0
Thursday 30 Jun 2022 22:59

تبدیلی کا ٹرینڈ اور ہمارا پاکستان(2)

تبدیلی کا ٹرینڈ اور ہمارا پاکستان(2)
تحریر: علی ناصر الحسینی

ہمارا ملک بھی دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں سے محفوظ نہیں، بالخصوص سیاسی عنوان سے جو کچھ آج دیکھا جا رہا ہے، اس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے بارے میں سب سے اہم یہی بات کی جاتی تھی کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت و مدد سے چل رہی ہے اور پہلی حکومت ہے، جس کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک پیج پر ہیں۔ مگر یکا یک منظر ایسا بدلا کہ اس تبدیلی نے عمران خان کی تبدیلی کو ایک اور تبدیلی سے بدل دیا۔ پی ٹی آئی نے اسے عالمی رجیم چینج پراجیکٹ کا نام دیا، یعنی ان کی حکومت تبدیل کرنے کیلئے باقاعدہ عالمی قوت بالخصوص امریکہ نے اپنا سارا زور لگایا ہے، اس کی دھمکی بھی دی اور عملی طور پر اس ایجنڈے کیلئے کام بھی کیا، جس کا الزام ان کی طرف سے طاقتور حلقے یعنی اسٹیبلشمنٹ پر بھی لگایا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ اس سے انکار کیا اور یہ کہا کہ وہ تو نیوٹرل ہیں، جبکہ عمران خان نے ان کے نیوٹرل ہونے کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور آج بھی بنا رہے ہیں۔

آج اس ملک میں ایک یونائیٹڈ حکومت ہے، جس میں کئی سیاسی جماعتیں شامل ہیں، مگر میرے خیال میں اس سارے عمل کے دوران جو چیز تبدیل ہوئی، اس کا وہم و گمان بھی ممکن نہیں تھا۔ اس تبدیلی و تغیر کو ایک انقلاب ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں ہمیشہ سب سے اہم اور موثر قوت اسٹیبلشمنٹ ہی رہی ہے، جو ماضی میں کئی حکومتوں، جن میں نواز شریف کی دو تہائی والی حکومت بھی شامل تھی، کو گھر بھیج چکی ہے۔ اس لحاظ سے ہمیشہ انہیں مقتدر اور طاقتور ہونے یا کئی ایک بار اصل حکمران ہونے کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ موجودہ حکومت جسے اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت و سرپرستی حاصل ہے، کو جب ایک ووٹ کی ضرورت تھی تو وزیرستان کے ایم این اے علی وزیر کو کراچی سے اسلام آباد لایا گیا، ووٹ کاسٹ کروایا اور پھر کراچی جیل بھیج دیا گیا۔ ایک منتخب ایم این اے پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک تقریر کرنے کا کیس ہے، ظاہر اس حوالے سے حکومت پر پریشر بھی ہے کہ جب مطلب تھا تو لے آئے، اب پابند سلاسل۔

اس طاقت و قوت کے ہوتے ہوئے دوسری طرف ہم سوشل میڈیا دیکھیں تو جو تبدیلی دکھائی دیتی ہے، اس کا کوئی متبادل نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف روزانہ ٹرینڈ ٹاپ کر رہے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ کی جانب سے ٹویٹ کیا جاتا ہے تو اس پر لاکھوں کی تعداد میں منفی کمنٹس اور ایسا نہیں کہ یہ کمنٹس کوئی باہر بیٹھے لوگ کر رہے ہیں، جنہیں پکڑے جانے کا ڈر یا خوف نہیں ہوتا۔ یہ پاکستان کے اندر بیٹھے لوگ کر رہے ہیں اور اگر ان کمنٹس کو پڑھا جائے تو اس میں جو مواد ہوتا ہے، جو تبصرے اور طعن بلکہ اس سے بھی بڑھ کر گالیاں ہوتی ہیں۔ وہ کیسے برداشت کیا جا رہا ہے، اس کی سمجھ نہیں آتی۔ ایک طرف ایک منتخب ایم این اے جس کے ووٹ سے آپ اپنی من پسند حکومت بناتے ہیں، اس کو جیل میں ڈالا ہوا ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر اس قدر یلغار کو برداشت کیا جا رہا ہے۔؟ پی ٹی آئی کے جلسوں میں جو لوگ پلے کارڈز پر تحریریں لکھ کے لاتے ہیں، وہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔

تبدیلی کے اس عمل اور جرات اظہار کے اس انداز کا کریڈٹ میرے خیال میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو جاتا ہے، جنہوں نے بڑی ہی جرات سے اس کا اظہار شروع کیا۔ دھیرے دھیرے وہ قوم یا اپنے فالورز کو اس نہج تک لے آئے کہ اب لوگ کھل کر اسٹیبلشمنٹ اور چیف آف آرمی اسٹاف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ تک کر رہے ہیں۔ اس عمل میں سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ ان مسائل میں ہماری افواج کے ایکس سروس مینز (سابق فوجی افسران) کا بہت بڑا رول ہے، جو بہت بڑی تعداد میں عمران خان کے موقف کیساتھ کھڑے ہیں، جبکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمٹ کو یہ احساس ضرور ہے کہ ان کی پالیسیز کو افواج کی لیڈر شپ لیول پر کیسا دیکھا جا رہا ہے اور یقیناً کور کمانڈرز اجلاس میں ان امور پر کھل کے بات بھی ہوتی ہوگی۔ اگرچہ ہماری افواج بہت پروفیشنل ہیں اور ایک چین آف کمانڈ کی پابند رہتی ہیں، مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس فوج کے اندر سے ہی حکومتوں کو تبدیل کرنے، اقتدار پہ قبضہ کرنے اور سافٹ انقلاب لانے کی کئی ایک سازشیں بھی پکڑی جا چکی ہیں یا ناکام بنائی جا چکی ہیں۔ جنرل مشرف پر ہونے والے خودکش حملوں سے لیکر آرمی بیسز بالخصوص مہران بیس پر ہونے والے حملے میں بھی فورسز کے داخلی سہولت کار موجود تھے۔

اس کے علاوہ ہم نے کبھی یہ نہیں سنا تھا کہ خفیہ تنظیم کا فلاں افسر یہ کر رہا ہے، اب چونکہ آرمی کے اپنے لوگ ان مہموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں تو یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ لاہور میں فلاں کمانڈر و انچارج یہ آپریشن کر رہا ہے اور اسلام آباد میں فلاں اس کام میں ملوث ہے۔ بعض لوگ اس کھلم کھلا تنقید اور اسٹیبلشمنٹ مخالف مہموں کے تسلسل سے یہ نکتہ بھی بیان کر رہے ہیں کہ ایک طرف ایک منتخب ایم این اے پر اس قدر سختی تو دوسری طرف اس قدر چھوٹ یا اس قدر پسپائی، آخر اس کی کوئی وجہ تو ہے کہ جس ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کسی سوشل میڈیا سورس پر کہیں ایک ناپسندیدہ کمنٹ کرنے سے لوگ گھبراتے تھے یا دل میں ہونے کے باوجود نہیں کر پاتے تھے، آج اتنے کھل گئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو پسپائی کا سامنا ہے۔ اس میں ہمیں تو سمجھ آتی ہے، وہ اسٹیبلشمنٹ کا گرائونڈ ریئلٹی کا ادراک ہے، انہیں اس کا بخوبی ادراک ہے کہ حاضر سروس اور ایکس سروس مینز کی کتنی بڑی تعداد اس وقت ان کے رجیم چینج پراجیکٹ کو سخت ناپسند کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔

اگر اسٹیبلشمنٹ کو کسی کا ڈر یا خوف ہے تو ان کے اپنے ہی لوگ ہیں، جو حاضر بھی ہیں اور غائب بھی، جو ظاہر بھی ہیں اور خفیہ بھی، کچھ بڑے کردار آہستہ آہستہ کھل کر سامنے بھی آرہے ہیں، جیسے چند دن قبل ایک سابق ایجنسی چیف نے ایک انتخابی میٹنگ میں تقریر کرکے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ اپنی حمایت اور ترجیح کا ذکر بھی کیا، اسی طرح وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کچھ اور کردار بھی سامنے آسکتے ہیں۔ ان کرداروں کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کو بخوبی علم ہے۔ لہذا وہ پی ٹی آئی کی اسٹیبلشمنٹ مخالف کمپین پر شاید اس طرح کے اقدامات نہیں کرسکتی، جس طرح کے اقدامات دیگر طبقات اور سیاسی و سماجی گروہوں کے خلاف کئے جاتے ہیں، بالخصوص بلوچ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ، سیاسی و سماجی کارکنان، پی ٹی ایم کے حامیان یا پھر مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کے خلاف اقدام کئے جاتے ہیں اور کئے جا رہے ہیں۔ اہل تشیع کارکنان پر تو سیدھا جمہوری اسلامی ایران کی ایجنسیز سے مل کر ساز باز کرنے کا الزام دھر دیا جاتا ہے، بلوچوں اور پی ٹی ایم والوں کو بھارت اور امریکہ، افغانستان سے جوڑ دیا جاتا ہے اور یہ خیال بھی نہیں کیا جاتا کہ بندہ عوام کا منتخب ممبر پارلیمنٹ ہے۔

اس تبدیلی اور سماجی تبدیلی نے بالآخر ایک دن یہ دن بھی دیکھنا ہے کہ جو طبقات آج مقہور و محبوس ہیں، وہ بھی سامنے آکر اپنے مسائل کی اصل وجہ کو بے نقاب کرتے نظر آئیں گے۔ ہمارے ملی قائدین کو بھی عمران خان کی طرح جرات اظہار کا مظاہرہ کرنا چاہیئے، اگر قائدین کھل کر قوم کو بتائیں گے کہ ان کے قاتل کون ہیں، کون ان کے قاتلوں کیساتھ ملا ہوا ہے، کیوں ان کے قاتلوں کیساتھ مذاکرات کئے جا رہے ہیں۔؟ کون ان کے بے گناہ جوانوں اور علماء کو غائب کرنے والا ہے؟ کس کا کیا کردار ہے تو قوم بھی سامنے آئے گی۔ یہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر آج ثابت ہوچکا ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ شیعہ قائدین اور سیاسی و سماجی رہنمائوں میں ابھی اتنی جرات اظہار نہیں کہ کھل کر ایسا بیان کرسکیں، جس سے ان کو کسی بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہو۔ لہذا عمران خان اور اس کے ٹائیگرز کے سلوگنز اور نعروں سے ہی لطف اندوز ہوں۔ فی الحال اتنی ہی تبدیلی قابل برداشت ہے، اس سے آگے ناقابل ہضم ہے۔
خبر کا کوڈ : 1001831
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش