0
Sunday 17 Mar 2024 22:21

سب نے سمجھوتہ کر لیا، سب کمپرومائزڈ ہیں

سب نے سمجھوتہ کر لیا، سب کمپرومائزڈ ہیں
تحریر: ارشاد حسین ناصر

پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں ایک حکومت قائم ہوچکی ہے، یہ حکومت ایک مشترک حکومت ہے، جس کا دارومدار اگرچہ بہ ظاہر پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے دیئے گئے ووٹوں پر ہے، مگر سب ہی جانتے ہیں کہ اصل قوت کوئی اور ہے، جس نے یہ سارا نظام کھڑا کیا ہے اور وہی اصل قوت ہے۔ ہم عمومی طور پر ان کے بارے میں لفظ "مقتدر قوت" استعمال کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں ان کیلئے اسٹیبلشمنٹ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ گویا میاں شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے میں اگر کسی کا کوئی کردار ہے تو وہ اسٹیبلشمنٹ ہے، جس نے نہایت ہی منصوبہ بندی سے میاں نواز شریف کے خوابوں پر پانی پھیر دیا۔ الیکشن سے پہلے بنائے گئے ماحول سے مسلم لیگ نون اور دیگر سیاسی و صحافتی اہل نظر کو یہی لگ رہا تھا کہ میاں نواز شریف اب چوتھی بار وزیراعظم بن جائیں گے۔

ان کے راستے کی ہر دیوار گرائی جا رہی تھی، انہیں چار سال بعد پاکستان بڑی عزت و احترام سے لایا گیا، جبکہ وہ ایک مجرم کے طور پر جیل سے کچھ وقت کیلئے گئے تھے۔ ان پر ان گنت مقدمات جن میں انہیں سزائیں ہوچکی تھیں۔ماضی میں انہیں نااہل بھی کیا گیا تھا، جس فیصلے کو ریورس کیا گیا۔کرپشن، منی لانڈرنگ اور نہ جانے کون کون سے کیسز تھے، انہیں برق رفتاری سے ختم کیا گیا۔ نیب اور دیگر عدالتوں میں انہیں بری کروایا گیا۔ اقتدار کی سیڑھی پر چڑھانے کیلئے انہیں میدان فراہم کیا گیا۔ ان کو صحیح معنوں میں لیول پلیئنگ فیلڈ دی گئی، جس کے نہ ملنے کا شکوہ دیگر جماعتوں نے کیا۔ حتیٰ پاکستان پیپلز پارٹی جو پی ڈی ایم کی سولہ مہینے حکومت میں ان کی اتحادی تھی، اسے بھی یہ شکوہ ہوا۔

ان کے مخالف پاکستان تحریک انصاف تھی، جس کے بانی چیئر مین عمران خان اور دیگر قائدین پر ایسے ہی کیسز درج کرکے گرفتاریاں کی گئیں، جیسے ایک زمانے میں نون لیگ کیساتھ کیا گیا تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ نون لیگ پھر بھی الیکشن لڑ سکتی تھی، اس کے امیدوار کمپین کرسکتے تھے، انہیں جلسے، جلوس، ریلیز کرنے کی اجازت تھی، ان سے شیر کا نشان نہیں چھینا تھا، ان سے جماعت کا نام نہیں چھینا تھا، یہاں کچھ زیادہ ہی ہو رہا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف جو اصل میں مقتدر قوتوں اور اس کے زیر سایہ سولہ مہینے حکومت کرنے والوں کی اصل اپوزیشن تھی، ان پر سختیوں، پابندیوں اور قید و بند کا ماحول تھا، جس کے باعث ووٹرز بھی بہت کنفیوز تھے کہ نہ جانے کیا بنے گا۔

کیا ان کی پسندیدہ جماعت اپنے امیدوار سامنے لاسکے گی یا نہیں، کیا انہیں نشان ملے گا یا نہیں، کیا ان کی پسندیدہ لیڈر شپ الیکشن سے پہلے باہر نکل سکے گی یانہیں، یا ان کے امیدوار جو بیشتر انڈر گرائونڈ بھی تھے، سامنے آسکیں گے یا نہیں۔ اس طرح کے سینکڑوں مسائل کا شکار جماعت بہرحال تمام سرویز میں واضح برتری کیساتھ آگے بڑھ رہی تھی اور آٹھ فروری کو ایسا ہی ہوا کہ عوام کی پسندیدہ سیاسی جماعت کے چیئرمین کو الیکشن سے چند دن قبل دی جانے والی سزاءوں کی وجہ سے مزید ہمدردی ملی اور ووٹرز کا رخ الیکشن والے دن پی ٹی آئی کے امیدواروں کی جانب رہا۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے نشانات بھی ایسے تھے کہ پہچان مشکل تھی، مگر پھر بھی عوام نے اپنی رائے ان کے حق میں دی۔

الیکشن کے بعد نتائج کے مرحلے پر جو دھاندلی ہوئی، وہ ایک ریکارڈ ہے، جس طرح سے جیتے ہوئے امیدواروں کو ہرایا گیا، جس طرح سے ہارے ہوئے امیدواروں کو جتوایا گیا، وہ بھی ایک تاریخ ہے۔ حکومت سازی کے مراحل جس طرح طے ہوئے، جمہوریت کے نام پر جدوجہد کرنے کی دعویدار سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے جس طرح اقتدار کی کرسی کے حصول کیلئے جمہوری روایات کی نفی کی اور جمہوریت کا جنازہ نکالتے ہوئے اپنا اپنا اقتدار، اپنا اپنا حصہ وصول کیا ہے، وہ ہماری جمہوری تاریخ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی مومنٹ پاکستان نے وزارتوں، گورنر شپ اور صدارت کیلئے تمام تر داغ اپنے ماتھے پر سجانا گوارا کر لیے۔ اب اگلا مرحلہ سینیٹ کے انتخابات کا ہے، جس میں کھلے عام اسٹیبلشمنٹ نے اپنے گھوڑے اتارے ہیں۔

اس سے قبل باپ پارٹی بنی تھی، جس کا سینیٹ چیئرمین بنایا گیا تھا، مگر اس بار سارے کام چونکہ کمپرومائز سیاسی جماعتوں اور جمہوریت پسند سیاسی رہنمائوں کے ذریعے ہو رہے ہیں تو ایک نئی جماعت بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ نئی سیاسی جماعت کا کردار موجودہ اقتدار پرست جماعتیں ہی کر رہی ہیں۔ نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلی پنجاب کو سینیٹ میں لایا جارہا ہے، جبکہ یہ دونوں کسی سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر حصہ نہیں لے رہے۔ دوسری طرف معروف سیاسی جماعتوں میں طویل جدوجہد کرنے والے رہنمائوں کو ٹکٹ نہیں دیئے گئے۔ یقیناً یہ سب کمپرومائز ہوگا۔ اب تک اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار کی کشتی کو جس جانب رخ دینا چاہا ہے، اسی جانب بڑھی ہے۔ لہذا امید یہی ہے کہ یہ نظام مستقبل میں بھی ایسے ہی چلتا دیکھا جاسکے گا۔

یعنی جن کے خلاف ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا گیا تھا، انہی کی گود میں بیٹھ کر تھوڑے پر گذارا چلایا جائے گا۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور مرکز میں وزارت عظمیٰ اگرچہ بڑے میاں کا خواب چکنا چور ہوا ہے، مگر چھوٹے بھائی کے سر پر تو پگ رکھی گئی ہے، جسے بادل نخواستہ قبول کیا گیا ہے۔ اب اطلاعات اور خبریں گردش کر رہی ہیں کہ موصوف اپنے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کیساتھ ہی اپنی مستقل رہائش لندن سدھار جائیں گے اور امید کی جا سکتی ہے کہ لندن میں بیٹھ کر اپنے دل کا غبار بھی نکالا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر پاکستان جناب آصف علی ذرداری جو ایک زمانے میں کہتے تھے کہ ہم یہیں پر رہنے والے ہیں، آپ تین سال کیلئے آتے ہو، ان کے کارکن بہت خوش ہیں کہ ذرداری دوبارہ صدر بن گئے اور راحیل شریف یا باجوہ صاحب کا نام و نشان نہیں، جبکہ حقیقت یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں ان کی دم چھلہ بن کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے اور جمہوریت کا مذاق اڑاتے ہوئے اسٹیبلشمنت کے اشاروں پہ ناچتی ہیں۔

یہ درست ہے کہ کبھی کبھی وہاں نام تبدیل ہو جاتا ہے، کبھی کیانی، کبھی راحیل شریف، کبھی باجوہ، کبھی سید عاصم منیر ہو جاتے ہیں، مگر ان کی پالیسی وہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو کنٹرولڈ جمہوریت، کنٹرولڈ رہنمائوں کے ذریعے سمجھوتوں (compromise) پہ لا کر ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھی جائے۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ نے مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔اپنی مرضی کی حکومت، مرضی کی کابینہ، مرضی کا سینیٹ، مرضی کے مطابق بڑے اداروں کے سربراہان اور اگر دیکھا جائے، باریک بینی سے جائزہ  لیا جائے تو یہ بھی حقیقت لگتی ہے کہ مرضی کی اپوزیشن تشکیل پاچکی ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین جیل میں ہیں، ان سے ملنے ملانے، ملاقاتیں کرنے والے، ان کے وکلا، ان کی فیملی، ان کی جماعت کے رہنماء کئی ایک ایشوز پہ الگ الگ آراء کا اظہار کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

انہی بیانات و بعض اقدامات کی روشنی میں بہت سے رہنمائوں کے بارے یہ الزامات سامنے آچکے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کیساتھ بھرپور رابطوں میں ہیں، جن کی وجہ سے جماعت کو کافی مقامات پر سبکی اٹھانا پڑی ہے اور غلط فیصلوں کا نتیجہ ایک طرف تو جماعت کا نقصان ہے، دوسری طرف اعتماد کا کھونا بھی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ اتحاد والے ایشو پر بھی اب ایسے ہی خیالات و الزامات کا سامنا ہے، جن میں کافی حد تک حقیقت نظر آتی ہے۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کو اگر اسٹیبلشمنٹ ہائی جیک کرنا چاہتی تھی تو کسی حد تک اس میں بھی کامیابی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ٹکٹوں کی تقسیم کے مراحل پر بھی ہوا ہے اور پارٹی قیادت کا عارضی سیٹ اپ قائم کرنے کے مراحل کے دوران بھی یہی کچھ ہوا ہے۔

موجودہ عارضی قیادت نے بہت سے معاملات میں جس طرح کا رویہ رکھا ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ لوگ کنٹرولڈ چل رہے ہیں۔ ان پر کسی بھی طرح کا انحصار کرنا کسی بھی طور دانشمندی نہیں، بالخصوص اتحادیوں کو بہت پھونک پھونک کر اور سمجھ بوجھ سے اپنے فیصلے لینے چاہیئے، ایسا نہ ہو کہ "ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے" والا معاملہ ہو جائے۔ اس ساری صورتحال میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی عوام کو حقیقی آزادی اور امریکی چنگل سے آزادی کا سفر شاید نئے سرے سے شروع کرنا پڑے گا۔ یہاں جمہوریت، آزادی، جمہوری قدریں، پارلیمانی روایات، عدالتیں، انصاف، روایات، کسی ایک شخص کی خواہشات پر قربان ہوسکتی ہیں، لہذا ملک کی تقدیر بدلنے، ایک باوقار قوم کی تشکیل محض خواب ہی ہے۔

جس ملک کے ستاسٹھ فی صد لوگ اپنے ملک کو چھوڑنے کیلئے پر تول رہے ہوں، اس کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔ باقی نئی پارلیمنٹ، کابینہ، ادارے، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، اپوزیشن، سب رام ہوچکے ہیں۔ امریکہ نے آئی ایم ایف کے ذریعے سب کو شانت کر دیا ہے۔ دستیاب لیڈر شپ سے کسی انقلابی جدوجہد و تبدیلی کی توقع رکھنا عبث ہوگا۔ اس لیے کہ ان کے اقتدار کی بھوک اس قدر زیادہ ہے کہ یہ ملک کو گروی رکھ کر اپنی کرسی کو مضبوط کرر ہے ہیں۔ عوام کیلئے مہنگائی کا جو طوفان لایا گیا ہے اور جو مراحل اگلے دنوں میں آنے والے ہیں، وہ بہت خوفزدہ ہیں۔ اس ملک کے چوبیس کروڑ لوگوں کو چند خاندان بیچ کر کھاتے آ رہے ہیں، جو گذشتہ پچھتر برس میں نہیں ہوا، وہ اب ہوگا، اس لیے کہ سب نے سمجھوتہ کر لیا ہے، سب کمپرومائزڈ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1123235
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش