0
Monday 27 Mar 2023 20:43

ہندوستان میں شیعہ مسلمان اور دہلی بغداد معاہدہ

ہندوستان میں شیعہ مسلمان اور دہلی بغداد معاہدہ
ترتیب و تنظیم: علی واحدی 
 
ہندوستان میں لاکھوں شیعہ مسلمان جو بعض پابندیوں کی وجہ سے عراق میں موجود مقدس مزارات پر جانے کا خواب دیکھتے تھے، ان کے لئے نئی دہلی اور بغداد کے درمیان حال ہی میں طے پانے والے معاہدوں سے عراق کا زیارتی سفر آسان ہوجائیگا۔ اگرچہ ہندوستان کو دنیا میں "جوگیوں اور ہاتھی" کی وجہ  سے جانا جاتا ہے، لیکن 72 قومیتوں کا یہ ملک، اپنے بڑے سائز اور زیادہ آبادی کی وجہ سے، بہت سے مذاہب پر مشتمل ہے اور ہر مذہب کی آبادی بعض ممالک کے باشندوں کی تعداد کے برابر ہے۔ اگرچہ ہندوستان کی 80% آبادی "ہندووں" پر مشتمل ہے، لیکن مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد ہندوستان میں رہتی ہے اور اس ملک میں دوسری سب سے بڑی اقلیتی آبادی ہے۔

ہندوستانی سیاستدانوں نے حالیہ برسوں میں مسلمانوں اور خاص طور پر شیعوں کے لیے بہت سی پابندیوں عائد کر رکھی ہیں، لیکن دہلی کے حکام اس بڑی آبادی کے عقائد، افکار اور مذہب سے آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ اس سلسلے میں نئی ​​دہلی نے سفارتی میدان میں ہندوستان کے شیعوں کے حق میں کچھ معاہدے کیے ہیں۔ عراقی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق نئی دہلی اور بغداد نے سکیورٹی تعلقات کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے، جس کی بنیاد پر ہندوستانی شہریوں کے لئے عراق میں مقدس مقامات کی زیارت کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

یہ معاہدہ عراق کی قومی سلامتی کے مشیر "قاسم الاعرجی" کے جمعہ کو ہندوستان کے دورے کے دوران طے پایا۔ موصولہ رپورٹ کے مطابق عراق کے قومی سلامتی کے مشیر کے دورہ ہند کے دوران دونوں ممالک نے سکیورٹی تعلقات کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔ ہندوستانی میڈیا نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی اور فریقین نے مختلف شعبوں میں تعلقات کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا، جو دونوں ممالک کے مفادات کو پورا کرے گا۔

ہندوستانی میڈیا کے مطابق دونوں فریقوں نے دفاعی تعاون بڑھانے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سکیورٹی تعلقات کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ ہندوستانی میڈیا نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان مضبوط تاریخی تعلقات ہیں اور ہر سال بہت سے ہندوستانی زائرین نجف اور کربلا میں مقدس مقامات کی زیارت کرتے ہیں۔ عراق کی قومی سلامتی کے مشیر "قاسم الاعرجی"  کا نئی دہلی کا دورہ جہاں مشترکہ تعاون بڑھانے کی راہ ہموار کرے گا۔ وہاں سیاحت کے شعبوں بالخصوص ہندوستان کے شیعہ مسلمانوں کو مقدس مقامات کے سفر میں سہولیات فراہم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

ہندوستان میں شیعوں کی متاثر کن آبادی
ہندوستان اور عراق کے درمیان مقدس مقامات تک سفر کی سہولت فراہم کرنے کا معاہدہ ایسے وقت کیا جا رہا ہے کہ دنیا میں شیعوں کی ایک بڑی آبادی ہندوستانی شہروں میں رہتی ہے۔ ہندوستانی شیعہ مسلمان اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں اور اندازوں کے مطابق وہ اس ملک کے 230 ملین مسلمانوں کی کل آبادی کا تقریباً 30-35% ہیں، یعنی ان کی آبادی ستر ملین سے زیادہ ہے۔ہندوستان کے شمال اور جنوب میں بہت سے شہر اور دیہات ہیں، جہاں شیعہ  مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں ہے۔

بعض افراد کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں شیعہ آبادی کی تعداد دنیا کے تمام اسلامی ممالک حتیٰ کہ ایران سے بھی زیادہ ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلی صدیوں میں ہندو سرزمین میں مسلمانوں کی موجودگی نے اسلامی ثقافت اور تہذیب کے فروغ پر زبردست اثر ڈالا ہے۔ سادات گجرات جنہیں "میر" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، تقریباً 250,000 افراد کی آبادی ہے، جو جنوبی ایشیائی سادات کا بڑا حصہ ہے۔ یہ سادات ہندوستان اور پاکستان میں بکھرے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان 2030 تک آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہوگا اور اس میں مسلمانوں اور شیعوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوگا۔ صرف پچھلی دہائی میں، ہندوستان کی مسلم آبادی میں 50 ملین افراد کا اضافہ ہوا ہے اور مستقبل میں یہ تعداد نمایاں طور پر بڑھے گی، جو انڈونیشیا سے بڑی مسلم آبادی قرار پائے گی۔

ہندوستان میں شیعہ مذہب کے پھیلاؤ کی تاریخی جڑیں ساتویں صدی ہجری میں منگولوں کے ایران پر حملہ کے بعد کے برسوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس وقت بہت سے ایرانیوں نے اس سرزمین کی طرف ہجرت کی۔ بعض ہندوستانی حکمرانوں کے شیعیت کی طرف مائل ہونے کے بارے میں کچھ تاریخی شواہد کو اس بات سے  تقویت ملتی ہے کہ ایران سے ہجرت کرنے والوں نے تشیع کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لکھنؤ شہر، جسے ہندوستان کے اہم شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، اثناء عشری شیعوں کا عظیم مرکز ہے اور اس شہر میں قدیم شیعہ مساجد اور امام باگاہوں کو ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ حیدرآباد، دکن اور میسور کے شہر ہندوستان کے شیعہ آبادی والے علاقوں میں سے ہیں۔

اگرچہ ہندوستان میں شیعہ مسلمانوں کے صحیح اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، لیکن بعض اطلاعات کے مطابق اس ملک میں زیادہ تر شیعہ "بارہ امامی اثنا عشری"، "زیدیہ" اور "بحرا داؤدی" (اسماعیلی شاخ کے قریب) سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں شیعہ جماعتیں، جیسے مسلم یونین، شیعہ شریعہ ایسوسی ایشن، شیعہ ایسوسی ایشن، علماء اور مبلغین ایسوسی ایشن اور مختلف ثقافتی مراکز اور خصوصی شیعہ مکاتب بھی مختلف شعبوں میں سرگرم عمل ہیں۔ ہندوستانی شیعوں کو بہت سے معاشی مسائل درپیش ہیں اور مختلف مراکز کی سرگرمیوں کے باوجود مذہبی معلومات ان تک کم پہنچتی ہیں اور شیعوں کو سیاسی طور پر کوئی خاص مقام حاصل نہیں ہے، لیکن انڈیا میں طاقت کے موجودہ توازن کی وجہ سے 2016ء کے عام انتخابات میں شیعہ برادری کے ووٹ کی اہمیت کسی حد تک سامنے آئی ہے۔

مزاحمت کے ساتھ ہندوستانی شیعوں کی قربت
ہندوستان کے شیعہ ہر سال محرم کے مہینے میں سید الشہداء حضرت ابا عبد اللہ الحسین (ع) سے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہندوستان کے شیعہ علاقوں میں خاص مقامات بنائے گئے ہیں، جنہیں "امام باڑہ" کہا جاتا ہے اور یہ تقریباً حسینیہ جیسی جگہ ہوتی ہے، جہاں ماتمی مجالس منعقد کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں، جہاں عزاداران سید الشہداء سینہ زنی اور زنجیر زنی کرتے ہیں۔ عاشورہ کے دن ملک بھر میں سوگواری کی مجالس برپا کی جاتی ہیں۔اربعین حسینی (ع) کے موقع پر نجف و کربلا پیدل سفر میں ہندوستان کے شیعوں کی بھی بھرپور موجودگی ہوتی ہے۔ گذشتہ سال پانچ ہزار سے زائد شیعہ اور ابا عبداللہ الحسین (ع) کے چاہنے والے ہندوستان سے عراق کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ ہندوستان کے شیعہ زائرین اربعین واک میں پیدل چلنے والوں کو مختلف خدمات بھی فراہم کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کربلا کی سرزمین سے جتنا فاصلہ زیادہ ہوگا، امام حسین (ع) سے محبت، پیار اور عشق بھی اتنا زیادہ ہوگا۔

اگرچہ ہندوستان کے شیعوں کو اربعین واک میں شرکت کے لیے اجازت دی جاتی ہے لیکن مشکلات کم نہیں ہیں۔ بہرحال کہا جا رہا ہے کہ  ہندوستان اور عراق کے درمیان حالیہ معاہدوں سے شیعوں کی زیادہ آبادی کو کربلا اور نجف کے شہروں میں جانے اور اس عمل کو آسان بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہندوستانی شیعہ رہنماؤں نے بارہا حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں عراقی حکام سے مشاورت کرے اور ملک کے شیعوں کو مزارات پر بھیجنے کے لیے سہولیات فراہم کرے۔ ایسا لگتا ہے کہ حالیہ معاہدوں کے ساتھ اس سلسلے میں کچھ آسانیاں میسر ہونگی۔ اگر ہندوستانی شیعوں کو عراق بھیجنے کی اجازت مل جاتی ہے تو ان کی کثیر آبادی کی وجہ سے اربعین واک پہلے سے زیادہ شاندار طریقے سے منعقد کی جائے گی۔
 
اگرچہ ہندوستان کے شیعہ مسلمان اسلامی سرزمین سے ہزاروں کلومیٹر دور اور ایک غیر مسلم ملک میں رہتے ہیں، لیکن انہوں نے دنیا کے دوسرے شیعوں کے ساتھ اپنی مذہبی وابستگی برقرار رکھی ہوئی ہے اور جب بھی دوسرے ممالک کے شیعوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور اس کی ایک مثال یمن کی جنگ کے بارے میں ہندوستانی شیعوں کا رویہ ہے۔ اس سلسلے میں اپریل 2014ء میں یعنی سعودی اتحاد کے یمن پر حملے کے ایک ہفتے بعد ہزاروں ہندوستانی شیعوں نے یمن کے مظلوم عوام کی حمایت میں ایک مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے میں ہندوستانی شیعوں نے یمن پر ریاض کے فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے نعرے لگائے اور یمن پر سعودی عرب کے خونریز حملوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

ہندوستان کے شیعہ مسلمان ہمیشہ عالمی یوم قدس کے مظاہروں میں میں شرکت  کرکے دنیا کے دیگر مسلمانوں کے ساتھ مل کر فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت اور صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کرتے ہیں اور یہ اس حقیقت کے باوجود کہ ہندوستان کی دائیں بازو کی حکومت صیہونیوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتی ہے۔ ایک اور مثال 2018ء میں جب نائیجیریا کے شیعہ رہنماء شیخ ابراہیم زکزاکی نائیجیریا کی حکومت کی نگرانی میں علاج کے لیے ہندوستان گئے تو ہندوستان میں شیعہ مسلمانوں کے ایک گروپ انجمن حیدری نے شیخ زکزاکی کے تمام طبی اخراجات ادا کرنے کی پیشکش کی۔ ان اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانی شیعہ عالم اسلام میں مزاحمتی اثر و رسوخ کو مزید فروغ دینے کا ایک مناسب پلیٹ فارم ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1049067
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش