0
Sunday 17 Mar 2024 11:36
 صدق اور صداقت

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے "تنظیمی مکتب" کی چوتھی خصوصیت

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے "تنظیمی مکتب" کی چوتھی خصوصیت
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

سچائی، صدق اور صداقت وہ معاشرتی اچھائی ہے، جو ہر باشعور انسان کو اچھی لگتی ہے۔ سچائی اور صداقت کو اگر "یونیورسل ٹروتھ" یا کائناتی سچائی کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ دینی معاشرہ ہو یا سیکولر معاشر، سچائی اور راست گوئی کو اس لیے پسند کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ فطرت کی ہر چیز انسان کو اچھی لگتی ہے، سوائے اس فرد کے جو عقل و شعور کی شاہراہوں کو ترک کرکے بےشعوریوں کی گمراہیوں میں گم ہو جاتا ہے۔دین اسلام، دین فطرت ہے۔ اس لیے فطرت سے متعلقہ ہر شے اسلام میں بالواسطہ یا بلاواسطہ موجود ہے۔ سچ، حق، راست گوئی، صدق و صداقت اور سچا، راست گو، راست باز اور صادق وغیرہ اسلام کی پسندیدہ اصطلاحات ہیں۔

قرآن پاک ہو یا احادیث معصومین، صدق و صداقت کے گن گاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسلام میں صادق اور سچا ہونا اتنا اہم ہے کہ سچوں کا ساتھ دینے اور سچوں کے ساتھ ہونے کی تاکید کی گئی ہے۔ اسلام میں صدق و سچائی کو ایک اہم ترین اور وسیع مقام حاصل ہے اور سچ کا بول بالا ہونا اسلامی معاشرے کا بنیادی وصف ہے۔ ’’لفظ صدق کا اطلاق چھ معانی پر ہوتا ہے: "قول میں صداقت، نیت میں صداقت، ارادے میں صداقت، عزم میں صداقت، عزم پورا کرنے میں صداقت، عمل میں صداقت اور دین کے تمام مقامات کی تحقیق میں صداقت۔" جو شخص ان چھ معانی میں صدق کے ساتھ متصف ہو، وہ صدیق ہے۔ اس لیے کہ لفظ صدیق صدق سے مبالغے پر دلالت کرتا ہے۔ پھر صادقین کے بہت سے درجات ہیں، جس شخص کو کسی خاص چیز میں صدق حاصل ہوگا، وہ اس خاص چیز کے اعتبار سے صادق کہلائے گا، جس میں اس کا صدق پایا جائے گا۔"

صدق (سچائی) اور جھوٹ (کذب) باہم متضاد شے ہے۔ صدق کو ایمان والوں جبکہ جھوٹ کو منافقین کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ جھوٹ (غلط بیانی) کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ کسی چیز کو حقیقت کے برعکس بیان کرنا یا ایسی خبر دینا جو واقع کے خلاف ہو۔ سچ کی تعریف یہ ہے کہ حقیقت کے سوا کچھ نہ بیان کیا جائے بلکہ ایسی خبر دی جائے، جو واقع کے مطابق ہو۔ سچ کے مقابلے میں جھوٹ اور صدق کا متضاد کذب ہے۔ قرآن پاک کی سورہ نحل کی آیت نمبر ۱۰۵ میں ارشاد ہوتا ہے: "جھوٹ تو صرف وہی افتراء کرتے ہیں، جو اللہ کی نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں۔" عبد اللہ بن عباس (رض) روایت کرتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم(ص) سے کمال کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ (ص)نے فرمایا: ’’حق بات کہنا اور صدق پر عمل کرنا کمال ہے۔‘‘

جب آپ (ص) کو اعلانِ دعوت کا حکم ہوا تو آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر قریش کو پکارا، جب وہ جمع ہوگئے تو آپ (ص) نے ان سے پوچھا: "بتاؤ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ وادی مکہ سے ایک سواروں کا لشکر تم پر تاخت و تاراج (تباہ و برباد) کرنا چاہتا ہے تو کیا تمہیں یقین آجائے گا.؟ وہ بولے ہاں، کیونکہ ہم نے تم کو سچ ہی بولتے دیکھا ہے۔‘‘ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: ’’ابو جہل نے حضور نبی کریم (ص) سے کہا اے محمد (ص)! ہم جانتے ہیں کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور ہم تمہیں جھٹلاتے بھی نہیں ہیں، ہم تو اس (پیغام) کو جھٹلاتے ہیں، جو تم لےکر آئے ہو۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’ہمیں معلوم ہے، تمہیں وہ بات رنج دیتی ہے، جو یہ کہ رہے ہیں، وہ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ ظالم اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔"

ہمارا عقیدہ ہے کہ سچائی، صداقت اور امانت اسلام کے اہم اور بنیادی ارکان میں سے ہیں۔ قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے کہ: "قال اللہ ھٰذا یوم ینفع الصادقین صدقھم"، "یعنی خداوند عالم فرماتا ہے کہ آج وہ دن ہے کہ جس دن سچوں کی سچائی انہیں فائدہ پہنچائے گی۔" (سورئہ مائدہ ،آیت ۱۱۹) بلکہ قرآن کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن حقیقی جزا وہ ہے، جو انسان کو سچائی اور صداقت (ایمان، خدا کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر عمل اور زندگی کے تمام شعبوں میں سچائی اور صداقت) کے بدلے میں عطا کی جائے گی۔(لیجذی اللہ الصادقین بصدقھم)(سورئہ احزاب،آیت ۲۴) قرآنی حکم کے مطابق ہم سب کی یہ ذمّہ داری ہے کہ ہم زندگی بھر معصومین اور سچوں کے ساتھ رہیں اور ان کے ہمراہ چلیں۔ (یاایھاالّذین آمنوااتقوا اللہ و کونوامع الصادقین)(سورئہ توبہ،آیت ۱۱۹)

اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہی خدا نے اپنے پیغمبر (ص) کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ خدا سے ہر کام کو صداقت کے ساتھ شروع کرنے اور صداقت کے ساتھ اس سے فارغ ہونے کی توفیق طلب کرے۔ (و قل ربّ ادخلنی مدخل صدق و اخرجنی مخرج صدق)(سورئہ بنی اسرائیل، آیت ۸۰) اسی بناء پر ہم احادیث میں دیکھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا مگر یہ کہ اس کے بنیادی لائحہ عمل میں صداقت، سچائی اور امانت شامل تھیں۔ ”انّ اللہ عزّ وجلّ لم یبعث نبیا الّا بصدق الحدیث و ادآء الامانةالیٰ البرّ والفاجر۔" جھوٹ اخلاقی رذائل کی جڑ اور بہت سے گناہوں کی چابی ہے۔ اس برے عمل کے شدید ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ بعض احادیث و روایات کی بنا پر جھوٹ ہی ایسا گناہ ہے، جسے مومن ہرگز انجام نہیں دیتا۔ جھوٹ عام طور پر نفاق ڈالنے، خوف، مفاد کے حصول اور شیطانی وسوسوں کی وجہ سے بولا جاتا ہے۔

عرفاء کا یہ کہنا ہے کہ جھوٹ اللہ تعالیٰ کے علم و عدالت پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے بولا جاتا ہے۔ اسی لیے جھوٹ بولنے سے دینی عقائد کی ساری عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے۔ دینی کتب میں تو ہنسی مذاق میں بولے جانے والے جھوٹ سے بھی منع کیا گیا ہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کا مزہ نہین چکھ سکتا، جب تک وہ جھوٹ بولنا ترک نہ کر دے، چاہے وہ ہنسی مذاق میں ہو یا سنجیدگی میں۔" جہاں جھوٹ کی اتنی شدید مذمت کی گئی ہے، وہیں سچ بولنے کی بھی تعریف و تمجید کی گئی ہے۔ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی اخلاقی فضیلت سے کفار و مشرکین کو اپنی بات منوانے یا کم از کم اس پر غور و خوض کرنے پر مجبور کیا۔ آپ کو مشرکین مکہ بھی صادق اور سچا مانتے تھے۔ اسی لیے آپ نے اس خصوصیت کو دلیل بنا کر کہا کہ تم نے آج تک مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں سنا، لہذا اب جو میں کہہ رہا ہوں کہ خدا احد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں تو تمہیں اس بات پر بھی اعتماد کرنا چاہیئے کہ میں غلط بیانی اور جھوٹ سے کام نہیں لے رہا۔

سچائی اور راست گوئی پر آیات و احادیث کی فراوانی کے باوجود آج ہم اس برائی سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہم بعض اوقات بظاہر اچھے کاموں کے لیے بھی جھوٹ بول دیتے ہیں۔ انفرادی زندگی کے علاوہ اجتماعی زندگی میں بھی یہ گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔ کسی کو اپنی تنظیم کی طرف متوجہ کرنے کے لیے، اپنی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے لیے، دوسری تنظیم، جماعت یا فرد کو متاثر کرنے کے لیے، تنظیم یا جماعت کی تشہیراتی مہموں میں کشش پیدا کرنے کے لیے، اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے، رقیب اور دشمن کو فریب دینے کے لیے ہم غلط بیانی اور عدم صداقت سے کام لیتے ہیں۔ ان تمام امور میں اگرچہ تنظیمی یا جماعتی کارکن کے ذاتی مفادات پوشیدہ نہیں ہوتے، لیکن وہ اجتماع اور جماعت کے لیے اس گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ کیا الہیٰ اور قرآنی مکتب کی پیروکار تنظیموں اور جماعتوں میں اس گناہ کے ارتکاب کی گنجائش ہے یا نہیں، جواب بڑا واضح ہے۔

شہید ڈاکٹر کے تنظیمی مکتب میں سچائی اور راست گوئی کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ شہید ڈاکٹر خود بھی اس پر بڑی سختی سے کاربند تھے اور اپنے اردگرد کے افراد اور تنظیمی ساتھیوں کو بھی اس پر سختی سے عمل درآمد کی تاکید فرماتے تھے۔ وہ اکثر اوقات ایک نام نہاد عالم کی مثال دیا کرتے تھے، جو اعمال کو نیکیوں اور برائیوں کی تعداد کے تناظر میں انجام دیتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر میں نے کسی دکان سے ایک روٹی چرا کر  بھوکے غریب انسان کو کھلا دی تو مجھے چوری کے بدلے ایک برائی ملے گی، جبکہ غریب انسان کا پیٹ بھرنے کی وجہ سے دس نیکیاں ملیں گی۔ اس نام نہاد فقیہ کے بقول اس عمل سے میں نے ایک گناہ اور دس نیکیاں حاصل کی ہیں۔ خدا جب میرا احتساب کرے گا تو اگر ایک برائی ملے گی تو دس نیکیاں بھی تو ملیں گی۔ گویا ایک نیکی کم ہو جائے گی، لیکن باقی نو نیکیاں میرے حساب میں ضرور لکھی جائیں گی۔

دینی و مذہبی تنظیموں میں بھی بعض اوقات نیکیوں اور برائیوں کو اس تناظر میں دیکھا جاتا ہے اور تنظیمی کارکن بظاہر بڑے ثواب کے لیے چھوٹے موٹے گناہ کا ارتکاب کر لیتا ہے۔ شہید ڈاکٹر کے تنظیمی مکتب میں اس کی کوئی گنجائش اور اجازت نہیں۔ جن اخلاقی رذائل اور گناہوں سے شریعت نے منع کیا ہے، وہ تنظیمی اور اجتماعی کام کی انجام دہی کے لیے جائز نہیں ہوسکتے۔ شہید ڈاکٹر نقوی نے کسی کو دعوتِ تنظیم دینا ہوتی یا اسے کوئی کام سونپنا ہوتا تو پہلے اس کام سے متعلق مشکلات و ابتلائات سے آگاہ کرتے۔ کسی کو عہدے پر کام کرنے کا کہتے تو پہلے اس عہدے کو ایک امتحان و آزمائش قرار دیتے، پھر اس کی دیگر تفصیلات بتاتے۔ شہید ڈاکٹر اگرچہ مبشر اور نذیر دونوں تھے، لیکن وہ کسی کو دھوکے میں رکھ کر ظاہری لفاظی یا کذب بیانی سے ہرگز کام نہ لیتے۔

ذاتی اور اجتماعی زندگی میں ان کے کئی ایسے واقعات ہیں، جن سے درک کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کبھی ذومعنی جملوں اور چکنی چپڑی باتوں سے کسی کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش نہ کی۔ تنظیم کی خوبی یا خامی بیان کرتے وقت حقیقت پسندی سے کام لیتے تھے۔ نہ بے جا تعریف اور نہ ہی بےجا تنقید کرتے۔ ان کی راست گوئی کی وجہ سے بعض دوست ناراض بھی ہو جاتے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انہیں احساس ہو جاتا کہ اگر ڈاکٹر صاحب تکلف کا اظہار کرتے تو وہ خامی یا کمی ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی، لیکن چونکہ ڈاکٹر صاحب نے بلاتکلف اس خامی کی طرف متوجہ کر دیا تو اس کو دور کرنے کا موقع بھی میسر آگیا۔
خبر کا کوڈ : 1123197
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش