1
0
Wednesday 19 Nov 2014 12:06

حج کے دوران مشرکین سے برأت کرنا قرآن مجید سے ثابت ہے، علامہ شیخ شفا نجفی

حج کے دوران مشرکین سے برأت کرنا قرآن مجید سے ثابت ہے، علامہ شیخ شفا نجفی

علامہ شیخ محمد شفا کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقے گلگت سے ہے۔ علامہ صاحب نے قم اور نجف سے اعلٰی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن آکر علمی خدمات کا آغاز کیا۔ چنانچہ اسی سلسلے میں گذشتہ دو دھائیوں سے اسلام آباد میں قائم جامعہ اہلبیتؑ میں علوم اہلبیت (اصول، فقہ، تفسیر وغیرہ) کی تدریس میں مشغول ہیں۔ علامہ صاحب بہترین استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مقرر اور فن خطابت پر ید طولیٰ حاصل ہے۔ کافی حد تک تاریخ کا مطالعہ رکھتے ہیں۔ کئی بار حج کی سعادت حاصل کی ہے۔ اس سال حج کی سعادت حاصل کی، حج کے دوران اسلام ٹائمز کے نمائندے نے انکے ساتھ حج سے وابستہ دینی اور سیاسی مسائل سے متعلق گفتگو کی ہے۔ جسے قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ اداریہ

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرداً فرداً حج واجب ہے، بتائیے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو مخصوص اور محدود اوقات میں یہ فریضہ انجام دینے کا کوئی اجتماعی فائدہ بھی موجود ہے؟
شیخ شفا نجفی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، سب سے پہلے میں اسلام ٹائمز کے معزز ادارے کے توسط سے تمام ححاج کرام کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اس بار ہم سمیت انہیں حج بیت اللہ اور مسجد نبوی اور جنت البقیع میں آئمہ اطہار علیہم السلام کی مظلوم قبروں کی زیارت نصیب ہوئی، جسطرح امام جعفر صادقؑ ایک دعا میں فرماتے ہیں کہ بار الٰہا! ہمیں اس سال آئمہ اطہار کی قبور کی زیارت نصیب فرما اور ہمیں ہر سال یہ زیارات نصیب فرما۔ چنانچہ ہم لوگ اس حوالے سے بہت سعادتمند ہیں، جو یہ سعادت ہمیں نصیب ہوئی۔

جہاں تک حج اور دیگر اجتماعی عبادات کے فائدے کا تعلق ہے۔ تو عرض یہ ہے کہ عبادات دو طرح کی ہوتی ہیں، یعنی انفرادی اور اجتماعی۔ جیسے ایک بندہ خدا اپنے گھر میں تاریکیوں میں عبادت سرانجام دیتا ہے۔ اور اسکی عبادت سے دوسرے لوگ بے خبر ہوتے ہیں، مثلاً روزہ دار، دوسرے لوگوں کو مطلع کئے بغیر مخصوص اشیاء سے پرہیز کرتا ہے، تاہم یہ عبادت ایک طرح سے انفرادی عبادت ہے، جسکا زیادہ تر فائدہ خود روزہ دار ہی کو پہنچتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب بعض عبادات اجتماعی ہوتی ہیں، جو انفرادی طور پر اور تنہائی میں انجام نہیں دی جاتیں، جیسے حج۔ جس میں مختلف ممالک سے ایک ہی وقت میں لوگ مکہ مکرمہ آکر جمع ہو جاتے ہیں اور سب ملکر اجتماعی طور پر یہ عبادت انجام دیتے ہیں۔ حج کے دوران احرام باندھنا، اسکے بعد دو رکعت نماز پڑھنا، میدان عرفات اور مشعر الحرام میں وقوف کرنا اور پھر طلوع آفتاب کے بعد ایک ہی وقت مشعر سے نکل کر منٰی پہنچ کر شیطان پر کنکریاں مارنا وغیرہ جیسے اعمال انجام دینا، یہ سارے اجتماعی عبادات کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور جسطرح مسجد کے پڑوسیوں کی گھر میں اکیلے نماز پڑھنے کو ناقص قرار دیا گیا ہے اور نماز باجماعت پر تاکید کی گئی ہے اور ساتھ ہی اس کے فوائد کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ اسی طرح اجتماعی عبادت کے لحاظ سے حج کے بھی کافی فوائد اور مصلحتیں ہیں۔ تاہم حج میں اجتماعی تقریب کی جو مصلحتیں کار فرما ہوتی ہیں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آجکل اس سے وہ مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہورہے۔

اتنی بڑی تعداد میں مسلمان ایک ہی وقت ایک ہی جگہ جمع ہوتے ہیں اسکی مصلحت شاید یہی ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں، مسلمان جن مسائل سے دوچار ہیں۔ انکا تذکرہ ہو جائے، ایک دوسرے کی فریاد سنی جائے، انکے مسائل و مشکلات کے حوالے سے سیمینارز اور کانفرنسوں کا اہتمام کیا جائے، اور ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہی اور اسکے حل کے لئے تجاویز پیش کی جائیں۔ لیکن بدقسمتی سے دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ ہم دعاگو ہیں کہ خدا ہمیں وہ حج نصیب فرمائے، جس سے اصل مقصد حاصل ہو، اور اس دوران تمام مسلمانوں کو اصل مقصد حاصل کرنے کی طرف متوجہ فرما۔

اسلام ٹائمز: عرفات، منی اور رکن یمانی کے موجودہ نام کیسے پڑ گئے۔ کیا ان ناموں کے پیچھے کوئی تاریخی پس منظر موجود ہے؟ اور حجر اسود کی طرح رکن یمانی کو بھی حاجی لوگ چومتے ہیں کیا اسکی کوئی فضیلت ہے؟
شیخ شفا نجفی:
عرفات کو عرفات کہنے کے کئی وجوہات بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالی کی ‘‘معرفت’’ حاصل کرنے کیلئے عبادات و مناجات انجام دی جاتی ہیں اور عبادت کے ذریعے یہاں اللہ کی معرفت حاصل کی جاتی ہے۔ اسی بنا پر اسے عرفات کہتے ہیں جبکہ منٰی جو ہے، یہ مادہ تمنا (یعنی آرزو اور امید) سے ہے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ جبرائیلؑ نے حضرت آدمؑ کو حج کی ادائیگی کے بعد یہاں آکر کہا تھا کہ آپ کے دل میں مزید کوئی تمنا یعنی آرزو ہے تو بتاو۔ اسی بنا پر اس کا نام منٰی پڑ گیا۔
رکن یمانی کے حوالے سے عرض یہ ہے کہ بیت اللہ کے اس کونے کا جو معمار تھا اسکا تعلق ملک یمن سے تھا، اور یہ کہ یہ جنوب یعنی یمن کی طرف ہے۔ اسلئے اس کو رکن یمانی کہتے ہیں جبکہ اسکی فضلیت کے بارے میں ہمارے ہاں کافی روایات ہیں، اسکو ہاتھ لگانے کے حوالے سے بھی روایات موجود ہیں کہ اسکی زیارت کرنے والے، اسے چومنے والے جنت میں داخل ہونگے، چنانچہ حجر اسود کی طرح اس رکن کا بھی احترام کیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان سمیت پوری دنیا میں قمری مہینوں کی تاریخوں میں ایک یا دو دن کا اختلاف پایا جاتا ہے، اس اختلاف ایام کا کہیں عبادات پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا؟
شیخ شفا نجفی
: نہیں، میرے خیال کے مطابق اسکا عبادات پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

اسلام ٹائمز: آپ کی نظر میں پاکستان کا اعلان درست تھا یا سعودی عرب کا؟
شیخ شفا نجفی:
ہمارے فقہاء کے مطابق چاند دیکھنے اور پہلی تاریخ ثابت ہو جانے کے چار طریقے ہیں۔
۱: یہ کہ انسان خود اپنی آنکھوں سے چاند دیکھے۔
۲: یہ کہ دو عادل مومن چاند دیکھے جانے کی اسطرح گواہی دیں، کہ انکے بیانات میں کسی قسم کا اختلاف نہ ہو۔
۳: یہ کہ ایسا مومن بندہ گواہی دے کہ اس سے انسان کی تسلی ہو جائے۔
۴: اور آخری طریقہ یہ ہے کہ گذشتہ مہینے کے تیس دن گزر جائیں تو اگلا یعنی ۳۱ واں دن بغیر کسی تردد اور شک و شبے کے اگلے مہینے کا ہوگا۔ کیونکہ قمری تقویم کے حساب سے کوئی بھی مہینہ انتیس یا زیادہ سے زیادہ تیس دن کا ہوتا ہے۔ اسلام میں اکتیس دن کا کوئی مہینہ نہیں ہے۔ چنانچہ ان چار طریقوں سے چاند کی پہلی تاریخ ثابت ہوتی ہے اور چونکہ اس وقت ہم سعودی عرب میں ہیں، ہمیں کوئی پتہ نہیں چلتا۔ ہم خود تو چاند نہیں دیکھ سکتے، فقہاء کے مطابق ان چار طریقوں میں سے مہینے کو معلوم کرتے ہیں۔ جیسے اس سال پاکستان اور سعودی عرب کے اعلان میں دو دن کا فرق، جبکہ ایران اور پاکستان کے درمیان بھی ایک دن کا فرق تھا۔ لیکن تمام مسلمانوں نے سارے عبادات کو یہاں سعودی عرب کے اعلان کے مطابق سرانجام دیا۔ یہ ضروری نہیں کہ پوری دنیا میں ایک ہی قمری تاریخ ہو۔ پاکستان میں ایک ذمہ دار ادارہ ہلال کمیٹی کے نام سے موجود ہے اس نے اپنی تحقیق کے مطابق اعلان کیا، جبکہ سعودی عرب کے ذمہ دار افراد کو شاید دو دن قبل رویت ہلال کی تصدیق ہو چکی ہو۔ ہمارے علماء اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ آپ جس ملک میں ہیں اسی کے مطابق اعمال بجا لائیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کی نظر میں اس اختلاف کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟
شیخ شفا نجفی:
مسلمانوں کے فقہاء کے مابین اختلاف صرف چاند کے حوالے سے نہیں بلکہ بہت سارے معاملات میں اختلاف ہے۔ جیسے وضو کا طریقہ، نماز کا طریقہ، نکاح کے مسائل وغیرہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہر مسلمان اپنے فقہ کو درست سمجھ کر سختی سے اس پر عمل کرتا ہے، چنانچہ انکے درمیان اختلاف دور کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہاں حکومت یہ کام کرسکتی ہے، کہ وہ ایک مخصوص دن کا اعلان کرے، اور جبراً عوام کو ایسا کرنے پر مجبور کرے، تاہم میرے خیال میں یہ بھی مکمل طور پر ممکن نہیں ہے۔ جیسے گذشتہ سالوں میں اسطرح کی کوشش کی گئی تھی، لیکن اس پر بہت جھگڑے ہوئے، چنانچہ یہ ایک ناممکن عمل ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آجکل کی جدید تحقیق اور سائنسی طریقہ کار سے استفادہ کرنا درست نہیں، جبکہ چاند گرہن، سورج گرہن کے اوقات اور تاریخوں کو ایک سال نہیں بلکہ سو سال پہلے معلوم کیا جاتا ہے؟
شیخ شفا نجفی:
فقہاء کے درمیان خود اس طریقے کار کے شرعی ہونے پر اختلاف موجود ہے۔ بعض روایات ایسی ہیں جس میں سائنسی طریقہ کار کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ جیسے ایک روایت میں ہے کہ اپنے آنکھوں سے دیکھ کر روزہ رکھو اور اپنے آنکھوں سے دیکھ کر افطار کرو اور اپنے آنکھوں سے دیکھ کر عید مناو۔ تو سائنسی طریقہ کار پر اختلاف پایا جاتا ہے، بعض فقہاء سائنسی طریقہ کار کو تسلیم نہیں کرتے۔ بعض فقہاء دوربین کے ذریعے بھی چاند دیکھنا درست نہیں سمجھتے۔

اسلام ٹائمز: اگر ایک بندے کو یہ اطمینان ہو کہ مثلاً آج چاند سورج سے پہلے غروب ہو چکا ہے اور بالفرض کسی ملک میں آنے والے دن کو پہلی قرار دیا گیا تو اس حوالے سے کیا خیال ہے؟
شیخ شفا نجفی:
چاند کا بڑا ہونا اور بلند ہونا وغیرہ اگلے دن کے دوسرے ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ اسی طرح سائنسی طریقوں سے چاند کے جلد یا بدیر غروب ہونے کو معیار قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ مذکورہ چار طریقے موجود ہیں جنہیں معیار قرار دیکر مہینے کی تاریخ کا تقرر کیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی کے بعد تقریبا 1986ء تک مکہ مکرمہ میں ایرانی، امریکہ اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کرتے رہے۔ تو عرض یہ ہے کہ کیا اسکا کوئی شرعی جواز موجود ہے اور یہ کہ اسکا کوئی فائدہ موجود ہے؟
شیخ شفا نجفی
: مشرکین کے خلاف برأت اور نفرت کا اظہار کرنا قرآن کی روشنی میں بالکل جائز عمل ہے۔ ہاں ہر حکومت کی اپنی پالیسی ہوتی ہے، مثلاً ایران کا موقف ہے کہ مسلمانوں کو درپیش مسائل پر احتجاج کرنا چاہیئے اور قرآن کے فرمان کے مطابق مشرکین سے برأت کی جائے جبکہ سعودی عرب کی اپنی پالیسی ہے، اندرونی اور بعض خارجہ مسائل کی وجہ سے وہ ملک کے اندر کسی احتجاج کی اجازت نہیں دیتا۔

اسلام ٹائمز: آج کل عراق و شام میں جو دہشت گردی ہورہی ہے ، آپ کی نظر میں یہ لوگ کون ہیں اور ان کے پشت پر کون ہو سکتے ہیں؟
شیخ شفا نجفی:
ایک ہی سوچ اور فکر کے لوگ ہیں جو نہ صرف عراق اور شام بلکہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں دہشت گردی کررہے ہیں جبکہ اس حوالے سے امریکہ کا کردار بالکل ناقابل فہم ہے، کہ ایک جگہ وہ ایک سوچ کے لوگوں کے خلاف کاروائیاں کررہا ہے، جبکہ دوسری جانب دنیا کے کئی خطوں میں امریکہ اسی سوچ و فکر کے لوگوں کی حمایت کررہا ہے۔ تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کے پشت میں کون ہے، المختصر، امریکہ اسی چال کے ذریعے مسلمانوں کو آپس میں لڑا رہا ہے۔ یہی اور اسکے ہمنوا اس کھیل کے پیچھے ہیں۔

اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کے حوالے سے آپ کیا سوچ رکھتے ہیں؟
شیخ شفا نجفی
: عقلی بات ہے، ہر باشعور انسان چاہتا ہے کہ قاتل اور ظالم کو سزا دی جائے، لیکن افسوس کے ساتھ ہمارے ملک پاکستان میں قاتل و ظالم کو سزا نہیں دی جاتی۔ ضرب عضب کے نام سے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ایک نہایت قابل تحسین اقدام ہے، جسے جاری رہنا چاہیئے، تاہم یہ بھی کافی نہیں، بلکہ مجرموں کو گرفتار کرکے کھلے عام سزا دی جانی چاہیئے۔ یہی امن و امان کا ضامن ہے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں سے آپ کا کوئی اختلاف ہے۔ اگر اختلاف ہے تو کیا اسے سے ملک کو کوئی نقصان پہنچتاہے۔ اور اگر اختلاف نہیں تو اسکا کوئی فائدہ بھی ہے؟
شیخ شفا نجفی:
میرے خیال کے مطابق دونوں کی رائے اور موقف ٹھیک ہے۔ کون محب وطن ہے جو وطن عزیز کو پرامن، دہشت گردوں سے پاک، انصاف و عدل پر مبنی ملک دیکھنا نہیں چاہتا، مگر طرز عمل کا فرق ہے، کہ کیا نظام کو عوامی احتجاج کے ذریعے ٹھیک کرایا جائے یا قانون ساز اداروں کے ذریعے۔

اسلام ٹائمز: حج کے دوران کوئی تاثرات بیان کریں؟
شیخ شفا نجفی:
سعودی حکمران خود کو خادم الحرمین سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ دو ایسے شہر ہیں جنہیں تمام مسلمان قابل احترام سمجھتے ہیں۔ جنکی زیارت کا شرف حاصل کرنے کی خاطر دنیا کے کونے کونے سے مسلمان یہاں آتے ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہر سال زائرین پر نت نئی پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ اکثر ایسے کاموں اور عبادات سے بھی لوگوں کو روکا جاتا ہے، جنہیں پہلے یعنی رسول اللہ کے زمانے میں باقاعدہ طور پر انجام دیا جاتا تھا، دوسری بات یہ کہ یہاں مختلف مسالک کے مسلمان آکر جو اپنے اپنے طریقے اور مسلک کے مطابق عبادت کرتے ہیں اور اسمیں جو رکاوٹ ڈالی جاتی ہے اور اپنے مذہب کے احکام اور طریقہ کار کو لوگوں پر زبردستی مسلط کرکے اپنے وضع کردہ طریقے کے مطابق عبادت کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یعنی اپنی عبادت کا طریقہ مسلط کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیئے۔

خبر کا کوڈ : 419196
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
zanda rahain sheikh sahab
ہماری پیشکش