0
Wednesday 8 Mar 2023 08:11

تدبر قرآن اور ناطق قرآن حضرتِ امام زمان (عج)

تدبر قرآن اور ناطق قرآن حضرتِ امام زمان (عج)
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس نقوی
صدر نشین البصیرہ و التنزیل

اللہ تعالیٰ نے انسانی ہدایت و سعادت کے لیے قرآن کریم کو بطور معیار قرار دیا، تاکہ انسان اس سے کمال مطلق تک رسائی حاصل کرسکے، لیکن ہم قرآن کو ایک ایسی کتاب تصور کرتے ہیں یا یوں کہیں کہ اس سے اس طرح سے استفادہ حاصل کرتے ہیں، جس سے ہم ظاہراً یہ ثابت کرسکیں کہ ہم مسلمان ہیں! یا جس سے ہم خود کو سرابی تسلی دے سکیں کہ ہم بحیثیت مسلمان اس حق کو ادا کر رہے ہیں، جو قرآن و اسلام کا ہم پر ہے! جبکہ حقیقت میں قرآن ایسی کتاب، ایسا کلام نہیں ہے۔ یہ خالق کائنات کا وہ انقلابی کلام ہے، جو قلب سے جسم اور جسم سے معاشرے کی تاریکی کو چیرتا ہوا انسانیت کو مہدوی بو دیتا ہوا کمالِ عصر (عج) کی جانب رہنمائی کرتا ہے اور لقائے خدا کی ابدی حقیقت کا پردہ چشمِ انسانی سے اٹھاتا ہے اور یوں قلبِ انسان اس قدر وسیع ہو جاتا ہے کہ خدا سی عظیم و بزرگ تر ہستی کا گھر بن جاتا ہے۔ "قلب المؤمن بیت اللہ"

ایسے میں تدبر قرآن کریم ہے، جو انسان کے قلب میں کشائش پیدا کرتا ہے۔ تدبر قرآن یعنی انسان اس کلام الہیٰ میں غور و فکر کرے اور ان حقائق کو قبول کرتے ہوئے اپنی زندگی کو ان حقائق کے مطابق ڈھالے۔ لہذا اگر ہم قرآن کریم کو سمجھنا چاہتے ہیں اور ان حقائق کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو ایسے میں جو شے انسان اور قرآن کے مابین رابطے کو قائم کرتی ہے، اس کو مضبوط کرتی ہے، جس کے دامن میں تدبر قرآن کریم ممکن ہے "ناطق قرآن (عج)" ہے۔ ناطق قرآن (عج) کون ہے؟ بلاشبہ آج وہ ہستی حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ کی ہے، جو کہ انسانِ کامل ہیں اور وہ اس کمال کے رتبے پر اس لیے پہنچے ہیں کہ انھوں نے قرآن کریم کو مکمل طور پر زندگی میں جاری کیا ہے، یعنی تدبر قرآن کریم کیا ہے۔ اسی لیے امام انسانوں میں قرآن کا عینی اور کامل وقوع ہے۔ لہذا خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) جو کامل ترین انسان اور سب اماموں کے امام ہیں، کامل ترین قرآن ناطق ہیں اور آنحضرتؐ کے بعد آپؐ کی اہل بیت (علیہم السلام) انسانِ کامل اور قرآنِ ناطق ہیں۔

لہذا اہل بیت (علیہم السلام) کی صفات، درحقیقت انسان کی زندگی میں قرآن کی عینی تشریح ہیں اور "زیارت جامعہ کبیرہ" درحقیقت، قرآن ناطق اور انسانِ کامل کی تفسیر ہے۔ ایسے میں آج وہ ہستی جس نے کاملاً قرآن کریم کو اپنی زندگی میں جاری کیا، وہ امام زمانہ حضرت مھدی عجل اللہ فرجہ کی ہستی ہے۔ پس ایسے میں تدبر قرآن کریم کرنا ناطق قرآن حضرت امام زمانہ (عج) سے متمسک ہونے کے ذریعے ممکن ہے، کیونکہ ان سے متمسک ہوئے بنا قرآن کو زندگی کا حصہ بنانا ناممکن ہے۔ جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام خطبہ 158 میں قرآن سے متعلق اس طرح ارشاد فرماتے ہیں: ”ذَلِكَ الْقُرْآنُ فَاسْتَنْطِقُوهُ-وَ لَنْ يَنْطِقَ وَ لَكِنْ أُخْبِرُكُمْ عَنْهُ-أَلَا إِنَّ فِيهِ عِلْمَ مَا يَأْتِي- وَ الْحَدِيثَ عَنِ الْمَاضِي- وَ دَوَاءَ دَائِكُمْ وَ نَظْمَ مَا بَيْنَكُم‏

ہاں! یہ قرآن ہے، پس اس سے چاہو کہ تم سے بولے، اس حال میں کہ ہرگز قرآن(نبی اور ائمہ معصومین علیهم السلام کی تفسیر کے بغیر) نہیں بولے گا۔ تمھیں چاہییے کہ نبی اکرم ﷺ اور معصومین علیهم السلام کی زبان کے ذریعے قرآن کے معارف سے آشنا ہو اور قرآن کے علوم کو انهیں سے دریافت کرو۔ قرآن الہی علوم و معارف کا ایسا سمندر ہے کہ اس گہرے اور اتھاه سمندر میں غواصی اور اس کے انسان ساز موتیوں کا حصول فقط انہی حضرات کا نصیب ہے، جو عالم غیب سے ارتباط رکھتے ہیں۔ خداوند متعال نے بھی لوگوں سے یہی چاہا ہے کہ نبی اکرمﷺ اور ائمہ معصومیں علیهم السلام کے دامن سے متمسک ہوکر، علوم اہلبیت علیہم السلام سے استفاده کرکے اور ان حضرات کی ہدایت و رہنمائی سے قرآن کے بلند معارف حاصل کریں، اس لیے کہ قرآن کے علوم اہلبیت علیہم السلام کے پاس ہیں۔

اسی بنیاد پر حضرت علی ؑ فرماتے ہیں: ”ذَلِكَ الْقُرْآنُ فَاسْتَنْطِقُوهُ وَ لَنْ يَنْطِقَ
یہ قرآن ہے اور دیکھو! تم امام معصوم کی تفسیر و توضیح کے بغیر قرآن سے استفاده نهیں کرسکتے، یہ امام معصوم ہی ہے، جو تمهارے لیے قرآن کی تفسیر بیان کرتا ہے اور تمهیں قرآن کے علوم و معارف سے آگاه کرتا ہے۔ حضرت علی اس مقدمہ کو بیان کرکے قرآن کو ایک دوسرے زاویئے سے قابل توجہ قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو قرآن کی طرف رجوع اور اس میں تدبر اور تفکر کی دعوت دیتے ہیں، حضرت علیؑ فرماتے ہیں کہ امام معصوم ہی قرآن کے علوم و معارف کو مسلمانوں کے لیے بیان کرتا ہے اور خود قرآن نہیں بولتا اور لوگ خود بھی قادر نہیں ہیں کہ براه راست الٰہی پیغاموں کو حاصل کریں، تو اب ”أُخْبِرُكُمْ عَنْهُ” میں تمهیں قرآن سے آگاه کرتا ہوں اور قرآن کے علوم و معارف کی تمهیں خبر دیتا ہوں، جان لو! کہ جو کچھ تمهاری ضرورت کی چیزیں ہیں، وه سب قرآن کریم میں موجود ہیں، ”أَلَا إِنَّ فِيهِ عِلْمَ مَا يَأْتِي وَ دَوَاءَ دَائِكُمْ وَ نَظْمَ مَا بَيْنَكُم‏" (نحل: 44) گذشتہ و آئنده کا علم قرآن میں ہے اور تمهارے درد کی دوا اور تمهارے تمام امور کا نظم و نسق قرآن میں ہے، یہ تم پر لازم ہے کہ قرآن کریم اور علوم اہلبیت علیہم السلام سے استفاده کرکے اپنے امور کو منظم کرو۔

پس ایسے میں اگر کوئی شخص قرآن کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتا تو اس کو ناطق قرآن حضرت امام زمانہ (عج) سے وابستہ ہونا ہوگا، کیونکہ وہی ہیں، جنھوں نے تدبر قرآن کیا اور ناطق قرآن کا مقام پاپا۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ طوطے کی طرح قرآن پڑھنے سے نہ تو شخصیت نکھرتی ہے اور نہ ہی عرفانیت پیدا ہوتی ہے۔ نتیجتاً انسان کی زندگی محور قرآن ہے۔ لہذا وہ اس کلامِ الہیٰ میں غور و فکر کرکے اپنی زندگی میں موجود افراط و تفریط، اضطراب اور غیر فطرتی کیفیات کو نہ صرف دور کرسکتا ہے، بلکہ ان سے مکمل نجات حاصل کرسکتا ہے۔ چنانچہ زندگی میں قرآن کریم کی معرفت کے حصول اور بطورِ کتاب زندگی استفادہ کرنے کے لیے تدبر قرآن کرنا ہوگا اور اس کے لیے ناطق قرآن سے آشنائی، ان کی قلبی معرفت ہونا ضروری ہے،  جو کہ طہارت و پاکیزگی کا باعث بنتا ہے۔ بلاشبہ یہی سالمیت و فطرتی بقاء مالک کائنات سے قربت و معراجِ انسانی کا ذریعہ ہے۔

پس ایسے میں مولا علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں لوگوں کو اس طرح وصیت فرماتے ہیں: "قرآن کی بنیاد پر اپنے اعمال کی کھیتی کرنے والے اور اس کے پیرو ہو جاؤ، قرآن کو اپنے پروردگار پر دلیل و گواہ قرار دو، خدا کو خود اسی کے کلام سے پہچانو! اوصاف پروردگار کو قرآن کے وسیلہ سے سمجھو! قرآن ایسا رہنما ہے، جو خدا کی طرف تمھاری رہنمائی کرتا ہے۔ اس الہیٰ رہنماء سے اس کے بھیجنے والے (خدا) کی معرفت کے لیے استفادہ کرو اور اس خدا پر جس کا تعارف قرآن کرواتا ہے، ایمان لاؤ۔ اے لوگو! تم سب کو ایک خیر خواہ اور مخلص کی ضرورت ہے، تاکہ ضروری موقعوں پر تمھیں نصیحت کرے، قرآن کو اپنا ناصح اور خیر خواہ قرار دو اور اس کی خیر خواہانہ نصیحتوں پر عمل کرو، اس لیے کہ قرآن ایسا ناصح اور دلسوز ہے، جو ہرگز تم سے خیانت نہیں کرتا ہے اور سب سے زیادہ اچھی طرح سے صراط مستقیم کی طرف تمھاری ہدایت کرتا ہے۔ لہذا آج ہم سب ناطق قرآن (عج) سے عہد کرتے ہیں کہ ہم تدبر قرآن کریم کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے اور قرآنی معاشرے کی تشکیل کے ذریعے امام زمانہ (عج) کے ظہور کی راہ کو ہموار کریں گے، ان شاء اللہ۔
خبر کا کوڈ : 1045662
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش