1
Friday 15 Mar 2024 12:17

یالیتنا، ایک جائزہ

یالیتنا، ایک جائزہ
تحریر: سید نثار علی ترمذی

یہ ثاقب اکبر مرحوم کی شاعری کا پہلا مجموعہ ہے۔ اس کا دیباچہ مشہور شاعر و ادیب مشکور حسین یاد مرحوم نے لکھا ہے، جو خاصے کی چیز ہے۔ یہ مجموعہ ایک مرتبہ ہی طبع ہوا ہے۔ اس کا سن اشاعت دسمبر 1985ء ہے، جسے مکتبہ الرضا، لاہور نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کا انتساب باقر الصدر شہید کے نام کیا، جنہیں صدام حکومت نے 9 اپریل 1980ء کو عراق میں ان کی ہمشیرہ آمنہ بنت الھدیٰ کے ہمراہ شہید کر دیا گیا تھا۔ مصنف اس کتاب کے بارے میں "پہلی بات" میں تحریر فرماتے ہیں کہ "یالیتنا کو میں ایک فن پارے کی حیثیت سے نہیں بلکہ فکر و نظر اور جذب و احساس کے مظہر کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ یالیتنا میری آج تک کی شعری تخلیقات کا ایک مختصر انتخاب ہے۔" یالیتنا عربی زبان کا لفظ ہے، جو قرآن مجید میں آیا ہے اور شہداء کربلا کی زیارت میں بھی استعمال ہوا ہے، معنی ہیں کاش۔

اس کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ کاش میں بھی کربلا میں ہوتا اور جو سعادت شہداء کربلا نے حاصل کی، وہ میں حاصل کر لیتا۔ اسی لیے شاعر نے کتاب کے آغاز میں "پہلی بات" کے عنوان سے جو نثر لکھی ہے، اس میں واضح کرتے ہیں کہ "کربلا اس کی بیشتر نظموں کا مرکز فکر ہے۔ کربلا میری نظر میں معرکہ حق و باطل کی ایک تاریخی حقیقت بھی ہے اور راہ حق میں جہد مسلسل کا ایک سمبل بھی۔ کرپلا پیام حرکت و انقلاب ہے، لیکن ہمارے لٹریچر اور منبر نے زیادہ تر اسے فقط ایک داسان حزن بنا کر پیش کیا ہے۔ حسین ہر دور کی حق پرست  قوتوں کا قائد ہے اور یزید ہر زمانے کی باطل قوتوں کا رہنماء ہے۔ حسین حق پرستی اور یزید باطل پرسی کی علامت ہے۔ حسین کو یزید کے خلاف آج بھی مدد کی ضرورت ہے۔ آج کے حق پرستوں اور مظلوموں کی نصرت دراصل امام حسین کی نصرت ہے۔"

یالیتنا میں کربلا کو فوقیت حاصل ہے اور راہ کربلا پر چلنے والوں کا تذکرہ ہے۔ ملک میں ہونے والے واقعات پر اظہار خیال بھی ہے۔ غرضیکہ یہ اس دور تاریخ کی منظوم داستان بھی ہے۔ اس میں امام خمینی (رح) کو ان کی زندگی میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے بلکہ یہ اُردو زبان میں پہلا منظوم نذرانہ عقیدت ہے، جو امام خمینی (رح) کے لیے تخلیق کیا گیا۔ مصنف امام خمینی (رح) کے بارے میں یوں رطب اللسان ہیں: "اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں امام خمینی بے نظیر شخصیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے اس اسلام کے بارے میں مشرق و مغرب کے افکار کا رخ موڑ دیا ہے اور اسلام کو ایک زندہ اور قوی ترین حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے۔ لا الہ الا اللہ کے بھولے ہوئے مفہوم کو انہوں نے تازگی عطا کی ہے۔ اسلام کے بارے میں میرا اعتماد امام خمینی کے نورانی وجود کی ایک کرن ہے۔ یالیتنا کی بیشتر نظموں میں اسی وجود مقدس کے بخشے ہوئے جذبے جھلک رہے ہیں۔"

ثاقب نقوی جو بعد میں ثاقب اکبر کے قلمی نام سے مشہور ہوئے، ان کے بارے میں سید مشکور حسین یاد دیباچہ میں یوں قلم طراز ہیں: "ثاقب نقوی کے بارے میں آپ نہایت آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی طور پر ایک انجینیئر ہے، لیکن جب اس کے دوسرے مشاغل پر نگاہ ڈالیں گے تو آپ کو اپنا پہلا بیان واپس لینا پڑے گا، کیوںکہ ثاقب کی شخصیت کا بغور مطالعہ آپ کو اس کی دوسری حیثیتوں کی آگاہی بھی بخشے گا، جس کے نتیجے میں آپ کہہ اٹھیں گے کہ ثاقب انجینیئر نہیں، یہ تو ایک سیاست دان بھی ہے۔ نہیں نہیں سیاستدان ہی نہیں، یہ ایک اعلیٰ درجے کا منتظم بھی ہے۔ جس وقت آپ اس کی صحافتی سرگرمیوں پر توجہ فرمائیں گے تو آپ پکار اٹھیں گے کہ نہیں صاحب یہ نوجوان تو اس سلیقہ مند مدیر بھی ہے، ایک تیز نگاہ نامہ نگار بھی ہے اور اگر آپ اس کے سپرد تالیف کا کوئی کام کر دیں تو اپ کو پتہ چلے گا کہ یہ ایک اچھا مؤلف بھی ہے، مرتب بھی ہے اور اگر آپ اسے کسی محاذ پر سینہ سپر ہونے کے لیے کہہ دیں گے تو اسے سینہ سپر ہونا بھی خوب آتا ہے۔ غرض ثاقب نقوی آپ کو کسی میدان میں بھی پیچھے نظر نہیں آئے گا۔ یہ نوجوان اپنے دھن کا پکا ہے۔ دیکھ لیجیے، اب تک آئی ایس او کا پریذیڈنٹ کوئی دوسرا دوبارہ نہیں بنا، تاحال یہ شرف ثاقب ہی کو حاصل ہے۔" نوٹ: یہ 1985ء کی بات ہے۔ 1986ء سید امتیاز علی رضوی دوبارہ صدر منتخب ہوئے اور یوں یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

اس کتاب میں پہلی آزاد نظم، آج شبیر کو کیسے آواز دوں؟ کے عنوان سے شامل ہے۔ اسی نظم میں شاعر نے یالیتنا کا لفظ تکرار سے ذکر کیا ہے، جو کتاب کا سفرنامہ بھی ہے۔ یہ پوری نظم یالیتنا کے پس منظر میں لکھی گئی ہے کہ ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم کربلا میں ہوتے اور شہداء کربلا کے ساتھ مل کر یزیدی لشکر کے خلاف داد شجاعت دیتے، مگر آج بھی کربلا بپا ہے، مگر ہم دلی تمنا کے باوجود مظلوموں اور محروموں کے حق میں اور جنائت کاروں کے خلاف کچھ نہیں کر پا رہے تو ہم کس منہ سے امام حسین علیہ السلام کو پکار کر دعوے سے کہہ رہے ہیں کہ کاش ہم کربلا میں ہوتے تو آپ کے لشکر میں ہم رکاب ہوتے۔ اسی تناظر میں ایک اور نظم "ہم زمانے کو بدلیں گے" ہے۔ بقول شاعر یہ دونوں نظمیں کربلا کے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہانی بیان کرتی ہیں۔ جبکہ "یہ کربلا آج کی فقط داستاں نہیں ہے" اور اس طرح کی دوسری نظمیں ہر دور میں کربلا کے تسلسل کو واقعاتی حوالے سے پیش کرتی ہیں۔

ایک نظم جو ترتیب کے لحاظ سے دوسری نظم کا عنوان ہے "نجف کی یادیں۔" جب یہ نظم لکھی گئی تھی، اس وقت تک شاعر نجف اشرف کی زیارت نہیں کرسکا تھا۔ وہ صرف نجف پلٹ شخصیات سے مل کر ہی دلی سکون حاصل کرتا تھا، مگر اب یہ موقع بھی میسر نہیں ہے، کیونکہ وہاں کی حکومت کے جبر و تشدد کی وجہ طلاب اور زائرین نجف اشرف کا رخ نہیں کر پاتے۔ اس خسارے کو شاعر نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ یہ دراصل عراق کے اس دور حکومت اور علمی و روحانی مقامات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک نظم جو فیلسوف مشرق آیت اللہ سید محمد باقر الصدر (رح) کی ہمشیرہ آمنہ بنت الھدیٰ کی عربی نظم "میں اپنے راستے سے کبھی نہیں لوٹوں گی" کا آزاد ترجمہ ہے۔ یہ شاعر کی شہداء عراق کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا انداز ہے، جس کا اظہار بعد میں تخلیق کی گئی شاعری میں بھی جھلکتا ہے۔

نامہ سیاہ بھی آزاد نظم ہے، جس کے بارے شاعر نے خود وضاحت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ نظم 1982ء میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے موقع اسرائیلی مظالم، تنظیم آزادی فلسطین کے کردار، مسلمانوں حکمرانوں کے رویئے اور دیگر حالات سے متاثر ہو کر کہی گئی ہے۔ ایک آزاد نظم عید کے منظر کے عنوان سے ہے۔ شاعر کیونکہ اسی معاشرے کا حصہ ہے اور وہ معاشرتی سرگرمیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اس نظم تین مناظر کو نظم کیا گیا ہے۔ شاعر نے اس کا پس منظر ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ 1982ء عید الفطر کے موقع کی نظم مسلمانوں کے عالمی حالات سے متاثر ہو کر کہی گئی ہے۔ شاعر رہتا پاکستان میں ہے، مگر اس کا دل عالم اسلام کے ساتھ دھڑکتا ہے۔

اب متواتر تین نظمیں ہیں، جن میں قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید روح اللہ خمینی (رح) کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے اور ان سے اظہار محبت کیا گیا ہے۔ پہلی نظم "اے میرے قائد" کے عنوان سے ہے۔ جسے یہ تاریخی اعزاز حاصل ہے کہ یہ اُردو زبان میں سب سے پہلی نظم ہے، جو امام خمینی (رح) کی شان میں تخلیق کی گئی اور شائع ہوئی۔ اس کے بارے میں شاعر نے جو وضاحت دی ہے، وہ کچھ یوں ہے: "رہبر عالم اسلام امام خمینی کی خدمت میں اردو زبان میں پہلا خراج عقیدت، جب امام خمینی پیرس میں تھے۔" اس نظم کا پہلا شعر یہ ہے:-
حسنیت کے علم دار! اے میرے قائد!
تیرے وجود سے لرزا ہے سب یزیدوں پر


اس کے بعد کی نظم "سپاہ حسینی کا پیشوا" کے عنوان سے ہے۔ یہ مسدس نظم ہے۔ ایک مسدس کا ایک شعر یہاں درج کیا جاتا ہے:-
ہے جس کے سر پر آج عمامہ رسول کا
وہ نائب امام ہے بیٹا رسول بتول کا

تیسری نظم "زندہ رہے خمینی" کے عنوان سے باندھی ہے۔ یہ دعا بھی ہے اور ترانہ بھی۔ اس کا ایک مصرع نعرے میں بدل گیا تھا "تا انقلاب مہدی زندہ رہے خمینی" اس نظم کے ورود مسعود کے بارے میں آپ کے دیرینہ ساتھی جمال اصغر آف کراچی یوں بیان کرتے ہیں: "ایک دفعہ اپنی پرنٹنگ پریس (چھاپہ خانہ) واقع اچھرہ تشریف لائے تو لبوں پر ایک تازہ نظم ’’گہرائیوں سے دل کی کہتا ہے ہر حسینی‘‘ کی تکرار تھی۔ مجھے بھی حکم صادر ہوا کہ میں بھی ساتھ پڑھوں۔ میں نے نظم سیدھی سیدھی پڑھنا شروع کر دی تو ٹوکا۔ بھئی کوئی سُر سے، کوئی لے سے یعنی ایک مرتبہ تا انقلاب مہدی مسلسل ہوگا اور دوسری مرتبہ بھی دہرانا ہے مگر توڑ توڑ کر۔ یعنی تا۔ انقلاب مہدی زندہ رہے خمینیؒ۔ اور ہاں۔ تا۔ انقلاب۔ مہدی پر گردن کو ہلکا سا جھٹکے میں دینا ہے۔ پھر کیا تھا سب نے ان کے ساتھ جھوم جھوم کر اشعار دھرانا شروع کر دیئے اور ایک پرکیف سماں بندھ گیا۔ سب احباب خود لطف اندوز ہوئے اور آخر میں ثاقب بھائی کا مخصوص قہقہ۔۔۔۔"

ان نظموں سے آپ کی جو عقیدت حضرت امام خمینی (رح) کے حوالے سے جھلکتی ہے، اسی سے اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے کہ شاعر نے کس قدر امام خمینی (رح) کی تعلیمات کو دل کی گہرائیوں سے پڑھا ہو گا اور پوری زندگی اس کے حوالے سے جدوجہد کرتے گزاری ہوگی۔ ایک نظم "14 اپریل 1982ء کی یاد میں" تحریر کی گئی ہے۔ اس پر شاعر نے یوں وضاحت دی ہے کہ "یہ نظم 14 اپریل 1986ء کو اسلام پورہ لاہور میں ہونے والے ایک تاریخی واقعے کی یاد میں کہی گئی۔ راقم اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہے۔ اس واقعہ نے تشیع کی تنظیمی تاریخ پر انمٹ اثرات چھوڑے ہیں۔ لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی۔

ایک نظم "ایک بہن کے لیے" منظوم کی ہے۔ یہ نظم فیلسوف مشرق آیت اللہ سید باقر الصدر شہید کی ہمشیرہ آمنہ بنت الھدیٰ کے کردار سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی بہنیں سب کو عطا کرے، آمین ثم آمین۔ ایک اور نظم ہے، جو کربلا کو موضوع بنا کر لکھی گئی ہے۔ شاعر اس میں آج کی کربلا کے پیرو کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے
"ہے ایک سید
وہ ایک سید
جو ساری دنیا کا رازداں ہے
بہت دلوں میں قیام اس کا
ہے کتنے ہونٹوں پہ نام اس کا
وہ جس نے اک ولولہ دیا ہے
جس کے ایماں نے ساری دنیا کے اہل ایمان کو نیا حوصلہ دیا ہے
وہ جس کے بازو بڑے قوی ہیں
وہ جس کے ہاتھوں میں وہ قلم ہے کہ جس کی ہیبت سے
ساری دنیا لرز رہی ہے
وہ جس کے نعرہ لا الہ سے- صنم کدوں میں بپا ہے طوفاں
اٹھا ہے حق کا قلم اٹھائے  - وہ گزار خلیل یزداں
"

یہ فیلسوف مشرق سید باقر الصدر شہید کی لفظوں میں تصویر کشی کی ہے، ان کی شخصیت اور ان کے کردار کو لفظوں میں بیان کیا ہے۔ شاعر نے اس عظیم شخصیت کے آخری لمحے بھی کاغذ پر اتارے ہیں۔ "تھی ایک زنداں میں لاش اس کی دوسرے میں بہن کی میت پڑی ہوئی تھی، کسی نے دیکھی جو لاش اس کی تو ریش تک بھی جلی ہوئی تھی
بس اس کی آنکھوں سے ایک عبارت
 پڑھی گئی ہے
"یہ کربلا اج کی فقط دستاں نہیں ہے
"

شاعر کیونکہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے سال 1978ء اور 1979ء متواتر دو مرتبہ مرکزی صدر رہے ہیں۔ آپ کی اس تنظیم سے محبت ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ آپ زندگی کے آخری دم تک کم و پیش آئی ایس او سے وابستہ رہے۔ یہ نظم "حی علی خیر العمل" کے عنوان سے مسدس کی صورت میں تخلیق کی ہے۔ اس میں نوجوانوں کو اپنی میراث سنبھالنے اور عزم و ہمت کے ساتھ آگے بڑھنے کی تلقین کی گئی۔ یہ نظم آج بھی ایک زندہ پیغام کی صورت میں اپنے مخاطبین سے محو کلام ہے۔ اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نظم آئی ایس او کے مجلہ "راہ عمل" جس کا آئیڈیا بھی موصوف نے پیش کیا تھا، اس کے بیک ٹائٹل پر شائع ہوچکی ہے۔ اس کی ایک مسدس نظر قارئین کی جاتی ہے۔
تو جہاں کو علوی مزاج دے
 دل بوزری کو رواج دے
 ہے تقاضا آج ہی آج دے
کہیں ہاتھ کھینچ نہ لے وقت کل
 حی علی خیر العمل
 حی علی خیر عمل


ایک نظم "سات سال کا بچہ ہے" کے نام سے ہے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے سات سال مکمل ہونے پر لکھی گئی ہے۔ یہ 4 جولائی 1984ء کو پاکستان میں مارشل لاء حکومت کے سات سال ہونے پر تحریر کی ہے۔ اس میں بچہ کا استعارہ استعمال کرکے اچھی تنقید کی ہے۔ سلام کے سات اشعار ہیں، جس ایک شعر
عظیم فتح مبارک حسین ابن علی
دلوں پہ نقش ہوئیں حکمرانیاں تیری

"یہ علمدار! ترا عزم وفا باقی ہے" کے عنوان سے درج نظم جس کا شان نزول بھی بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں "وہ یہ ہے" آیت اللہ عظمیٰ سید محسن الحکیم اعلیٰ اللہ مقامہ کے تین بیٹوں اور تین پوتوں کو 20 مئی 1983ء کو عراق کی بعث پارٹی کی صدام حکومت نے قید خانے میں شہید کر دیا، بعد 5 مارچ 1995ء کو آل حکیم کی مزید 10 افراد شہید کر دیئے گئے۔ اس نظم میں ان شہداء کے حوالے سے امام خمینی (رح) کو مخاطب کیا گیا ہے۔

دو نظمیں فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور زہراء کا گھرانہ کے عنوان سے ہیں، جو ظاہر ہے کہ شاعر نے اپنی جدہ امجدہ کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور ان کی ثناء کی گئی ہے۔ "بے بسی" کے نام سے ایک آزاد نظم دی گئی ہے، جس میں غزل کا رنگ جھلکتا ہے۔ ایک غزل ہے، جسے "اب کے جو بہار آئے" لیکن اس میں بھی آفاقی رنگ نمایاں ہے۔ کربلا کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے
اقلیم شہ کربل، جنت کے نظارے ہیں
پگلا ہے یہاں سے جو اب لوٹ کے گھر جائے

مقطع یوں نظم کیا ہے
ویسے تو سبھی باتیں اچھی ہیں تری ثاقب
وہ بات مزے کی ہے جو دل میں اتر جائے

یہ بات قابل ذکر ہے کہ کتاب میں پہلی مرتبہ شاعر نے اپنا تخلص استعمال کیا ہے، وہ اس مقطع میں ہے۔

اس کے بعد بھی غزل ہے، جسے "ابھی انتقام لینا ہے" کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس کا یہ شعر تو شہرت حاصل کرچکا ہے۔
ہے آرہی یہ صدا کربلا کے ذروں سے
یزیدیت سے ابھی انتقام لینا ہے

شاعر نے غزل کی صنف سخن میں جو شاعری کی ہے، اس میں بھی روایت سے ہٹ کر غزل میں وسیع موضوعات لائے ہیں۔ "ہم زمانے کو بدلیں گے"  کے عنوان کے تحت چار صفحات پر مشتمل آزاد شاعری ہے۔ اس میں امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کو مخاطب کرکے، ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا تذکرہ کرکے وعدہ کیا کہ ہم کربلا سے روشنی لیتے ہوئے زمانے کو بدل دیں گے۔ چار غزلیں ہیں، جن کے بعض اشعار غزل کے بھی ہوگئے ہیں، مگر شاعر کا عزم و ہمت و درس حریت ان میں بھی نمایاں ہے۔ آخری غزل کے دو اشعار انتخاب کیے ہیں، جس سے شاعر کا مقصد شاعری سمجھنے میں آسانی ہو۔
مصلحت کوشی مری سوچ کی دیوار نہیں
مجھ کو اس جرم کا اقرار ہے انکار نہیں
نشہ بھی تم ہی پلاؤ تمہی بے ہوش کہو
اہل انصاف کی نظروں میں یہ کردار نہیں


سانحہ کوئٹہ شاعر کی زندگی میں ایک اثر رکھتا ہے۔ اس سانحہ کے چند دن بعد ہی شاعر ایک وفد کے ہمراہ کوئٹہ کے لیے روانہ ہوئے، مگر جھٹ پٹ اسٹیشن سے یہ وفد پا بَجَولاں کئی دنوں کی مسافت طے کرکے لاہور پہنچا تھا۔ اس پر شاعر نے دو قسطوں میں ہفت روزہ "رضا کار" اخبار میں ایک مضمون لکھا تھا، جس کا عنوان تھا "کوئٹہ کے مسافر جو کوئٹہ نہ جا سکے" سانحہ کوئٹہ ایک ریاستی جبر و تشدد کا شاخسانہ تھا۔ شہداء، زخمی اور اسیران، اسیران پر تشدد اور اسیران کی رہائی کے لیے لانگ مارچ کا اعلان، ایک قصہ درد ہے کسے سائے۔ اس بعد تو ناجانے کتنے سانحے گزر گئے۔

شاعر نے چھ جولائی 1985ء کے سانحہ کو اپنی شاعری میں باندھا ہے اور اسے سانحہ کربلا سے پیوست کیا ہے، کیونکہ ان مظلومین کا یہی جرم تھا کہ وہ اپنا تعلق کربلا سے بتلاتے تھے اور آمر کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے انکاری تھے۔ یہ عام محاورہ ہے کہ ہونْہار بِرْوا کے چِکنے چِکنے پات۔ یہ بات شاعر پر سچ ثابت ہوتی ہے۔ شاعر کے دو مجموعے چھپ چکے ہیں، نغمہ یقین اور شب کی شناسائی جبکہ دو مجموعے آمادہ ہیں۔ مشہور شاعر و ادیب مشکور حسین یاد نے اس کتاب کی دیپاچے میں شاعری پر جو تبصرہ کیا ہے کہ "ثاقب نے اپنی تمام تر جوانی کے باوجود اپنے موضوعات کو ہمیشہ پاکیزہ سے پاکیزہ تر بنانے اور بلند سے بلند تر لے جانے کی سعی کرتا ہے" اور یہی میرا بھی تجزیہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 1122752
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش