2
0
Thursday 13 Nov 2014 19:38

داعش کے حق میں وال چاکنگ اور حکومتی رویہ

داعش کے حق میں وال چاکنگ اور حکومتی رویہ
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
داعش کیا ہے؟ ایک دہشت گرد تنظیم؟ ایک وحشت ناک مافیا؟ ایک انتہا پسندانہ مذہبی رحجانات کے حامل افراد پر مشتعل گروہ؟ یا پھر مشرقِ وسطٰی میں نئے کھیل کے نئے کردار؟ کئی ایک دیگر سوالات بھی اٹھائے جاسکتے ہیں۔ مسئلہ مگر اس فہم کا ہے جو خطرے کو قبل از وقت بھانپ لیا کرتا ہے۔ ایسی زود فہمی کی ضرورت ہے جو خطرے کو سر اٹھانے کا موقع ہی نہیں دیا کرتی۔ بے شک داعش دہشت گرد تنظیم ہے۔ ہم مگر سب کے سب خوش فہم لوگ ہیں۔ کیا ہم ایک قوم ہیں؟ اگر ہم قوم ہیں تو پھر قوموں کے مجموعی رویے بھی ہوا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مگر مجموعی قومی رویے کے بجائے گروہی رویے ہیں۔ لسانی اور فرقہ وارانہ رویے ہیں۔ سیاسی مفادات کے تابع مفاد پرستانہ رویے۔
 
ورنہ اس بات میں شک کیا ہے کہ داعش کے حق میں پاکستان میں وال چاکنگ کی جا رہی ہے۔ اگر نہیں کی جا رہی تو پھر وزیرِاعلٰی پنجاب نے ملتان اور لاہور میں داعش کی وال چاکنگ کرنے والوں کے خلاف پولیس کو کارروائی کا حکم کیوں دیا؟ اور آئی جی پنجاب سے اس بارے رپورٹ کیوں طلب کی؟ کیا یہ سچ نہیں کہ پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ نے پنجاب میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا اعتراف کر لیا؟ کیا یہ بھی سچ نہیں کہ بلوچستان حکومت داعش کے خطرے کے حوالے سے وفاقی حکومت کو مراسلہ بھجوا چکی ہے؟ کیا یہ درست نہیں کہ لاہور کے مختلف علاقوں میں پوسٹرز لگانے اور پمفلٹ تقسیم کرنے پر عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف پاکستان میں پہلا مقدمہ درج ہوچکا ہے؟ یہ کوئی ایسی باتیں نہیں ہیں جو راز ہوں۔ گذشتہ چند روز کے اخبارات میں یہ ساری چیزیں شائع ہوچکی ہیں۔
 
داعش نے کیوں جنم لیا؟ طالبان کیوں پیدا ہوئے؟ ان کی دھڑے بندیاں کس طرح ہوئیں؟ کہاں کہاں رقم کے لین دین پر تنازع ہوا اور نئے نئے گروپ وجود میں آئے، ان حقائق سے ان تجزیہ کاروں کو ضرور پردہ اٹھانا چاہیے جو عسکریت پسندی کی وجوہات اور بالخصوص مشرقِ وسطٰی کی سیاست پر کام کر رہے ہیں۔ ہم بھی ضرور ان سوالات کے جوابات تلاش کریں گے، مگر اس کالم میں یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اس میں صرف اتنا کہنا ہے کہ پاکستان کے اندر داعش قدم جما رہی ہے اور حکمران اس حوالے سے نہ صرف خود تذبذب کا شکار ہیں بلکہ وہ پاکستانی عوام کو بھی کنفیوژ کر رہے ہیں۔ وزیرِاعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف صاحب نے کوئی چار دن ادھر جرمنی کی سرزمین پر کھڑے ہو کر کہا کہ داعش کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں اور پھر وہ اڑان بھر کر لندن گئے ہی تھے کہ جرمنی میں 9 ایسے افراد پکڑے گئے جو داعش کے لئے کام کر رہے تھے اور ان میں ایک 58 سالہ تیمور نامی پاکستانی بھی ہے، جس کے پاکستان میں بھی انتہا پسند تنظیموں سے روابط بتائے جاتے ہیں۔ جنابِ وفاقی وزیرِ داخلہ صاحب کا فرمانا ہے کہ پاکستان میں داعش نہیں اور اگر کوئی وال چاکنگ ہو بھی رہی ہے تو وہ مقامی عسکریت پسند گروہ کر رہے ہیں، جن سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
 
ابھی ان کے بیان کی گونج ختم ہی نہیں ہوئی تھی کہ سابق وفاقی وزیرِ داخلہ اور سینیٹر رحمان ملک صاحب نے کہا کہ بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے اعلٰی تعلیم یافتہ 500 انتہا پسند، جو داعش کے ساتھ منسلک ہیں وہ پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ میرا سوال مگر یہ ہے کہ یہ 500 انتہا پسند یہاں ریڑھی لگائیں گے؟ یا داعش کے لیے کوئی ’’بیس کیمپ‘‘ بنائیں گے اور ناپختہ ذہنوں کو ابو ابکر البغدادی کی’’بیعت‘‘ کے لئے تیار کریں گے؟ آخر الذکر ہی ان کا ہدف ہوگا۔ ایک دہشت گرد تنظیم جنداللہ بھی ہوا کرتی ہے۔ جس نے واہگہ بارڈر دھماکے کی فوری ذمہ داری قبول کی مگر بعد میں انصار الاحرار اور طالبان بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے۔ جنداللہ کے ترجمان فہد مروت نے ایک نجی ٹی وی کو بتایا کہ داعش کے ایک وفد نے جنداللہ سے ملاقات کی اور یہ ملاقات گذشتہ ہفتے ہوئی۔ اس ملاقات کا مقصد یہ طے کرنا اور جاننا تھا کہ کس طرح داعش پاکستانی’’جہادی گروپوں‘‘ کو متحد کرسکتی ہے؟ کیا داعش کا ہدف صرف عراق اور شام ہی ہے؟ بالکل نہیں۔ داعش نے اپنی خود ساختہ خلافت کا جو نقشہ جاری کیا، کیا اس میں پاکستان داعش کی خلافت کا حصہ نہیں؟ ہم مگر عجب لوگ ہیں۔ تذبذب کا شکار، خوش فہم اور زود رنج۔ مرزا سودا اس موقع پہ بڑے یاد آرہے ہیں۔
سودا کی جو بالیں پہ ہوا شورِ قیامت
خدامِ ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے
 

ہم مگر سودا کے ہمعصر نہیں، پتہ نہیں سودا پر کون سی قیامت ٹوٹی تھی کہ اسے نیند بھی نہ آئی اور جب آئی تو پھر ایک اور قیامت ساتھ لائی۔ ہم تو قیامتِ صغریٰ کے عادی ہوچکے ہیں۔ طالبان کی کئی ایک ’’قیامتیں‘‘ بھگتا چکے ہیں اور نہ معلوم کتنی قیامتیں اور ٹوٹیں گی؟ البتہ داعش والی ایک نئی قیامت کا ’’صور‘‘ کراچی سے لاہور اور ملتان سے کوئٹہ تک کے درودیوار پر پھونکا جا چکا ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر حکومتی رویہ اس حوالے سے’’سب ٹھیک ہے‘‘ والا ہے۔ اس رویے سے ایک نئی بحث کو تو جنم دیا جاسکتا ہے لیکن امڈتے ہوئے خطرے سے نہیں نمٹا جاسکتا۔ کیا ہم نے طالبان والے خطرے سے کچھ نہیں سیکھا؟ ان کے حوالے سے بھی یہی کہا جاتا رہا کہ ’’اپنے بچے‘‘ ہیں مگر یہ الٹا ہمارے ہی گلے پڑ گئے۔ ریاستیں مسلح گروہوں کے سامنے آئیں بائیں شائیں نہیں کیا کرتیں۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کب تک ہم اپنی کمزوریوں کو عالمی سازشوں کا بہانہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے فرار کرتے رہیں گے؟ حکومت اس بات کو تسلیم کرے کہ داعش پاکستان میں اپنے روابط مضبوط کر رہی ہے۔ حکومت نہ صرف تسلیم کرے بلکہ اس حوالے سے سکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر اس کا تدارک بھی کرے۔ 

داعش ایک خاص ذہنی رویے کا بھی نام ہے، اس ذہنی ناپختگی اور مشتعل رویے کے خلاف بھی ایک پختہ اور اعتدال پسندانہ رویے کے فروغ کی بھی ضرورت ہے۔ حکومتی عہدے داران مگر ٹاک شوز میں اپنے لئے نمبر ٹانکتے رہتے ہیں اور کچھ پریس کانفرنس کے ذریعے قوم کو ’’سب اچھا‘‘ ہے کی نوید سناتے ہیں، حقائق مگر اس کے برعکس ہیں۔ داعش ایک حقیقت ہے اور بہتر انٹیلی جنس کے ساتھ اس کے نیٹ ورک کو مضبوط ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ لاریب کہ داعش کے فتنے کو اگر پیدا ہونے سے پہلے ہی نہ کچلا گیا تو اپنی وحشت و بربریت میں طالبان سے بھی کئی ہاتھ آگے داعش نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لئے خطرہ ثابت ہوگی۔ حکومت کا مسئلہ صرف پی ٹی آئی یا ڈاکٹر طاہر القادری ہی نہیں دہشت گردی اور داعش کے حق میں ہونے والی سرِعام وال چاکنگ کو بھی حکومت اتنی ہی سنجیدگی سے لے جتنی سنجیدگی سے دیگر سیاسی ایشوز کو لے رہی ہے۔ ویسے سیاسی ایشوز جو حکومت کے وجود کی بقا کا سہارا بن سکیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس حوالے سے حقائق پسندانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 419370
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سلام
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ داعش کی وال چاکینگ کرنے والوں کو حکومت نے کیوں نہیں گرفتار کیا؟
bahoot khoob
ہماری پیشکش