اسرائیل کے حوالے سے اس کی پالیسی کو متاثر کریں گی۔ بڑھتی ہوئی اقتصادی مشکلات، بے روزگاری کا طوفان اور دولت کی ظالمانہ تقسیم کے بارے میں عوام کی آگاہی، یہ تمام عناصر ایک روز اسرائیل کے حوالے سے مغربی پالیسی کو تبدیل کرنے کے لیے مجتمع قوت بن جائیں گے۔ 
مغرب میں یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ اسرائیل اب ہمارے لیے ذمہ داری (Liability) بنتا جا رہا ہے۔ اگر اسرائیل کے سر سے مغرب کا دست شفقت سرکنا شروع ہوا تو مشرق وسطٰی کی تمام تر سیاست تبدیل ہوجائے گی۔ اسرائیل کے اردگرد عرب ممالک میں کوئی ایک بڑی عوامی تحریک جس کا رخ اسرائیل کے خلاف ہوا، وہ بھی صورت حال کو تبدیل کرنے میں موثر ہوگی۔ اس سلسلے میں پہلے ہی اسرائیل کے بارے میں ایران کا مستحکم نقطۂ نظر بہت دباؤ پیدا کرچکا ہے۔ اسرائیل کی جعلی ریاست کمزور پڑگئی تو اس کے تحلیل ہونے میں بھی وقت نہیں لگے گا۔ ایسی صورت میں لازمی طور پر نئی دنیا ظہور میں آئے گی۔

 7۔ مغرب میں کلیسا کے زوال کے مثبت اثرات کو پوری دنیا میں بہت شدومد سے بیان کیا جاتا رہا ہے۔ اس کا سب سے مثبت پہلو دنیا میں سائنسی اور مادی ترقی کے ساتھ ساتھ آئینی اور جمہوری معاشروں کے قیام کو بیان کیا جاتا ہے، جس کی بنیاد میں آزادی و حریت اور انسانی حقوق کے تصور اور نعروں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے ساتھ ساتھ مغرب میں سرمایہ داری نظام کا فروغ ہوا اور رفتہ رفتہ یہ تمام نعرے سرمایہ داری نظام کے مفادات کا زینہ بن گئے۔ تمام وسائل جن کے قبضے میں آئے، ذرائع ابلاغ کی طاقت بھی انہی کے ہاتھ رہی۔ وہ ان تمام ذرائع کو اپنے مفادات کی تقویت کے لیے استعمال کرتے رہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس مغربی تہذیب کا شاخسانہ ہے جو کائنات کی مادی تعبیر کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی۔ 
کلیسا کے اہل حل و عقد کی کوتاہ نظری اور مذہبی استبداد نے مذہب کے خلاف جو بغاوت جنم دی، یہ اس کا منفی رخ تھا۔ سرمایہ داری نظام کی گرفت میں مغربی ٹی وی سکرینوں کی اوٹ میں مغربی انسان کا اضطراب کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی تہذیب کی چکا چوند نے عالم مشرق کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہاں کی قدریں بھی بری طرح پامال ہوئی ہیں، لیکن یہ سب کچھ کائنات کی حقیقت اور انسان کی فطرت کے خلاف طویل اور ظالمانہ پنجہ آزمائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ فطرت کی بیداری کے جلوے گاہے گاہے منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ بعید نہیں کہ تبدیلی کے دیگر محرکات کے ساتھ مل کر فطرت انسانی ایک روز ایک بڑی قوت کے طور پر سامنے آئے۔ ماضی قریب میں عراق پر امریکی فوجی یلغار کے خلاف امریکا، برطانیہ، یونان اور دیگر مغربی ممالک میں جو ملین مارچ ہوئے، انھیں انسانی فطرت کی بیداری کا ایک جلوہ ہی قرار دیا جانا چاہیے۔

 8۔ جیسا کہ سطور بالا میں اشارہ کیا جا چکا ہے کہ مشرق وسطٰی کو موجودہ ورلڈ آرڈر میں بہت بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اس میں مغرب کی پالیسی کی بن باخت اسرائیل کے گرد ہے۔ البتہ چونکہ خطے کے دیگر ممالک مسلمان آبادی پر مشتمل ہیں، اس لیے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں مغرب کی منصوبہ بندی اس کی اپنی مذہبی، اسٹرٹیجک اور اقتصادی حیثیت کے مطابق ہے۔ اس وجہ سے اس پالیسی میں سعودی عرب کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ مشرق وسطٰی میں بیداری کی جو لہر گذشتہ دو برس سے زیادہ عرصے سے جاری ہے، اس کا رخ موڑنے یا اسے دبانے میں سعودی عرب نے بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین کی منتخب حکومت کے خاتمے اور پھر سے فوج کے ہاتھ میں اقتدار سونپنے میں سعودی کردار اس کی زیادہ نمایاں اور مسلّم مثال ہے۔
 لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں مغرب کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی تو کیا سعودی عرب اس تبدیلی کے ہمہ گیر اثرات سے محفوظ رہے گا؟ اس کا واضح جواب ہے کہ نہیں۔ سعودی عرب دیگر ممالک میں اب فوجی مداخلت سے بھی گریز نہیں کرتا۔ القاعدہ کے مختلف گروہوں کے ساتھ سعودی تعلقات بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں جن واقعات کو ’’دہشتگردی‘‘ کے واقعات قرار دیا گیا، ان کے پیچھے سعودی شہریوں اور سرمائے کے اثرات سامنے آچکے ہیں۔ پاکستانیوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے سابق منتخب وزیراعظم کو کس طرح سعودی انٹیلی جنس کا سربراہ آکر اپنے ساتھ لے گیا۔ 
کسی آزاد ملک میں غیر ملکی انٹیلی جنس کی اتنی کھلی مداخلت کی مثالیں دنیا میں کم ہی ملیں گی۔ کیا سعودی عرب آئندہ بھی ایسا کردار جاری رکھ سکے گا۔ بدلتی ہوئی دنیا میں اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ اسی طرح خود سعودی عرب میں حکمران خاندان کو جو داخلی و خارجی مسائل درپیش ہیں، انھیں بھی تبدیلی کے محرکات میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی مرحلے پر سعودی عرب میں ایک منتخب عوامی حکومت کی تشکیل خطے کا پورا نقشہ ہی تبدیل کر دے گی۔ ایران میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد علاقے میں آمریتوں اور خاندانی بادشاہتوں کے خاتمے کی جو روایت پڑی ہے، سعودی خاندان اس کی موثر لہروں سے کب تک محفوظ رہ سکتا ہے۔

سطور بالا میں دنیا میں بدلتے ورلڈ آرڈر کے لیے کارفرما بعض عناصر کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تبدیلی میں ان کے علاوہ دیگر محرکات دخیل نہیں ہیں یا وہ اہم نہیں ہیں، بلکہ ہم فقط اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں تبدیلی آرہی ہے۔ وہ قوتیں، افراد، گروہ یا مفکرین جنھیں اس امر میں دلچسپی ہے کہ دنیا سے نظام ظلم کا خاتمہ ہو جائے، انھیں چاہیے کہ تبدیلیوں کو مثبت سمت میں رکھنے، رائے عامہ کو منظم کرنے اور امید کا چراغ روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہم البتہ اللہ کے اس وعدے کو پورے ایمان کے ساتھ متحقق ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں کہ:
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَءِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَO(۲۸۔قصص ۵)
اور ہمارا ارادہ ہے کہ ہم زمین پر کمزور کر دیئے جانے والوں لوگوں پر احسان کریں اور ہم انھیں پیشوا بنائیں اور انھیں وارث قرار دیں۔
خبر کا کوڈ : 347476
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش