0
Thursday 11 Sep 2014 18:35
اب لاکھوں نوجوان ہزاروں تنظیمیں بنائیں گے

امریکہ نے وار آن ٹیررازم کو انٹرنیشنلائز کیا تو ٹیررازم بھی انٹرنیشنلائز ہوگیا، اکرم ذکی

حکمرانوں نے غیر قانونی طور پر طاقت کا بے دریغ استعمال کیا
امریکہ نے وار آن ٹیررازم کو انٹرنیشنلائز کیا تو ٹیررازم بھی انٹرنیشنلائز ہوگیا، اکرم ذکی
جناب اکرم ذکی سینیٹ میں خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں۔ وہ ایک نفیس اور قابل سفارت کار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے انہوں نے چین، امریکہ، نائیجریا اور فلپائن میں خدمات انجام دیں اور پاکستان کی سول سروس میں سیکرٹری خارجہ کے منصب تک پہنچے۔ وہ پاکستان کے خارجہ امور کے وزیر مملکت بھی رہے۔ انہوں نے متعدد بین الاقوامی تنظیموں، کانفرنسوں اور مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی کی، جن میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، اقوام متحدہ کا ہیومن رائٹس کمیشن، اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC)، ایشین بینک اور اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (UNCTAD) شامل ہیں۔ آج کل وہ کئی تحقیقی اور سماجی تنظیموں سے وابستہ ہیں اور علاقائی اور بین الاقوامی سیاسی اور سلامتی کی مباحث میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مشرق وسطٰی میں سرگرم دہشت گرد گروہ داعش اور پاکستان کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں اکرم ذکی سے بات چیت کی، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: داعش کی جانب سے پوری دنیا کا امن تہہ و بالا کیا جا رہا ہے، پشت پناہی کرنے والوں کے کیا مقاصد ہیں۔؟
اکرم ذکی: 2001ء میں نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا، اس وقت میں نے ایک مضمون لکھا تھا، کہ جو جنگ اب تہذیبوں کے درمیان، یہ ہفتوں مہینوں اور سالوں میں ختم نہیں ہوگی، اس کو دو سو سال تک لگ سکتے ہیں۔ چونکہ کروسیڈ کی جنگ چار سو سال چلی تھی، اب سپیڈ زیادہ ہوگئی ہے۔ ٹیروریزم کے نام پر تہذیبوں کا تصادم جو شروع کیا گیا ہے، اب لاکھوں نوجوان ہزاروں تنظیمیں بنائیں گے، جن سے برسر اقتدار قومیں، دہشت گرد کہہ کر لڑیں گے۔ امریکہ نے وار آن ٹیرورازم کو انٹرنیشنلائز کیا تو ٹیرورازم بھی انٹرنیشنلائز ہوگئی۔ یہ پیشن گوئی اس وقت کی تھی، اس لئے اب ان طرح طرح کے دہشت گرد گروہوں کے باعث حیرانی نہیں ہوئی۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد امریکی سوسائٹی میں بھی پولرائزیشن ہوئی، پیسہ ایک خاص طبقے کے ہاتھ چلا گیا ہے اور عوام اپنے حکمرانوں سے ناخوش ہیں۔ اس تصادم کے باعث پوری دنیا عدم استحکام کا شکار ہوچکی ہے۔ بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کرکے طاقت کے استعمال پر انحصار کیا گیا، اس لئے ہر آنے والا یہی سمجھتا ہے کہ طاقت کا استعمال ہی اب واحد راستہ ہے۔ حکمرانوں نے ہر جگہ غیر قانونی طور پر طاقت کا بے دریغ استعمال کیا، گذشتہ دو سو سال سے حکمرانوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے تمام قوانین کو روند ڈالا ہے۔ اب حکمرانوں کے مقابل آنے والوں کو یہ غیر قانونی کہتے ہیں، چونکہ حکمرانوں کے مقابل آنے والوں کے پاس قانون نہیں ہے، اس لئے وہ بھی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے قوانین پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حکومتیں طاقت کے استعمال سے خود کو روکیں، تب مخالف قوتوں پر بھی پابندی لگائی جاسکے گی۔

اسلام ٹائمز: شدت پسندی کیساتھ ساتھ بربریت پسندی کا عنصر دہشت گرد تنظیموں میں دیکھا جا رہا ہے، اس سے کیا ظاہر کیا جا رہا ہے۔؟

اکرم ذکی: جب قانون کی حکمرانی نہیں رہتی، تو بربریت ہوتی ہے، امریکہ نے گوانتانا مو بے کھولا، ابو غریب جیل کھولا، یہ کس قانون کے تحت تھا، یہ اس ظلم و بربریت کا نتیجہ ہے۔ ظلم صرف ظلم کو ہی جنم دیتا ہے۔ بارڈر کی حدود و قیود ختم ہوگی، اور جنگ پوری دنیا میں پھیلے گی، جب تک حکمران خود کو قانون کے تابع نہیں کرتے معاملہ حل نہیں ہوسکتا۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران سرحد پر جنداللہ، جیش العدل اور اب داعش میں شمولیت کے لئے جانے والے متحرک ہیں، راہ حل کیا ہے۔؟

اکرم ذکی: دیکھیں یہ چھوٹے چھوٹے گروپس پیدا ہوتے رہیں گے۔ ان کے پس پردہ طاقتیں انہیں ابھارتی رہیں گی، ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستیں خود کو قانون کے تابع کریں، تاکہ وہ غیر قانونی اقدامات کو کنٹرول کرسکیں، شام اور عراق میں بے تحاشہ ظلم ہو رہا ہے، امریکہ نے آج اعلان کیا ہے کہ وہ ان علاقوں میں ہوائی حملے کرے گا، زمینی فوج نہیں بھیجی جائے گی۔ اوپر سے ماریں گے، یہ اوبامہ صاحب کی آج کی تقریر ہے۔ تو ثابت ہوا کہ ٹیرورازم معاشرتی ناہمواری اور ناانصافیوں کی پیداوار ہے۔

اسلام ٹائمز: دھرنوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں بتائیں، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔؟

اکرم ذکی: جو ماڈل ٹاون میں ظلم ہوا، اس کے بعد سے یہ سارا معاملہ شروع ہوا ، اب تمام لوگ خود پر اصول اور قانون لاگو کریں، معاملہ تب حل ہوگا ورنہ نہیں۔ عوام کے نام نہاد نمائندے صرف اپنے مفاد کی بات کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: فوج کو سیاسی معاملات میں کیوں بار بار گھسیٹا جا رہا ہے، حالانکہ فوج ان تمام معاملات سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتی ہے۔؟

اکرم ذکی: عقل کے استعمال کی بجائے جذبات کو بروئے کار لایا جا رہا ہے، یہ معاملہ کبھی ٹھیک نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا فوج کی جانب سے کسی قسم کا اقدام اٹھایا جاسکتا ہے۔؟
اکرم ذکی: میں فوج کے متعلق کچھ نہیں جانتا، میرا فوج سے تعلق نہیں ہے، میں سویلین ہوں۔ فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ اللہ انہیں کامیاب کرے۔
خبر کا کوڈ : 409252
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش