0
Monday 29 Apr 2024 23:32

استعفوں پر استعفے

استعفوں پر استعفے
تحریر: مھدی بختیاری

حالیہ دنوں میں قابض صیہونی حکومت کے ملٹری انٹیلی جنس ادارے (امان) کے سربراہ ہارون حلیوا کے استعفیٰ اور بعض دیگر صیہونی فوجی کمانڈروں کے استعفوں کی افواہوں کے بعد ایسا لگتا ہے کہ 7 اکتوبر کی ناکامی کے اثرات  فوج اور سکیورٹی حکام پر پڑنا شروع ہوگئے ہیں۔ Haaretz اخبار کے سینیئر تجزیہ کار، Amos Hareil نے لکھا ہے "اسرائیل کے سیاسی اور سکیورٹی رہنماؤں کی صفوں میں استعفوں کی ایک بڑی لہر ہے اور یہ سب طوفان الاقصیٰ آپریشن کا نتیجہ ہے۔" صہیونی تجزیہ نگار نے غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں تعطل آنے کے بعد اس داخلی تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ان استعفوں نے بنیامین نیتن یاہو کو رنگ کے ایک کونے میں کھڑا کر دیا ہے، کیونکہ وہ واحد شخص ہے، جو اس ناکامی کا ذمہ دار ہے۔

داخلی میدان میں، مقبوضہ علاقوں کے مکین، خاص طور پر اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ، نہ صرف اپنی متحارب حکومت کا کسی بھی طرح سے احترام نہیں کرتے، بلکہ وہ فوری جنگ بندی، حماس کے ساتھ مذاکرات اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر نیتن یاہو کو ہٹانے اور حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تل ابیب جیسے بڑے شہروں میں دسیوں ہزار لوگوں کے ساتھ زبردست مظاہرے جاری ہیں اور شرکاء موجودہ صورتحال کا ذمہ دار نیتن یاہو کو ٹھہراتے ہیں۔ بین الاقوامی میدان میں موجودہ صیہونی حکومت دن بہ دن مزید تنہاء ہوتی جا رہی ہے۔

صیہونی حکومت کے خلاف امریکی یونیورسٹیوں میں طلباء کے بے مثال مظاہرے حالیہ دنوں میں خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ امریکی پولیس نے ان طلباء کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا اور ان کے پروفیسرز نے نظر بندوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مظاہروں میں شمولیت اختیار کی اور اس عمل نے کولمبیا جیسی کچھ یونیورسٹیوں میں کلاسوں کو درہم برہم کر دیا ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی صیہونیت مخالف لہر تھمی نہیں اور یہ مسئلہ صرف اسلامی ممالک تک محدود نہیں ہے۔ امریکہ کے علاوہ دیگر غیر اسلامی اور یورپی ممالک میں بھی بہت سے مظاہرے ہو رہے ہیں اور اس مسئلے کی وجہ سے امریکیوں نے صیہونی حکومت کی مکمل حمایت کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مخالفت نہیں کی ہے۔ جس پر اسرائیلی حکام کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔

عملی میدان میں صیہونیوں کے لیے حالات دن بدن مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ غزہ میں بہت سے جرائم اور 40 ہزار بے گناہ لوگوں کے قتل کے باوجود، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، کوئی کامیابی حاصل نہیں کی گئی، جس سے نیتن یاہو پر دباؤ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ نیتن یاہو کے اعلان کردہ اہداف حاصل نہیں ہوسکے ہیں اور حماس اور مزاحمتی گروہوں کے ساتھ لڑائی جاری ہے اور صیہونی جو اپنے قیدیوں کو بغیر مذاکرات اور جنگ کے ذریعے رہا کرنا چاہتے تھے، 200 دن گزر جانے کے بعد بھی ان کے ٹھکانے تک کا کوئی سراغ نہیں لگا سکے۔

شمالی محاذ میں لبنانی حزب اللہ نے اپنی کارروائیوں کے حجم اور دائرہ کار میں اضافہ کیا ہے اور گذشتہ ایک یا دو دنوں میں کئی سالوں کے بعد پہلی بار اس نے مقبوضہ علاقوں کے شمال میں حیفا اور ایکا پر اپنے حملے کیے ہیں۔اسرائیل کے خلاف ایران کے تعزیری حملے کے بعد صیہونی مکمل تعطل کا شکار ہیں۔ درجنوں میزائلوں اور ڈرونز سے ایران کے حملے اور دوسری طرف صیہونیوں کی غیر فعال اور مضحکہ خیز جواب نے صیہونی حکومت کو پوری دنیا میں رسوا کر دیا ہے۔ اس سب اقدامات نے نیتن یاہو اور ان کی حکومت کو ایک بڑے چیلنج میں ڈال دیا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس جنگ کے خاتمے کا مطلب خود اور اس کے بہت سے ساتھیوں کا زوال ہوگا۔

جو لوگ یا تو خود استعفیٰ دے کر چلے جائیں گے یا چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو نے ابھی تک جنگ ختم کرنے اور اسرائیل کی سلامتی کو مزید خطرے میں ڈالنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ نیتن یاہو کی طرف سے اپنے کم سے کم ذاتی فائدے کے حصول کے لیے اسرائیل کے وجود پر کھیلے جانے والے جوئے پر اس کے دوستوں کی طرف سے بھی تنقید کی گئی ہے اور ان کا خیال ہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم اسرائیل کی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں، کیونکہ وہ اپنی عظمت کے جنون میں گرفتار ہیں۔ وہ اسرائیل کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر اس کو تباہی کے دہانے تک پہنچا چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1132360
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش