0
Thursday 28 Aug 2014 21:36

صحافت ضرور ایک پیشہ ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک اہم مشن بھی ہے، یوسف جمیل

صحافت ضرور ایک پیشہ ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک اہم مشن بھی ہے، یوسف جمیل
یوسف جمیل کا تعلق جموں و کشمیر کے شہر خاص سرینگر سے ہے، دوران تعلیم سے ہی آپ لکھتے آئے ہیں، 1979ء میں کشمیر کے مقامی اخبار ’’آفتاب‘‘ سے اپنے کیرئر کا آغاز کیا، بے باک اور نڈر قلمکار و صحافی ہونے کے علاوہ آپ ایک اعلیٰ افسانہ نگار بھی ہیں، 1984ء میں بی بی سی کے لئے کشمیر نمائندے منتخب ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ رائٹرس کے لئے بھی لکھتے تھے، خلیج ٹائمز اور منصف کے لئے بھی آپ نے اپنی خدمات پیش کی ہیں، کشمیر کے مقامی ایشوز کے علاوہ عالمی حالات پر بھی مسلسل اظہار خیال کرتے رہے ہیں، 1993ء سے ایشین ایج کے لئے کام کرتے ہیں، 10 سال تک ٹیلی گراف اخبار کے لئے بھی لکھا ہے، فعلاً وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے لئے اپنی پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے ہیں، کشمیر میں بے باک صحافی ہونے کے سبب ملی ٹینسی کے دوران آپ پر 6 سے زائد جان لیوا حملے بھی کئے گئے یہاں تک کہ ایک حملے میں آپ کے ایک ساتھی جان بحق بھی ہوئے، اسلام ٹائمز نے یوسف جمیل سے انکی رہائش گاہ پر ایک نشست کے دوران خصوصی اںٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: عالم اسلام کا میڈیا اور آج کل کے اہم اور حساس دور میں اس کی ذمہ داریاں کیا بنتی ہیں۔؟

یوسف جمیل: ابھی دنیا کا پاورفل میڈیا غیر مسلموں کے ہاتھوں میں ہے بالخصوص ویسٹ کے ہاتھوں میں دنیا کا تمام میڈیا ہے اور اگر عالم اسلام کی موجودہ صورتحال کی بات کریں گے تو دنیا کو پاورفل میڈیا کے ذریعہ وہی کچھ بتایا جاتا ہے جو ان کو اپنے مفاد میں محسوس ہوتا ہے اور جو بھی ممالک ان میں شامل ہیں، امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کے ہاتھوں میں دنیا کا پاورفل میڈیا ہے اس لئے ان کے مفادات کا تحفظ ہونا ہی ہے، افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کے پاس، مسلم ممالک کے پاس او آئی سی کے پاس ذرائع اور وسائل ہیں، وہ آسانی کے ساتھ ایک اچھے میڈیا اور ایک پاورفل میڈیا کو چلا سکتے ہیں لیکن تاحال ان کی جانب سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی ہے بے شک اچھے اخبار چھپتے ہیں، ٹی وی چینلز ہیں اور نیوز ایجنسیاں ہیں لیکن وہ اتنے پاورفل نہیں بن سکے جتنے پاورفل ویسٹرین میڈیا ابھی ایکٹیو ہیں، یہ افسوس کی بات ہے کہ ہم اس اہم شعبے میں پیچھے ہیں وہی بات لوگوں تک پہنچی ہے جو بات وہ لوگ ہم تک پہنچانا چاہتے ہیں جن کا اس عالمی میڈیا پر تسلط ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے مسلمان میڈیا کے اہم میدان میں بھی پیچھے نظر آرہے ہیں۔؟

یوسف جمیل: اس سلسلے میں مسلمانوں نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ وسائل کی کمی مسلمانوں کے پاس نہیں ہے، آپ جانتے ہی ہونگے میں اس بات کی جانب اشارہ کرتا چلوں کہ جیسے عرب ممالک اور گلف میں جتنے بھی بڑے بڑے اخبارات ہیں یا میڈیا فعال ہے، ٹی وی چینلز ہیں اور نیوز ایجنسیاں ہیں وہاں پر جو بھی ایڈیٹرس اور اعلیٰ اور اہم عہدوں پر جو فائض ہیں وہ یا تو امریکی ہیں، انگریز لوگ ہیں یا پھر انڈیا کے افراد موجود ہیں، اور کہا جاسکتا ہے کہ ان اخبارات، نیوز چینلز کے مالکان جو ہیں یا تو انہیں مسلمانوں پر بھروسہ نہیں ہے یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو ان عہدوں پر لایا گیا تو وہ اس طرح کا کام انجام نہیں دیں گے جس طرح کا وہ انجام دلوانا چاہتے ہیں تو وہاں پر مسلمانوں کا سرمایہ خرچ ہوتا ہے لیکن اس کی سربراہی غیر مسلم انجام دیتے ہییں اس سے بڑی بدقسمتی کی کیا بات ہوسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: میڈیا کی ضرورت اور اہمیت ہمارے معاشرے میں۔؟

یوسف جمیل: بہت سارے شعبے اہم ہیں جن میں میڈیا بھی ایک اہم ترین شعبہ ہے جب تک من حیث قوم اس پر غور و فکر نہ کیا جائے اور اس کی جانب مسلمان مائل نہیں ہونگے مجھے نہیں لگتا کہ وہ دنیا کے سامنے ہم اپنی بات رکھ سکتے ہیں، ہو کوئی اپنی بات منوا سکتے ہیں اور میڈیا سے تمسک کے بغیر ہم حقیقی مسائل سے پردہ نہیں ہٹا سکتے ہیں اور سچ کو دنیا کے سامنے نہیں لاسکتے ہیں، میڈیا پر مسلمانوں کا کنٹرول ہونا ضروری ہے، کنٹرول کی جب میں بات کرتا ہوں تو کم سے کم مسلمانوں کے پاس ایک اچھا اخبار ہو جس کو سنجیدگی کے ساتھ چلایا جائے جب تک ایسا نہیں ہوگا مجھے نہیں لگتا کہ مسلمانوں کے مسائل اور انکی بات اور انکے مختلف معاملات اور انکا موقف دنیا کے سامنے نہیں رکھا جاسکتا ہے، غرض کی عالم اسلام میں ایک پاورفل میڈیا کی سخت ضرورت ہے۔

مغربی میڈیا کے مقابلے میں میں سمجھتا ہوں ہمارا میڈیا بہت ہی کمزور ہے، جب تک مسلمانوں کے وسائل کا صحیح استعمال نہیں ہوتا ہے اور جب تک ہمارے میڈیا کے چلانے والوں کا انتخاب پروفیشنل بنیادوں پر نہ ہو اس وقت تک ہمارے حقوق کا تحفظ نہیں ہوسکتا ہے، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہمارا میڈیا کس طرح مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ فراہم کرے، ہمارے پاس جو بھی میڈیا ہے اور جس پیمانے پر بھی ہم فعال ہیں اور جہاں بھی ہیں ہم ہیں ہم تب تک مسلمانوں کے مسائل اور انکے حقوق کی ترجمانی کرنے میں کامیاب نہیں ہونگے جب تک ہم مسلمان مل بیٹھ کر بڑی سنجیدگی کے ساتھ غور کرتے ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل کیسے ممکن ہے، ہوسکتا ہے ہمارے مسلم رہنماؤن کو ذاتی اور انفرادی طور پتا ہو کہ میڈیا کا رول کیتنا اہم ہے، لیکن مجموعی طور پر وہ فر الوقت کوئی قابل تعریف اور قابل تقلید قدم نہیں اٹھا پائے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ہمارے دشمن نے تمام طاقت میڈیا پر لگا کر ہمارے خلاف برسر پیکار ہے اس حوالے سے آپ کی تشویش۔؟

یوسف جمیل: دیکھئے مین ان پر کوئی الزام نہیں لگانا چاہتا ہوں اور ان کو نہیں کوستا ہوں کیونکہ ہر ایک شخص کا حق ہے کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے اور اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ کرے، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہم اپنے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں کہ نہیں، ہم میں کیا کمزوریاں ہیں اور کیا خامیاں ہم میں پائی جاتی ہیں انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے، ہم اپنے مفادات کا خیال رکھنا ہے وہ اپنے طور بہت فعال ہیں، ہم اپنے بارے میں اپنے لوگوں کے بارے میں کیا کچھ کرسکتے ہیں یا ابھی تک کیا کچھ کیا، میں سمجھتا ہوں کمزوریاں اور کوتاہیاں ہم میں ہیں اس سے پہلے کہ ہم دوسروں پر انگلیاں اٹھائیں ہمیں خود پر نظر کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

ایک قلم کار معاشرے میں بہترین رول نبھا سکتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ صحافت ضرور ایک پیشہ ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک اہم مشن بھی ہے، جیسے ایک ڈاکٹر کی اہمیت دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی اہمیت الگ ہے، استاد کا پیشہ ایک اعلیٰ ترین پیشہ ہے لیکن صحافت پیشے کے علاوہ اہم ترین مشن بھی ہے، صحافی کو جہاں یہ دیکھنا ہے کہ اس کا گھر کیسے چل رہا ہے اور کی ضروریات زندگی بخوبی پوری ہورہی ہیں کہ نہیں ساتھ ہی ساتھ ایک صحافی کو یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس کا رول جو معاشرہ سازی کے حوالے سے بن رہا ہے وہ عام شعبوں سے منفرد اور حساس ہے، اس کا مشن اعلیٰ ہے، اسکی ذمہ داریاں سنگین ہیں اسے اپنے شعبے کے ساتھ زیادہ وفاداری کرنی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: بہترین صحافی کی خصوصیات کیا ہوسکتی ہیں۔؟

یوسف جمیل: ایمان داری اور فعالیت، ایک صحافی کو سب سے پہلے اور اسکی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایمانداری کے ساتھ اپنی ذمہ داری انجام دے، اور اپنے شعبے کے ساتھ فعالیت ضروری ہے، یہ عظیم ذمہ داری ہے، میں سیاسیت سے نفرت تو نہیں کرتا لیکن میں نے بذات خود کبھی خود کو صحافت کے بجائے سیاست کا انتخاب نہیں چاہا، میں سوچتا ہوں کہ اگر مجھے کبھی کوئی ایسا مسئلہ پیش آیا کہ صحافت کو خیرباد کرنے کا تو میں چاہوں گا کہ سماجی کام انجام دیا جائے، انفرادی طور پر سماج کی خدمت کرنا چاہتا ہوں، بجائے اس کے کہ میں سیاست کی طرف جاؤں یا کوئی ایسا کام اختیار کرو، جس کا مقصد شہرت یا دولت کمانا ہو۔ اور آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کی پرنٹ میڈیا میں اب بھی گنجائش ہے کہ آپ ہٹ کر بات کہیں یا کوئی منفرد مسئلہ کو لکھیں بمقابل الکٹرانک میڈیا، انڈین ٹی وی چینلز اور پاکستان ٹی وی چینلز اس نے تو صحافت کا بھیڑا غرق کرکے رکھا ہے، مجھے ٹی وی چینلز کی طرف سے آفر بھی آچکے ہیں لیکن مجھے پرنٹ میڈیا میں ہی دلچسپی ہے، لیکن یہ بات اہم ہے کہ ہم میڈیا سے بھی زیادہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعہ اپنی بات دنیا تک پہنچا سکتے ہیں، سوشل میڈیا کا دائرہ زیادہ وسیع ہے۔ سوشل میڈیا کی جو رفتار ہے وہ پرنٹ میڈیا سے بہت زیادہ تیز ہے، یہاں کی ٹی وی چینلز گھریلو مسائل اور فیملی ڈسپیوٹز اور ذاتی ایشوز کو ہائی لائٹ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہ میڈیا غیر ضروری مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔

ایک دوست میرے مجھ سے ملے اور کہا کہ میں اپنی نوکری سے استعفیٰ دینا چاہتا ہوں، میں نے وجہ پوچھے تو انہوں نے بتایا کہ اگر میں اہم اور سنجیدہ مسائل کی رپوٹنگ کرتا ہوں اور پس پردہ حقائق پر مبنی رپورٹز پر کام کرتا ہوں لیکن دہلی میں بیٹھے ہوئے ہمارے سینئر ہم سے کہتے ہیں یہ نہیں چلے گا، اس کے بدلے آپ دیکھئے کہیں اگر کوئی فیملی ایشو، لوگوں کے گھریلو مسائل اورپر سنسنی خیز رپورٹنگ کریں تاکہ وہ اس کو برھا چڑھا کر لوگوں کے سامنے پیش کریں، ایسا بھی ہمارے الیکٹرانک میڈیا میں ہوا ہے جو قابل افسوس ہے، مجھے ذاتی طور اس طرح کے میٖڈیا سے نفرت ہے اور یہ وباء صرف انڈیا میں ہی نہیں بلکہ پاکستان بھی اس دوڑ میں آگے آگے ہے، پاکستان میں کچھ ایک دو چینلز کو چھوڑ کر سب ایسا ہی ڈرامہ رچائے ہوئے ہیں، وہ ایک دو چینلز بھی معیاری تو نہیں لیکن کچھ باقی چینلز سے منفرد ہیں، اس کے علاوہ ہمارا میڈیا اور اس سے جڑے افراد اپنی پسند اور نا پسند کو بھی مدنظر رکھ کر رپوٹنگ کرتے ہیں لیکن جب ہم ایک صحافی کی حیثیت دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کو بالائے طاق رکھنا چاہیے اور مسلمانوں کا محدود میڈیا بھی مغرب کے لئے استعمال ہوتا اور بعض چھوٹے مسلمانوں کے صحافت سے وابستہ ادارے بالواسطہ یا بلا واسطہ مغرب ہی چلاتا ہے، یعنی ان کی معاونت مغرب ہی کرتا ہے اور وہ مغرب کے لئے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں، لیکن سب کے بارے میں ہم ایسا نہیں کہہ سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 407135
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش