2
Thursday 29 Sep 2022 09:24

سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حجت بالغہ

سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حجت بالغہ
تحریر: سید میثم ہمدانی
meesamhamadani@gmail.com

ماہ صفر کے آخری ایام اور ماہ ربیع الاول کا آغاز ایسے اہم دن ہیں کہ جن میں محرم و صفر جیسی عظیم مصیبتوں کی داستان موجود ہے۔ ان ایام میں امام حسن مجتبیٰ، امام علی بن موسیٰ الرضا اور امام حسن عسکری علیہم السلام کی شہادت کی تاریخ ذکر ہوئی ہے اور ان سب سے بڑھ کر عظیم مصیبت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت گونہ رحلت ہے۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کے وجود مبارک کی بنفس نفیس حضور کے زمانے کی طرح آپ کے اس دنیا فانی سے تشریف لے جانے کے بعد کے دور میں بھی قاطع برہان اور حجت بالغہ ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ آپ کی ذات گرامی میں ایسی اقدار و صفات اور اعلیٰ اخلاق موجود تھا کہ اگر جن و انس مل کر بھی اس پر مکمل عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں تو اپنے ناتوان وجود کی وجہ سے ان مجموعہ صفات کا مکمل مرکب نہیں بن سکتے، لیکن جس طرح معروف جملہ ہے کہ "آپ دریا را اگر نتوان کشید، ہم بہ قدر تشنگی باید چشید" یعنی اگر مکمل عمل کرنا میسر نہ بھی ہو تو یہ نہ عقل کے اصولوں کے مطابق ہے اور نہ ہی شرع اس بات کی اجازت دیتی اور نہ ہی محبت و اخلاق و عشق کا تقاضا ہے کہ اس راستہ پر بالکل بھی عمل نہ کیا جائے، بلکہ طریق عاشقان تو یہی ہے کہ وہ اپنے نمونہ عمل ذات کے راستہ پر اس بات کے علم کے باوجود کے اس کا مکمل حصول غیر ممکن ہے پھر پھی اپنی مکمل زندگی وقف کر دیتے ہیں، چونکہ وہی مکمل نمونہ عمل ہے اور وہی مرکز و محور حیات اور سعادت ابدی کا راستہ ہے۔

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے حجت بالغہ ہونے پر جہاں متعدد دلائل بیان کئے جا سکتے ہیں، وہاں بہترین دلیل اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام ہے کہ نہ جس کی سند میں کوئی بحث ہے اور نہ ہی جس کی دلالت میں کوئی ابہام ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلا" (سورہ نساء، آیت 59) "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں۔ پھر اگر کسی بات میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس بات کو اللہ اور رسول کی بارگاہ میں پیش کرو۔ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے۔" (ترجمہ کنزالعرفان، بحوالہ دعوت اسلامی ڈاٹ نیٹ) اس آیہ شریفہ میں خداوند تبارک و تعالیٰ صراحت کے ساتھ رسول اللہ کی اطاعت کو فرض قرار دے رہا ہے اور جس طرح اللہ نے اپنی مطلق اطاعت کا حکم دیا ہے، اسی حکم پر عطف کرتے ہوئے رسول اللہ کی اطاعت کو فرض قرار دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اولی الامر کی اطاعت کو قرار دیا گیا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ یہاں پر اولی الامر سے اگر مراد حاکم لیا جائے تو وہ حاکم شرع یعنی وہ مشروع اور الہیٰ حاکم ہے کہ جو رسول اللہ کی جانب سے منصوب ہے، وگرنہ تو نقض غرض لازم آتا ہے، چونکہ اللہ جس ہدف و مقصد کی خاطر اپنی اطاعت اور پھر اس کے بعد رسول اللہ کی اطاعت کو فرض قرار دے رہا ہے، اگر اس کے ساتھ ہی ایسے حاکم کی اطاعت کو بھی فرض قرار دے دیا جائے کہ جو اللہ اور رسول اللہ کی جانب سے منصوب نہ ہو تو یہ اسی ہدف و مقصد کی نفی کے مترادف ہوگا، جو فعل حکیم نہیں ہے۔

بہرحال جو بات متفق علیہ اور غیر قابل شک و تردید ہے، وہ سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خدا کی جانب سے مسلمانوں پر فرض ہونا ہے۔ یہاں دوسرا مرحلہ پیش آتا ہے کہ سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کیا کہ جو حجت بالغہ ہے اور اس جس کی اطاعت فرض ہے تو خدائے حکیم نے اس کا بھی بندوبست کر دیا اور اس سیرت کے بھی بنیادی اصول یعنی اس کا شاکلہ بیان فرما دیا۔ قرآن مجید سے ہی چند ایک سیرت کے پہلوؤں کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں، تاکہ پھر تاریخ کے باب اور روایات کی سند اور دلالت کے مسائل سے بچتے ہوئے سیرت کے حجت بالغہ ہونے کو مدنظر رکھا جا سکے، یہاں ارشاد باری تعالی ہو رہا ہے: "مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ" (سورہ فتح، آیت 29) "محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت، آپس میں نرم دل ہیں۔" (ترجمہ کنزالعرفان، بحوالہ دعوت اسلامی ڈاٹ نیٹ)

محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور قرآن کی گواہی کے مطابق اس رسول اللہ کی سیرت یہ ہے کہ وہ کفار کیلئے سخت اور آپس میں نرم دل ہیں۔ ایک دوسرے مقام پر اس نرمی دل کی مثال کو قرآنی کلمات میں "حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم" کے کلمات سے بیان کیا گیا۔ جہاں مفسرین حضرات اس آیت کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بابرکت ہونے کی جانب اشارہ قرار دیتے ہیں، وہیں پر حریص علیکم کا معنی یہی کیا جاتا ہے کہ یہ سیرت رسول اللہ (ص) کی جانب اشارہ ہے کہ آپ اس شدت اور اتنے زیادہ شوق اور جذبہ کے ساتھ اپنی امت کی ہدایت اور بھلائی چاہتے تھے کہ اس کے بیان کیلئے قرآن مجید کے اندر جو لفظ خداوند تبارک و تعالیٰ نے انتخاب کیا کو "حرص" کا لفظ ہے اور اسی شوق کے انتہا درجہ کا مقام وہ حرص ہے کہ جو رسول خدا کی تمام زندگی میں نظر آتا ہے، یہ ہدایت امت کیلئے شوق چاہے عرش معلیٰ پر سفر معراج میں دیکھا جائے یا اس بڑھیا کے گھر میں دیکھا جائے کہ جو محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر کوڑا پھینکتی رہی اور جب مریض ہوگئی تو رسول اللہ (ص) اس کی عیادت کو اس کے گھر تشریف لے گئے اور اس بندہ کیلئے ہدایت کا سامان فراہم ہوگیا۔

جہاں رسول اللہ اپنی امت کی بھلائی کیلئے حریص ہیں، وہیں وہ "اشداء علی الکفار اور رحماء بینھم" ہیں، پھر یہاں پر قرآن مجید نے سیرت کے اس بنیادی نکتہ کی طرف اشارہ فرماتے اور ایک اور جس ظریف نکتہ کی جانب اشارہ فرما دیا تو "معیت رسول اللہ" کا مسئلہ بھی ہے کہ یہ صفت یعنی دشمنوں کیلئے سخت جان اور اپنوں کیلئے نرم دل ہونا نہ صرف رسول اللہ کی صفت ہے بلکہ جو بھی رسول اللہ کے "ساتھ " ہیں یا اپنے آپ کو رسول اللہ کا ساتھی قرار دیتے ہیں، ان میں بھی یہی صفت ناگزیر ہے اور اگر یہ صفت ان میں مفقود ہوگی تو وہ ہوسکتا ہے کہ وہ "ساتھی ہونے" کے دعویدار ہوں یا اس آخرالزمان میں "العلماء ورثہ الانبیاء" کے عنوان کے تحت جبہ و عبا و قبا میں "معیت رسول اللہ" کے مدعی ہوں، اگر ان میں یہ بنیادی صفت نہیں پائی جاتی تو یہ صرف دعویٰ ہے، جو بلادلیل ہے۔ قرآن مجید نے تبلیغ کے میدان میں بھی سیرت رسول اللہ کی جانب اشارہ فرمایا ہے: "قُلْ هٰذِه سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِیْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ" (سورہ یوسف / آیت 108) "آپ کہیے کہ یہ میرا راستہ ہے، میں پوری بصیرت کے ساتھ (لوگوں کو) اس کی طرف بلاتا ہوں اور میرے پیروکار بھی (اس کی طرف بلاتے ہیں) اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔" (ترجمہ تبیان القرآن)

بصیرت کا بنیادی ترین تقاضا اپنے زمانہ اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انتہائی اخلاق کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دینا ہے، دعوت کا الہیٰ راستہ بھی جو سیرت نبوی کی روشنی میں اور خود آیات قرآنی کی نگاہ سے معین ہے، وہ اخلاق اور گالم گلوچ سے پرہیز کرتے ہوئے نرمی اور خوش اسلوبی کے ساتھ ہدایت کی طرف دعوت دینے کا راستہ ہے، سند قرآنی کے مطابق خداوند تبارک و تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ (علی نبینا و علیہ السلام) کو حتی فرعون کی جانب دعوت حق کیلئے بھیجا تو حکم یہی دیا کہ جب آپ فرعون کے پاس تشریف لے جائیں تو "فقولا لہ قولا لینا" تو آپ اس فرعون کو نرم انداز سے نصیحت کرنا۔ آج کے اس آخر الزمان میں کہ جس کے بیان میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، لیکن یہ مقالہ اس کی مجال نہیں دیتا، سب کو سیرت رسول اللہ کے دامن میں پناہ لینے اور دوبارہ اس کی جانب پلٹنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح صدر اسلام میں اسلام کے نام پر ایسا رویہ رکھا گیا کہ جو اسلام اور مسلمانوں کی راہنمائی اور ہدایت کے بجائے گمراہی اور شریعت محمدی میں بگاڑ کا سبب بنا۔

آج بھی قائدین دین و اپنے اوپر شریعت کی جانب سے انسانوں کی ہدایت کا بوجھ محسوس کرنے والے اگر اس سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور ہوگئے تو پھر یہ قوم دوبارہ امت محمدی بننے کی بجائے فرقوں، نحلوں اور گروہوں میں بٹ جائے، جو عین اس حکم الہیٰ کے مقابلے میں کہ جہاں "رحماء بینھم" کی طرف دعوت دی جا رہی ہے، وہاں یہ امت نبوی لال پیلے سیاسی جھنڈوں اور لبرل سیاست کے دلدادہ حکمرانوں، لیڈروں اور کھلاڑیوں کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کئے بیٹھے ہوں، لیکن اپنی صفوف میں اتنے سخت ہو جائیں کہ فرمائش امیرالمومنین علیہ السلام کے مطابق ان کو توڑنا پڑے۔
ماہ ربیع الاول انسانیت کیلئے اخلاق کی بہار کا مہینہ ہے، انسانیت کیلئے ایسے ہدیہ الہیٰ کو اپنے دامان میں لئے ہوئے ہے کہ جس کے بارے میں خدا "رحمت للعالمین"  "بالمومنین روف رحیم" اور جس کا ہدف و مقصد "سیجعل لہم الرحمن ودا" بیان کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ ربیع الاول میں جشن میلاد منانے کے ساتھ ساتھ سنت و سیرت میلاد پر عمل پیرا ہونے کی مشق کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ آج عالم اسلام میں جتنا امت اسلامی کو اس سیرت نبوی پر عمل کی ضرورت ہے، شاید ہی کسی اور چیز کی اتنی زیادہ ضرورت ہو۔
خبر کا کوڈ : 1016726
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش