1
Thursday 16 Feb 2023 11:07

حریم وحی کے پاسدار۔۔۔۔۔ باب الحوائج امام موسیٰ کاظمؑ(1)

حریم وحی کے پاسدار۔۔۔۔۔ باب الحوائج امام موسیٰ کاظمؑ(1)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

آج کی نوجوان نسل بالخصوص اہلبیت اطہار ؑ سے عقیدت و محبت رکھنے والوں کو آئمہ اطہار کی زندگی کے مختلف گوشوں، سیرت، کردار، حالات زندگانی سے بہت کم آگاہی ہوتی ہے۔ بالخصوص ہمارے ہاں مجالس کے ماحول کو دیکھا جائے تو خطباء و ذاکرین جس شخصیت کا دن منایا جا رہا ہوتا ہے، اس کی سیرت، کردار، واقعات، جدوجہد، مشکلات، دین و مکتب نیز امامت و ولایت کیلئے کی جانے والی کاوشوں، تبلیغات کو دس فی صد بھی بیان نہیں کیا جاتا۔ جس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہم واہ واہ اور کیا کہنے نیز مصائب وہ بھی خود ساختہ کے چسکے کا شکار ہو کر وقت، وسائل لگانے کے باوجود وہ نتائج حاصل نہیں کر پا رہے، جو ایک قوم، ایک ملت، ایک منظم و مربوط ہم فکر کروڑوں لوگ ہونے کے دعووں کے ساتھ ہونا چاہیئے بلکہ روز بروز ہمارا دشمن ہم پر غالب ہوتا جا رہا ہے اور ہم اس ملک میں دبتے جا رہے ہیں۔ پابندیاں اور سختیاں بڑھتی جا رہی ہیں، رکاوٹیں زیادہ ہو رہی ہیں اور ہم ان کا تدارک ہی نہیں کر پا رہے۔

اگر ہم آئمہ کی سیرت و کردار اور حیات و زندگانی کا درست مطالعہ کریں تو ہمیں اپنے حالات سے نمٹنے کی حکمت عملی بھی مل سکتی ہے، ہم ایک باوقار و منظم ملت کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ امام موسیٰ کاظم ؑ کی شخصیت بھی ایسی ہی ہستی ہیں، جن کا ذکر ہماری مجالس میں مصائب کے طور پر ہی ہوتا ہے، ان کے بارے میں فقط ہم یہی جانتے ہیں کہ وہ اسیر تھے، ان کی عمر اسیری میں گزری اور اسارت کے درمیان ہی انہیں زہر سے مسموم کرکے شہید کیا گیا۔ ایسے وقت میں جب ان کا جنازہ اٹھانے والا بھی کوئی نہیں تھا اور پل بغداد پر رکھا گیا، جبکہ ان کی اولاد بھی کثیر تھی، کم از کم اتنا تو ہو کہ جس دن جس شخصیت کا پروگرام ہو، اس کی زندگی کے مختلف پہلو کھول کر بیان کئے جائیں اور نوجوان نسلوں کو یہ ورثہ منتقل کیا جائے۔ زیر نظر مضمون اسی مقصد کے تحت تالیف و ترتیب دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ سلسلہ امامت کی ساتویں کڑی، حریم وحی کے تاجور و پاسدار امام موسیٰ ابن جعفر ؑ کے حوالے سے یہ مضمون پڑھ کر اپنے علم میں اضافہ اور رہنمائی کا ذریعہ محسوس کریں گے۔

سلسلہ امامت کی ساتویں کڑی حضرت امام موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام آپ کا اسم مبارک ہے اور کاظم و باب الحوائج کے لقب سے مشہور ہیں۔ معروف روایات کے مطابق 128 ھ میں بنی امیہ سے بنی عباس کی طرف حکومت کی منتقلی کے دوران آپ کی ولادت ہوئی اور 148 ھ میں اپنے والد رئیس مکتب جعفری حضرت امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ آپ کی 35 سالہ امامت کے دوران بنی عباس کے خلفاء منصور دوانقی، ہادی، مہدی اور ہارون رشید بر سر اقتدار رہے۔ منصور عباسی اور مہدی عباسی کے دور خلافت میں آپ نے کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور سنہ 183 ھ میں سندی بن شاہک کے زندان میں جام شہادت نوش کیا اور منصب امامت آپ کے فرزند امام علی رضا علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگیا۔ آپؑ کی زندگی بنی عباس کے اقتدار کے عروج کے زمانے میں گزری ہے۔ بنی عباس بھی اپنے دور میں آئمہ و اہلبیت ؑ سے سخت سلوک کرتے تھے، یہ بادشاہان وقت کا ایک رویہ ہے کہ وہ اپنے اقتدار کیلئے خطرہ سمجھے جانے والوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں، چاہے ان کی اپنی اولاد، بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔

ان سختیوں کی وجہ سے آپ نے تقیہ کا راستہ بھی اختیار کیا اور اپنے پیروکاروں کو بھی تقیہ کرنے کی سفارش کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی زندگی میں نہ بنی عباس کے حکمرانوں کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام دیکھنے میں آتے ہیں اور نہ ان کے مقابلے میں چلائی جانے والی علوی تحریکوں جیسے قیام شہید فخ وغیرہ کی صریح حمایت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود آپ بنی عباس اور دیگر افراد کے ساتھ ہونے والے مناظرات اور علمی بحث و مباحثوں میں بنی عباس سے خلافت کی مشروعیت کو سلب کرنے کی کوشش فرماتے تھے۔ اسی طرح عیسائی اور یہودی علماء کے ساتھ بھی آپؑ کے مختلف مناظرات اور علمی گفتگو تاریخی اور حدیثی منابع میں ذکر ہوئے ہیں۔ دوسرے ادیان و مذاہب کے علماء کے ساتھ آپؑ کے مناظرات مدمقابل کے پوچھے گئے سوالات اور اعتراضات کے جواب پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔

مسند الامام الکاظمؑ میں آپ سے منقول 3000 ہزار سے زائد احادیث جمع کی گئی ہیں، جن میں سے بعض احادیث کو اصحاب اجماع میں سے بعض نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح آپ نے نظام وکالت کی تشکیل اور اسے مختلف علاقوں میں وسعت دینے کیلئے مختلف افراد کو وکیل کے عنوان سے ان علاقوں میں مقرر کیا تھا۔ دوسری طرف سے آپؑ کی زندگی شیعہ مذہب میں مختلف گروہوں کے ظہور کے ساتھ ہم زمان تھی اور اسماعیلیہ، فطحیہ اور ناووسیہ جیسے فرقے آپ کی حیات مبارکہ ہی میں وجود میں آگئے تھے، جبکہ واقفیہ نامی فرقہ آپ کی شہادت کے بعد وجود میں آیا۔ شیعہ و سنی منابع آپ کے علم، عبادت، بردباری اور سخاوت کی تعریف و تمجید کے ساتھ ساتھ آپ کو کاظم اور عبد صالح کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ بزرگان اہل‌ سنت آپ کا ایک دین شناس ہونے کے عنوان سے احترام کرتے ہیں اور شیعوں کی طرح بعض اہل سنت بھی آپ کی زیارت کیلئے جاتے ہیں۔ آپ کا مزار آپ کے پوتے امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ شمال بغداد میں واقع ہے، جو اس وقت حرم کاظمین کے نام سے مشہور مسلمانوں خاص طور پر شیعوں کی زیارت گاہ ہے۔

نسب، کنیت و لقب
نسب: موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب۔
کنیت: ابو ابراہیم، ابو الحسن اور ابو علی۔
لقب: آپ کو دوسروں کے سامنے غصہ پی جانے کی بنا پر کاظم اور کثرتِ عبادت کی وجہ سے عبد صالح کا لقب دیا گیا۔
باب الحوائج نیز آپ کے القاب میں سے ہے اور مدینے کے لوگ انہیں زین المجتہدین کے لقب سے یاد کرتے۔
اہل سنت کے مشہور عالم ابن حجر ہیتمی (م 974 ھ) رقمطراز ہیں: آپ بہت زیادہ درگذر کرنے اور بردباری کی وجہ سے کاظم کہلائے اور عراقیوں کے نزدیک باب الحوائج عند اللہ (یعنی اللہ کے نزدیک حاجات کی برآوری کرنے والے) کے عنوان سے مشہور تھے اور اپنے زمانے کی عابد ترین، دانا ترین، عالم ترین اور انتہائی فیاض شخصیت کے مالک تھے۔

امام موسی کاظمؑ نے بروز اتوار 7 صفر سنہ 127 یا 128 ہجری میں مکہ و مدینہ کے درمیان ابواء نامی مقام پر اس وقت دنیا میں قدم رکھا، جب حضرت امام جعفر صادقؑ اپنی زوجہ کے ہمراہ حج سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ تاہم بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپؑ 129ھ میں مدینہ میں پیدا ہوئے ہیں۔ کتاب محاسن میں برقی کی روایت کے مطابق، امام صادقؑ نے اس نومولود کی ولادت کے بعد تین دن تک عمومی ضیافت کا بندوبست کیا۔ روز ولادت میں اختلاف ہے، بعض نے مہینے اور دن کے بغیر صرف مقام ولادت ذکر کیا ہے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ طبری نے ان کی ولادت ماہ ذی الحجہ اور بعض جیسے طبرسی 7 صفر میں نقل کی ہے۔

امام موسیٰ کاظم کی اولاد
آپ کی ازواج کی تعداد واضح نہیں ہے، لیکن منقول ہے کہ ان میں سب سے پہلی خاتون امام رضاؑ کی والدہ نجمہ خاتون ہیں۔ آپ کے فرزندوں کی تعداد کے بارے میں تاریخی روایات مختلف ہیں۔ شیخ مفید کا کہنا ہے کہ امام کاظمؑ کی 37 اولاد ہیں، جن میں 18 بیٹے اور 19 بیٹیاں شامل ہیں: امام رضاؑ، إبراہیم، شاہچراغ، حمزہ، إسحاق بیٹوں میں سے ہیں جبکہ فاطمہ معصومہ و حکیمہ آپ کی بیٹیوں میں سے ہیں۔ امام کاظمؑ کی نسل موسوی سادات سے مشہور ہیں۔ امام کاظمؑ کے والد ماجد امام صادقؑ کی شہادت کے بعد سنہ 148 ہجری میں 20 سال کی عمر میں امامت کا عہدہ سنبھالا۔ آپ کی امامت بنی عباس کے چار خلیفوں کی خلافت کے دور میں تھی۔ امامت کے دس برس منصور عباسی کی خلافت (حکومت136ھ-158ھ) میں، 11 سال مہدی عباسی کی خلافت (حکومت158-169ھ) میں، ایک سال ہادی عباسی کی خلافت (حکومت169-170ھ) میں اور 13 سال ہارون کی خلافت (حکومت 170-193ھ) میں گزارے۔ امام کاظمؑ کی امامت 35 سالوں پر محیط تھی۔ سنہ 183ھ کو آپ کی شہادت کے بعد امامت آپ کے بیٹے امام رضاؑ کی طرف منتقل ہوگئی۔

نصوص امامت
شیعوں کے عقیدے کے مطابق امام اللہ تعالیٰ کی طرف سے معین ہوتا ہے اور امام کو پہچاننے کے طریقوں میں سے ایک نص (رسول اللہ یا سابق امام کی طرف سے موجودہ امام کی امامت پر تصریح) ہے۔ امام صادقؑ نے متعدد موارد میں امام کاظمؑ کی امامت کے بارے میں اپنے خاص اصحاب کو بتایا تھا اور کافی، ارشاد، اعلام الوری اور بحارالانوار میں سے ہر ایک امام موسیٰ کاظمؑ کی امامت کے بارے میں ایک باب پایا جاتا ہے، جس میں بالترتیب 16، 46، 12 اور 14 روایات درج ہیں۔ من جملہ ایک روایت کے مطابق فیض بن مختار کہتا ہے کہ میں نے امام صادقؑ سے پوچھا کہ آپ کے بعد امام کون ہوگا؟ اسی اثناء آپ کے بیٹے موسیٰ آگئے تو امام صادقؑ نے ان کی معرفی کروائی۔ امام صادق کے فرزند علی بن جعفر نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ نے اپنے بیٹے موسیٰ کے متعلق فرمایا: "فَإِنَّهُ أَفْضَلُ وُلْدِی وَ مَنْ أُخَلِّفُ مِنْ بَعْدِی وَ هُوَ الْقَائِمُ مَقَامِی وَ الْحُجَّةُ لِلہِ تَعَالَى عَلَى كَافَّةِ خَلْقِهِ مِنْ بَعْدِی‏"، "وہ میرا افضل ترین فرزند ہے اور یہ وہ ہے جو میرے بعد میری جگہ لے گا اور میرے بعد مخلوق خدا پر اللہ کی حجت ہے۔" نیز عیون اخبار الرضا سے منقول ہوا ہے کہ ہارون رشید نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے موسیٰ بن جعفر کو برحق امام اور پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے شایستہ ترین شخص قرار دیا اور اس کی اپنی پیشوائی کو ظاہری اور طاقت کے بل بوتے پر قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 1041703
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش