0
Thursday 14 Mar 2024 15:00

مذہبی انتہاء پسندی اور ہمارا ہیرو

مذہبی انتہاء پسندی اور ہمارا ہیرو
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com

وہ گلگت بلتستان کے دور افتادہ علاقے اور ہمالیہ و قراقرم کے بلند پہاڑی سلسلے میں دریائے سندھ کے کنارے آباد لائن آف کنٹرول کے قریب ضلع کھرمنگ کے پسماندہ گاؤں مادھو پور (جو اب ضلعی ہیڈکوارٹر بن چکا ہے) میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین نے اسے ہائی سکول کی تعلیم مکمل کروا کر دینی تعلیم کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ ایک بڑا عالم بن کر معاشرے اور اپنی قوم و ملت کی خدمت کرسکے۔ پھر اس نے مکمل توجہ اور شوق سے دینی تعلیم کے حصول کا سلسلہ شروع کر دیا اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے سبب اپنے ہم عصر طلباء میں ممتاز حیثیت حاصل کرتا گیا۔ اسکردو، لاہور اور اسلام آباد کے نامور دینی مدارس سے اعلیٰ دینی تعلیم مکمل کی۔ مدرسے کی روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف یونیورسٹیوں سے اپنی عصری تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اسلام آباد میں موجود و متحرک اعلیٰ دینی تعلیم کی علامت جس ادارے میں وہ زیر تعلیم تھا، اس نے فیصلہ کیا کہ دینی علوم حاصل کرنے والے طلباء کو عصری علوم سے آراستہ کرنے کے لیے طلباء کو اسلام آباد کی بڑی یونیورسٹیوں میں داخلہ دلوایا جائے گا۔ اسی فیصلے کے تحت یہ طالب علم بھی یونیورسٹی کا مسافر ہوا۔ یہی وہ مرحلہ تھا، جب اس کی زندگی میں تبدیلی کا آغاز ہوا۔

ایک ہی وقت میں اعلیٰ دینی علوم اور اعلیٰ دنیاوی علوم کے حصول کا سفر یقیناً زندگی میں بدلاؤ لانے کا ذریعہ بنا۔ اس دوران اس کی ملاقاتیں جہاں مختلف عقائد و نظریات کے حامل لوگوں کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب حتیٰ کہ لادین اور بے مذہب طبقات سے تعلق رکھنے والے جوانوں اور اساتذہ سے ہونا شروع ہوگئیں۔ اپنے مسلک و مذہب اور نظریات کے علاوہ دنیا کو مختلف تناظرات سے دیکھنے کا آغاز ہوا، جس سے جدید علوم کے حصول اور جدید نظریات سے آگاہی کا سفر بھی شروع ہوگیا۔ جوں جوں سفر بڑھتا گیا، ویسے ہی آگہی میں اضافہ ہوتا گیا اور معلوم ہوا کہ دنیا میں ہمارے علاوہ دوسرے لوگ بھی رہتے ہیں۔ ہماری فکر کے علاوہ دیگر افکار بھی موجود ہیں۔ ہمارے نظریئے کے علاوہ متعدد نظریات بھی قائم ہیں۔ ہماری اقدار کے علاوہ دیگر اقدار بھی موثر ہیں۔ لہذا اس آگہی کے سبب اس جوان نے فیصلہ کیا کہ دنیا کو نئی علمی عینک اور جدید نظر سے دیکھنا چاہیئے، تاکہ اس کائنات کی وجودی کیفیت کے ساتھ معنوی کیفیات کا احساس و ادراک حاصل کیا جا سکے۔

ابھی اس جوان کا تعلیمی سفر جاری ہی تھا کہ اس کا واسطہ ایک ایسے غیر سرکاری ادارے سے ہوا، جو پاکستان میں مذہبی و مسلکی ہم آہنگی اور صبر و برداشت و تحمل و رواداری کے فروغ کے لیے خدمات انجام دے رہا تھا۔ فرقہ وارانہ قتل و غارت اور مذہبی دہشت گردی اپنے عروج پر تھی۔ ایسی صورت حال میں اس نے دیکھا کہ پاکستان میں روایتی مذہبی خدمات تو جاری ہیں۔ اسی طرح دنیاوی علوم میں بھی روایتی انداز سے درس و تدریس اور خدمت ہو رہی ہے، مگر جن میدانوں میں حقیقی معنوں میں خدمت کی ضرورت ہے، وہاں میدان تقریباً خالی نظر آتے ہیں۔ اس لیے اس جوان نے فیصلہ کیا کہ ادارہ امن و تعلیم کے ساتھ شانے سے شانہ ملایا جائے، تاکہ پاکستانی معاشرے سے نفرت، تعصب اور انتہاء پسندی کا خاتمہ کیا جا سکے۔

مذہبی طبقے کے روایتی خود ساختہ نظریات کے ساتھ بعض اوقات محض زبانی اختلاف ہی کسی بڑی مصیبت کو گلے لگانے کے مترادف ہے، چہ جائیکہ اس اختلاف کا اظہار زبانی سے زیادہ عملی طور پر کیا جائے۔ اس جوان نے شعوری طور پر یہ مصیبت گلے لگانے کا تلخ فیصلہ کیا اور پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اور مذہبی انتہاء پسندی کے سامنے بند باندھنے کے لیے اپنی توان و استعداد کے مطابق کمر کس لی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ تحمل اور برداشت کا سبق دینی مدارس کے طلباء اور اساتذہ سے شروع کیا جائے، تبھی تو اس نے اپنا پہلا اور کلیدی میدان مختلف مسالک کے دینی مدارس سے وابستہ طلباء اور اساتذہ کو قرار دیا۔

مذہبی مدارس کے طلباء اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ اس نے مذہبی تنظیموں کے کارکنان اور عہدیداران و قائدین کو بھی اپنے فوکس میں رکھا، جن پر عام طور سے امن و امان کے قیام و عدم قیام کی ذمہ داری رہتی ہے۔ جن پر مذہبی حالات خراب اور بہتر کرنے کی ذمہ داری عائد رہتی ہے۔ جن پر مسلکی رواداری و برداشت کی تعمیر و تخریب کرنے کا تاثر موجود رہتا ہے۔ جن پر شدت پسندی اور انتہاء پسندی کا الزام بھی رہتا ہے۔ ان تمام طبقات کے ساتھ محض بات کرنا ہی بڑے حوصلے اور ہمت کی بات ہے، چہ جائیکہ ان طبقات کی تربیت کرکے قائل کیا جائے کہ وہ معاشرے کو درست ڈگر پر ڈالنے کے لیے اپنی محدودیت کی قربانی اور اپنے خول سے باہر نکلنے کا حوصلہ پیدا کریں۔

اس جوان نے ان تمام چیلنجز کے باوجود حوصلہ نہیں ہارا بلکہ بڑی وسعت قلبی کے ساتھ میدان میں وارد رہا اور دینی مدارس کے طلباء و اساتذہ، مذہبی تنظیموں کے عہدیداران و کارکنان اور آئمہ مساجد کی تربیت و تعلیم کی خدمت جاری رکھی۔ انتہاء پسندی کے سلگتے مسئلے سے علمی اور دینی بنیادوں پر نمٹنے کے لیے جب ادارہ امن و تعلیم نے ”تعلیم، امن اور اسلام“ کے نام سے کتاب تیار کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ جوان اس منصوبے کو لیڈ کر رہا تھا۔ ملک کے نامور علماء اور مدارس کے قائدین نے مختلف ماہرین کی مشاورت سے لکھی اس کی کتاب ”تعلیم، امن اور اسلام “ پر اپنی توثیقات اور تعریفات لکھیں اور اسے مدارس کے نصاب میں شامل کرکے پڑھانا شروع کر دیا۔ نصابیات کے ایک ماہر تعلیم کے طور پر اس نے اس کتاب کی ٹیچر گائیڈ اور تربیت ِ اساتذہ کا تربیتی مواد تیار کیا۔ ادارے نے مدارس اور مراکز کے اندر  ”تعلیم امن“  کے لیے جاری ان تربیتی پروگراموں کا سلسلہ اسی نوجوان کے ذریعے پورے پاکستان میں پھیلایا۔ یہ جوان اب شہر شہر قریہ قریہ ہر مسلک سے وابستہ مدارس و مراکز میں امن و رواداری کا پیغام لے کر سفر کرنے لگا۔

پاکستانی معاشرے میں اس حقیقت سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ مذہبی مسالک کے اندر موجود تفریق یا نفرت تو باہم موجود ہے، مگر ان مسالک میں ایک خاص مسلک سے وابستہ ہر طرح کے لوگ بڑے پیمانے پر دہشت گردوں کے نشانے پر رہے ہیں اور اس مسلک کے خلاف غلط فہمیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، جو صدیوں سے جاری ہے، جس کا اثر بلاشبہ پاکستان کے مذہبی ماحول میں بھی موجود ہے۔ جب دیگر مسالک سے وابستہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص اُسی مذکورہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے تو پھر نفرت کی شدت آسمان چھو رہی ہوتی ہے۔ اسی شدت کا شکار یہ خدمت گار جوان اور بے ضرر انسان بھی رہا ہے۔

مذہبی تنظیموں اور مذہبی اداروں میں موجود شدت پسند اور انتہاء پرست طبقے نے جب دیکھا کہ جوان اپنے ادارے یعنی ادارہ امن و تعلیم کے ذریعے تحمل و برداشت اور اعتدال پسندی کو رواج دے رہا۔ مسالک کے خلاف پروپیگنڈے کا شکار عام شہری اور سادہ لوح مسلمان اب اس پروپیگنڈے کے حقائق جاننے لگ پڑے ہیں۔ معاشرے میں نام نہاد مذہبی دکانوں سے نفرت اور شدت کا چلنے والا کاروبار ٹھپ ہونے لگا ہے۔ باہمی غلط فہمیاں ختم ہو کر باہمی محبتوں اور رابطوں میں تبدیل ہو رہی ہیں اور نفرت کی بیوپاریوں کے دھندے متاثر ہو رہے ہیں۔ باہمی تفہیم اور تعلق بڑھنے سے گراؤنڈ پر دہشت گرد تنظیموں کی سپورٹ کمزور ہوتی جا رہی ہے تو اس شدت پسند اور انتہاء پرست طبقے نے اپنی گھناؤنی کارروائیوں کا آغاز کر دیا۔

امن و رواداری کے بڑھتے رجحان کو دیکھ کر ادارے کے خلاف ایک گھناؤنا کھیل شروع کیا گیا، جس کا براہ راست نشانہ بھی وہی جوان بنا، جو میدان میں سرگرم عمل تھا۔ شدت پسند اور انتہاء پرست طبقے نے اس جوان کا گھیراؤ کیا۔ اسے مذہبی بحثوں میں الجھا کر یا کسی طرح سے اس کی کوئی بات پکڑ کر اسے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی۔ بیرونی ایجنٹ کا روایتی الزام لگا کر اسلام سے غداری کرنے کے الزامات عائد کئے۔ حسب روایت اس جوان پر بھی باہر سے مالی تعاون لے کر پاکستان میں اسلامی طبقے کو بدنام کرنے کا الزام لگتا رہا۔ حالانکہ امن و ہم آہنگی کے کام سے تو اسی طبقے کی نیک نامی ہو رہی تھی۔ شدت پسندوں کو یہ غصہ بھی تھا کہ یہ جوان نصابِ تعلیم میں موجود متنازعہ اور تفریق پیدا کرنے والے مواد کی نشاندہی کرکے اسے نکالنے کے لیے کیوں سرگرم ہے۔ انتہا پسندوں نے اس جوان کے گرد پروپیگنڈے اور نفرت کا دائرہ اتنا وسیع کر دیا کہ اسے قتل تک کی دھمکیاں ملتی رہیں اور پاکستان میں شہریوں کے حفاظت کے ذمہ دار اعلیٰ اداروں نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ شدت پسند طبقات اس جوان کے گرد گھیرا بہت زیادہ تنگ کرچکے ہیں اور کسی وقت بھی کوئی بری خبر آسکتی ہے۔

جب نوبت بہ ایں جا رسید تو ہمدردوں اور بہی خواہوں کی مشاورت اور زندگی کے تحفظ کا فریضہ نبھانے کے لیے اس جوان کو اپنے خاندان اور بیوی بچوں سے جدا ہو کر کچھ عرصہ روپوش رہنے اور صورت حال کے بہتر نہ ہونے پر پاکستان چھوڑ کر دیارِ غیر میں جلاوطنی کی زندگی اختیار کرنا پڑی۔ صاحبان اولاد جانتے ہیں کہ ساری اولاد جب دس سال سے کم ہو، بالخصوص چھ ماہ کی بیٹی کو چھوڑ کر وطن سے دور جانا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔ والدین کا دنیا سے چلا جانا اور ہے اور دنیا میں موجود رہ کر اولاد سے دور رہنا بالخصوص شدت پسند طبقے کا ہدف بن کر وطن اور خاندان سے دور رہنا اور ہے۔ بہرحال اس جوان نے پردیس اختیار کرنے کا سخت اور کٹھن فیصلہ قبول کیا۔ مسلسل ساڑھے پانچ سال خوف اور اذیت کی زندگی گزارنا کسی طرح آسان نہیں ہوتا۔ جب انسان کو معلوم ہو کہ مجھے یا میرے خاندان پر کسی بھی لمحے کوئی آفت آسکتی ہے، تب ایک ایک لمحہ موت کا حامل نظر آتا ہے۔

یہ جوان بھی پاکستانی روایتی معاشرتی انداز کی زد میں رہا۔ نہ صرف دیگر مسالک یا مکاتب فکر کے انتہاء پسند اس جوان کے مخالف رہے بلکہ اس کے ہم مسلک اور ہم مکتب لوگ بھی اس جوان پر معترض رہے کہ وہ اپنے مسلک کی تعلیمات اور اساسی عقائد سے منحرف ہوچکا ہے۔ اس پر لادینیت اور مذہب مخالف نظریات کا غلبہ ہوچکا ہے۔ بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے کی باتیں بھی ہوتی رہیں۔ کبھی اختلاف اور کبھی نفرت کا اظہار بھی کیا گیا۔ کچھ اس جوان کا نقص اور کمزوری بھی ہے کہ اس نے اپنے راستے کے بارے میں وضاحت نہیں کی، اس نے اپنے افکار کا واضح طور پر اظہار نہیں کیا۔ اس نے اپنے ظاہری اعمال کی کبھی قانع توضیح یا تشریح نہیں کی۔ یہی سبب ہے کہ اس جوان سے اختلاف رکھنے والے اکثر لوگ مطمئن نہیں ہیں، سوائے ان چند لوگوں کے جو انتہائی قریب ہیں۔ اس جوان نے بعض اوقات اپنے انداز اور اطوار سے اس منفی تاثر کو تقویت بخشی ہے کہ وہ اپنے راستے سے انحراف کرچکا ہے۔ بہرحال یہ جوان بھی  ”اپنے بھی خفاء مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش“ کا مصداق رہا ہے اور اب تک ہے۔

بشری اور انسانی تقاضوں کے مطابق یہ جوان بھی خوف میں مبتلا رہا۔ اذیتیں بھی اس جوان پر حاوی رہیں۔ موت کا خوف بھی اس جوان پر سوار رہا۔ گھر والوں کی جدائی کا صدمہ بھی اس جوان کے دامن گیر رہا۔ بالخصوص کرونا جیسے کرب ناک ماحول میں وطن سے دور تنہاء زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے گرد و نواح میں موت کا رقص دیکھ کر یہ جوان بھی لمحہ لمحہ جیتا مرتا رہا۔ الغرض اذیت اور پریشانی کا ہر ہر انداز اور پہلو اس جوان پر بھی اثر انداز ہوتا رہا۔ شدت پسندوں اور انتہاء پرستوں کی دھمکیاں اور نفرتیں بھی اس جوان کی ذہن پر متمکن رہیں۔ پھر اس جوان کے ذہن اور دل میں انقلابی کیفیات جنم لینے لگیں اور اس نے سوچا کہ شدت پسندوں کا خوف آخر کب تک؟ انتہاء پسندوں کے آگے سرتسلیم خم کرنا آخر کیوں؟ فرقہ پرستوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا آخر کیا جواز؟؟

یہ سوچ کر اس نے ذہن کو جھٹکا، حوصلہ بلند کیا، خوف کی چادر اتار پھینکی،  نیا عزم پیدا کیا اور طے کیا کہ اب جس خدمت کو پاکستان میں ادھورا چھوڑا تھا، وہی خدمت اب دیار ِغیر میں کیوں نہ شروع کی جائے۔ یہ عزم لے کر یہ جوان امن و رواداری کے رواج کے میدان میں کود گیا۔ ایک یونیورسٹی نہیں بلکہ کئی یونیورسٹیوں میں مختلف مذاہب کے طلباء کے سامنے اعتدال اور تحمل کے افکار رکھے۔ کئی سیمیناروں میں مذاہب کے درمیان موجود غلط فہمیوں کے تذکرے کے ساتھ درمیانی راستوں کی نشاندہی کی۔ کئی آن لائن مذاکروں میں اسلام اور معتدل اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی۔ کئی محافل میں اسلام مخالف اور مذہب مخالف قوتوں کے سامنے اسلام اور مذہب کی حقیقی تعلیمات کو بیان کیا اور ان کا دفاع کیا۔ ملائشیا اور عراق سے لے کر امریکہ تک کئی ممالک میں محبت اور اعتدال کے پیغام کی پیام رسانی کی۔

روایت پسندی کو چیلنج کرنا، کٹھ نظریات کے سامنے جدید نظریات پیش کرنا،  نفرت اور تعصب کے سامنے محبت اور رواداری کا پیغام رکھنا، مذہبی اساتذہ اور طلباء کو باہمی غلط فہمیوں سے نکال کر دوسرے مسالک کو قابل قبول بنانا، کفر کے فتووں سے نکال کر اسلام کے وسیع دائرے سے روشناس کرنا، دوسرے مذاہب کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو بیان کرکے ان کو رفع کرنا، آسمانی مذاہب اور زمینی مذاہب کے پیروکاروں کی مشترکہ محافل منعقد کرنا اور اسی طرح کے دیگر اقدامات موجود معاشرتی صورتحال میں نہ صرف مشکل بلکہ جان لیوا ہیں۔ جان لیوا کام کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا، جو یہ کام کر جاتا ہے، وہ امر ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد حسین بھی امر ہونے والے انہی خواص میں شامل ہے، جس نے اپنی زندگی درج بالا پیغامات کی ترسیل اور ابلاغ کے لیے وقف کی ہوئی ہے، ہر لمحہ خوف کے باوجود انتہاء پسندی اور شدت پرستی کا مقابلہ ہی امر ہونے کا سب سے اچھا راستہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 1122549
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش