0
Thursday 20 Nov 2014 23:08

شہید صحافیوں کی یاد میں سیمینار

شہید صحافیوں کی یاد میں سیمینار
 رپورٹ: عمران خان

راولپنڈی، اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے زیراہتمام عالمی یوم شہدائے صحافت کے موقع پر نیشنل پریس کلب میں شہدائے صحافت سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں نے شرکت کی۔ سیمینار کے شرکاء نے مختلف قراردادوں کے ذریعے یہ مطالبات کئے کہ میڈیا ورکرز کے قاتلوں کو قرار واقعی سزائیں دلوانے کیلئے حکومت ورثاء کو قانونی امداد کی فراہمی کے ساتھ ان کے کیسز انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلائے۔ جو پولیس افسران تاحال قاتلوں کو گرفتار نہیں کرسکے، اْنکے خلاف محکمانہ کارروائی کرتے ہوئے اْنکی جگہ بہترین کارکردگی کے حامل افسران کو تعینات کیا جائے اور شہدائے صحافت کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور کفالت کیلئے وفاقی و صوبائی حکومتیں خصوصی فنڈز قائم کریں۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضٰی جاوید ستی نے کہا کہ شہدائے صحافت کے ورثاء کو انصاف کی فراہمی اور اْنکی کفالت سمیت تمام ایشوز کو بھرپور انداز میں قومی اسمبلی میں اٹھائیں گے اور اس ضمن میں جب اور جہاں بھی میری مدد درکار ہو، میں میڈیا کے ساتھ ہوں۔ مہذب معاشروں کے باسیوں میں ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے، جو عناصر میڈیا ورکرز کے قتل میں ملوث ہیں، وہ آزادی اظہار رائے کے قاتل ہیں اور اْنہیں کسی صورت معافی نہیں ملنی چاہے، کیونکہ وہ پورے معاشرے کے قاتل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری ہے، اس ضمن میں میڈیا نے بہت مثبت کردار ادا کیا ہے اور اس راہ میں میڈیا نے جانی قربانیاں بھی دی ہیں۔ جس کیلئے ہم شہداء صحافت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ میڈیا ورکرز کو تحفظ اور انصاف فراہم کرے، میں یہاں صحافیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے آیا ہوں۔ اس سے بڑی قربانی اور کیا ہوگی کہ عوام تک حقائق پہنچانے کی کوشش میں 112 پاکستانی میڈیا ورکرز نے اپنی جانوں کی قربانی دے دی۔ پارٹی اور کابینہ میٹنگ میں صحافیوں کو درپیش سکیورٹی کے حوالے سے خدشات کے بارے میں بات کروں گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ میرا ابرار تنولی شہید سے گہرا تعلق تھا، اْس کی فیملی کی ہر ممکن مالی امداد کروں گا اور میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جس نے اس ایشو کو زندہ رکھا۔
 
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت ﷲ بابر نے کہا کہ جتنے بھی میڈیا ورکرز شہید ہوئے ان کے حوالے سے تمام تر تفصیلات جمع کرنے کیلئے ایک رجسٹر بنایا جائے اور اس کا نام ’’نیشنل رجسٹر آف شیم اینڈ ھیرر‘‘ رکھا جائے، انہوں نے کہا کہ میں قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے آئندہ ہونے والے اجلاس میں یہ مسئلہ اٹھاوں گا، کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں صحافیوں کیلئے فنڈ کے قیام اور معذور ہونے والے کیمرہ مین اسرار کیلئے پانچ لاکھ روپے کی امداد کے جو احکامات جاری ہوئے، ان پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوسکا اور اس مسئلے کو حل کرانے کیلئے پوری کوشش کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ پی ایف یو جے کی مشاورت سے میڈیا ورکرز کی سکیورٹی کیلئے بل تیار کیا جائے گا اور اْسے پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش کروں گا۔

پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں میڈیا ورکرز کو درپیش سکیورٹی کی سنگین ترین صورتحال پر ہماری صدائے احتجاج اقوام متحدہ تک تو پہنچ گئی مگر حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ ہماری حکومت مسلسل مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو میڈیا ہاوسز بغیر تربیت کے شورش زدہ یا پرخطر مقامات پر اپنے ورکرز کو کوریج کیلئے بھجوائیں گے اور اگر وہاں ان کو کسی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کا مقدمہ اس میڈیا ہاوس کے مالک کے خلاف درج کرایا جائے گا۔ 

جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد نے کہا کہ شہداء صحافت کی تعداد میں مسلسل اور خوفناک اضافہ ہو رہا ہے لیکن حکومتیں اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بری طرح سے ناکام ہیں، یہ اس معاشرے کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ شہداء صحافت کی فیملیز کو انصاف کی فراہمی کیلئے ہم سب کو ملکر کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میڈیا کو جو اس صورتحال میں بھی عوام تک حقائق پہنچانے کے فریضے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ شہید ہونے والے صحافی کرپٹ اور دہشت گردوں کی کارروئیاں قلم بند کر رہے تھے مگر ایسے عناصر ہمیشہ صحافیوں کے قلم ہی بند کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، انہیں ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ شہداء کے ورثاء کو انصاف کی فراہمی کے ساتھ کفالت کا بندبست کیا جائے۔
 
نیشنل پریس کلب کے صدر شہریار خان نے کہا کہ میڈیا ورکر اس خطرناک ترین صورتحال میں بھی اپنے فرائض منصبی بے خوف و خطر سرانجام دیتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے معاشی حقوق کو بڑی بے دردی سے کچلا جاتا ہے اور مرنے کے بعد ماسوائے چند میڈیا ہاوسز کے کوئی بھی اْن کے بچوں کی مالی امداد تک نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافی بھی سپاہیوں کی طرح فرائض سرانجام دیتے ہیں مگر انہیں سپاہیوں کی طرح مالی امداد نہیں دی جاتی ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ سیکرٹری آر آئی یو جے نے کہا کہ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمارے اندر اب یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ حکومتیں ہمیں شاہد انسان ہی نہیں سمجھتی ہیں۔ اسی لئے ہمارے قاتلوں کی گرفتاری یا انہیں سزائیں دلوانے کیلئے کوئی حکمران سنجیدگی کا مظاہرہ تک نہیں کرتا ہے۔ 

سابق وفاقی وزیر جے سالک نے کہا کہ میڈیا پورے معاشرے کی آنکھ کان اور آواز ہوتا ہے اور اگر میڈیا ورکرز کو ہی تحفظ فراہم نہ کیا جائے تو پورا معاشرہ اندھا اور بہرہ ہو جاتا ہے، اس لئے معاشرے کے افراد کو اس سنگین صورتحال پر آواز اٹھانی چاہیے اور حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔ فریڈیم نیٹ ورک کے عدنان رحمت نے کہا کہ پاکستان میں اب تک 112 میڈیا ورکرز قتل ہوچکے ہیں، جن میں سے 72 کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ 3 کا گلہ کاٹا گیا، 14 کو اغواء کرنے کے بعد قتل کیا گیا، 2 کی تو مسخ شدہ لاشیں ملی، جن سے انکی شناخت تک نہیں ہو رہی تھی جبکہ 22 خود کش حملوں میں مارے گئے۔ پاکستان میں اوسط ہر 35 دنوں میں ایک میڈیا ورکر کی کلنگ ہو رہی ہے، گذشتہ دس برس میں دنیا بھر میں کل 622 میڈیا ورکرز قتل ہوئے، جن میں سے 112 پاکستان سے ہیں۔ 

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے پاکستان میں نمائندے سینئر صحافی اقبال خٹک نے کہا کہ آزادی صحافت خوف کی صورت میں نہیں ہوسکتی۔ یہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ میڈیا ورکرز کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی سزائیں دی جا سکیں، جبکہ سب کے علم میں ہے کہ شہید حیات ﷲکی اہلیہ کو بھی اس لئے قتل کر دیا گیا کیونکہ وہ عینی شاہد تھی، مگر حکومت اسے انصاف تو دور کی بات تحفظ تک نہیں فراہم کرسکی۔ موجودہ صورتحال میں تو ہمیں سیاستدان اور ریاست دونوں ہی بے حس دکھائی دیتے ہیں۔ سابق ایم ڈی اے پی پی ریاض احمد نے کہا کہ اس معاشرے کے افراد کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہے کہ کرپٹ افراد کو بے نقاب کرنے والا کوئی نہیں صحافی ہے اور اس پر ہونے والے ظلم و ستم پر سب کو آواز اْٹھانی چاہیے۔ 

ممبر ایف ای سی قربان ستی نے کہا کہ جن ملکوں میں انصاف نہیں ملتا ان کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان میں میڈیا ورکرز کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔ سیمینار سے سینیئر صحافی جواد فیضی کے علاوہ عزیزﷲ حیدری کی اہلیہ سعدیہ حیدری، ان کی بیٹی علینا حیدری، ابرار تنولی شہید کی بیوہ، موسٰی خان خیل شہید کے بھائی عیسٰی خان خیل، شیری زادہ، لال مسجد واقعہ کی کوریج کے دوران شہید ہونے والے کیمرہ مین جاوید کے بھائی نواب گل نے بھی اظہار خیال کیا اور آخر میں شہدائے صحافت پاکستان کے ورثاء میں خصوصی ایوارڈز تقسیم کئے گئے۔
خبر کا کوڈ : 420611
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش