0
Saturday 24 Dec 2011 16:03

قوتِ بینائی سے محروم ہاتھی

قوتِ بینائی سے محروم ہاتھی
تحریر:جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
 
کوئٹہ سے 320 کلو میٹر جنوب مغرب اور گوادر سے 400 کلو میٹر شمال مشرق میں مکران پہاڑی سلسلے کے دامن میں چھوٹے جہازوں کے اترنے کیلئے شمسی نامی ہمارا ایک کم لمبائی والا چھوٹا سا ہوائی اڈہ یا ایئر سٹرپ ہوتا تھا جس کو بیس سال قبل 1992ء میں متحدہ عرب امارات نے لیز پر بظاہر اس لئے لیا کیونکہ وہ اس اڈے کو فیلکن اور ہوبارہ بسٹرڈ پرندوں کے شکار کیلئے استعمال کرنا چاہتے تھے، اپنے قبضے میں لینے کے بعد متحدہ عرب امارات نے فوراً اس ایئر فیلڈ کو ایک Jet Capable ہوائی اڈہ بنا ڈالا اور پھر آج سے دس سال قبل 2001ء میں پاکستان کی اجازت سے اس اڈے کو CIA کو لیز پر بھی دے دیا گیا، تاکہ CIA اور امریکن ایئر فورس اس کو صرف انٹیلیجنس حاصل کرنے اور لاجسٹک کیلئے استعمال کر سکے۔
 
یاد رہے کہ پاکستان کے انتہائی اہم اور حساس صوبے بلوچستان کو دنیا کے دو اہم ترین تیل اور گیس کے خزانوں یا انرجی ہارٹ لینڈ یعنی مشرق وسطٰی اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان ایک گولڈن لینڈ بریج کی حثییت حاصل ہے۔ اس سنہری Land Bridge کے بالکل وسط میں واقعہ شمسی کے ہوائی اڈے کی Strategic Significance سے کوئی بھی ذی ہوش جیو اسٹریٹیجی اور جیو پالٹکس کا طالب علم انکار نہیں کر سکتا، اس لئے ایک مکتب فکر کا تو یہ خیال بھی ہے کہ 1992ء میں ہی شمسی ہوائی اڈے کے بظاہر خریدار تو متحدہ امارات کے امریکہ نواز شیخ تھے لیکن فوراً اس کو 3012 میٹر یا 3 کلو میٹر لمبا جیٹ جہازوں کا اڈہ بنانے سے یہ بات بعیداز قیاس نہیں کہ شائد خلیج فارس، ایران، افغانستان اور بلوچستان کے تقریباً دل میں واقع اس Forward ہوائی اڈے کے اصلی سوداگر کوئی اور تھے، جو ایران پر نظر رکھنے اور افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں داخل ہونے کیلئے اس اڈے کو ایک Launching Pad کے طور پر استعمال کرنے کے خواہش مند تھے، جس میں وہ کامیاب ہو گئے۔ 

دس سال شمسی کا ہوائی اڈہ بلا شرکت غیرے استعمال کیا۔ ایران اور پاکستان سے متعلق تفصیلات حاصل کر لیں اور افغانستان میں پکے محفوظ اڈے بنا لئے اس لئے اب CIA کے لئے اس اڈے کی کوئی خاص اہمیت نہیں چونکہ امریکہ اب پورا افغانستان پھلانگ کر شمالی افغانستان میں بھی اڈے بنا چکا ہے۔ اس لئے امریکہ نے اپنے مقاصد کے حصول کے بعد شمسی ایئر بیس کو ترک کرنے میں کسی لیت و لال سے کام نہیں لیا۔ چونکہ دس سال قبل جو اڈہ ایک Forward بیس تھی وہ اب ایکRear بیس بن چکا ہے۔ 

اب تو باگرام کے Militarized ہوائی اڈے پر امریکنوں نے جو دوسرا لینڈینگ سٹرپ بنایا ہے وہ 3500 میٹر یا ساڑھے تین کلو میٹر لمبا ہے۔ اس اڈے پر امریکن Combat 10، اوی ایشن بریگیڈ اور امریکہ کی ایئر فورس، نیوی میرینز اور کوسٹ گارڈر کے بہت سارے Element ہیں۔ اس اڈے پر بڑے جہاز C-5 Glaxy ،C-17 گلوب ماسٹر اور بوینگ 747 لینڈ کر سکتے ہیں۔ باگرام اڈے پر ایک جیل بھی ہے جس پر بین الاقوامی ریڈ کراس نے مارچ 2009ء میں اعتراض بھی کیا تھا۔ یہ اڈہ ایران اور پاکستان کے بہت قریب ہے۔2007ء  میں جب امریکی نائب صدر ڈک چینی نے اس اڈے کو visit کیا تو طالبان نے حملہ کر کے 23 اتحادی ہلاک کر دیئے۔
 
قارئین یہ بات تو بالکل ٹھیک ہے کہ امریکیوں نے ہمارے ہوائی اڈے، بندر گاہیں، ہوائی اور زمینی راستے استعمال کئے، ہمارے 40 ہزار پاکستانی بھائیوں کی جانیں بھی گئیں، حکومتی اندازوں کے مطابق ہمارے رسل و رسائل کا 50 ارب روپے کا نقصان بھی ہوا اور ہماری معشت کو 70 ارب ڈالرز کا نقصان بھی پہنچا، اس سارے مخلصانہ تعاون کے باوجود امریکہ نے قدم قدم پر ہمیں دھوکہ دیا اور بے وفائی کی، لیکن جب ہم اپنے گریباں میں جھانکتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ دس سال کے طویل عرصے کے بعد ہی ہمیں یہ کیوں پتہ چلا کہ امریکہ ہمارا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے، جس کو شمسی کا اڈا دینا ایک غلطی اور آنکھیں بند کر کے transit سہولیات مہیا کرنا ملکی مفاد کے خلاف بھی تھا، جن کو اب واپس لینا نہایت ضروری ہو گیا ہے، جس سے امریکہ ناخوش ہے۔
 
دس سال کی قربانیوں کے بعد جہاں ہم یہ توقع کر رہے تھے کہ اتحادی قیادت امریکہ اور پاکستان میں پاکستانی شہداء کے اعزاز میں تقریبات منقعد کر کے ان کو خراج عقیدت پیش کرینگی، دنیا میں پاکستان کے کردار کی تعریف ہو گی، بین الاقوامی ادارے پاکستان کے شہداء کے لواحقین اور زخمیوں کو معاوضے ادا کرنیگے، پاکستان کو بین الاقوامی منڈی میں داخلے کیلئے بہترین سہولیات دی جائیگی، پاکستان کے نہ صرف قرضے منسوخ کئے جائیں گے بلکہ ہمارے 70 ارب ڈالرز کے نقصانات کی تلافی بھی ہو گی۔ ہماری سڑکوں، ریلوے لائن اور ہوائی اڈوں کے استعمال سے جو نقصانات ہوئے ہیں ان کو بھی پورا کیا جائے گا۔ پاکستان کے انرجی کے مسائل کو حل کرنے میں بین الاقوامی مدد ملے گی، اقوام متحدہ کا ادارہ پاکستان کی قربانیوں کی تعریف کریگا، لیکن ایسا تو کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ 

ہمیں کیا ملا، 2009ء کا کیری لوگر بل بدبودار تھا، ریمنڈ ڈیوس بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا نکلا، ایبٹ آباد پر حملہ ایک دوست ملک کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف تھا، میمو گیٹ میں بیرونی طاقتیں ملوث ہیں، مہران بیس پر حملہ بیرونی قوتوں کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔ سلالہ پوسٹ پر حملہ ایک ننگی جارحیت تھی، ڈرون حملوں سے 2043ء معصوم لوگوں کا قتل کر کے جنگی جرائم کا ارتگاب ہوا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر احسان فراموش اور ناقابل اعتبار امریکہ نے یہ منافقت کی تو دس سال تک معصوم پاکستانی قیادت کیا کرتی رہی۔؟
 
مظلوم پاکستانی قوم ایک عشرے کی تباہی کا اپنا رونا کس کے آگے روئے۔؟ یہ سب کچھ اگر امریکہ کی زیادتیاں ہیں تو کیا یہ ہماری قیادت کی ناکامیاں نہیں۔؟ کیا ان ناکامیوں کا جواب ہمارے پالیسی سازوں کو نہیں دینا چاہیے۔؟ دس سال کے اسٹریٹیجک ڈائیلاگ، دوستیاں اور دعوتیں اگر بوگس تھیں تو ہمارے فوجی ڈیکٹیٹر، پارلیمنٹ، کابینہ اور چیف ایگزیکٹیو کو اس کا ادراک کیوں نہ ہوا؟ کیا موجودہ صورت حال ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں؟ دس سال تک افغان جنگ کو پاکستان کی جنگ کی رٹ لگانے والے اب امریکیوں سے اڈے واپس لیکر ان کو ڈرون حملے کرنے سے کیوں روک رہے ہیں۔؟ کیا اب یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ:
"سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا" 

جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو وہ اب ایک اندھا ہاتھی ہے۔ قوت بینائی نہیں لیکن طاقت اس کے پاس ہے۔ عراق اور افغانستان کے باغ اجاڑ کر اب وہ اس پاکستانی شجر کی ٹہنیوں کو سونڈ میں لپیٹ رہا ہے جس کا پھل کھا کر آج سے دس سال قبل وہ افغانی چمن میں داخل ہوا تھا۔ لیکن کامیابی خوش قسمتی سے اس کا مقدر نہیں، چونکہ اندھی طاقت سے کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اب نابینا ہاتھی عراق، افغانستان، یمن، مصر اور ٹونیسیا کے گہرے کنووں میں گر چکا ہے۔ سومالیہ اور جنوبی سوڈان میں کٹ پتلی نظام بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ایران، لیبیا، وینیز ویلا اور کیوبا والوں نے بھی اس کیلئے گہری خندقیں کھود رکھی ہیں۔
 
ایک اطلاع کے مطابق شام کے سامنے اردن کی شمالی سرحد پر بھی نیٹو کے تقریباً ایک سو فوجی دیکھے گئے ہیں۔ یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے۔ اس کے علاوہ اب امریکہ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت اور امریکہ کے سب سے بڑے 1500 ارب ڈالرز کے کریڈیٹر چین کے خلاف بھی گھیرا تنگ کرنا چاہتا ہے۔ بحرالکاہل میں چین کی سرحد کے سامنے آبدوزیں، ہوائی اور بحری جہاز لگا دیئے گئے ہیں اور چین کے ایشیا کے ساتھ رابطے کاٹنے کی بات ہو رہی ہے۔ امریکی صدر اوبامہ نے آسڑیلین پارلمنٹ کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے۔
"Asia is a priority region for US military expansion"
یعنی ایشیا میں اپنے فوجی اڈے بنانے کو ہم ترجیح دینگے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا۔
"Enduring interests in Asia Pacific, demand enduring presence"
یعنی ایشیا پیسیفک کے علاقے میں ہمارے گہرے مفادات کا تقاضا ہے کہ وہاں ہمارے پکے اڈے ہوں۔
 
اس کے علاوہ امریکہ نے یورب کے تیل اور گیس کے سب سے بڑے Supplier اور دنیا کی دوسری بڑی ایٹمی طاقت روس کو بھی ناراض کیا ہوا ہے۔ روس کو دھمکانے کیلئے امریکہ نے اپنے Patriot PAC 3 میزائل پولینڈ میں نصب کر دیئے ہیں، اس کے علاوہ ANTP(Y) امریکی ریڈارز ترکی میں لگ چکے ہیں۔ سپین کے ساحل کے قریب جنگی بحری جہاز اور رومانیہ میں بھی کچھ فورسز لگا دی گئی ہیں۔ اب ماسکو پر پانچ منٹ کے اندر میزائل داغے جا سکتے ہیں۔ ساتھ ہی روس کی معاشی ناکہ بندی کے منصوبے بھی بن رہے ہیں۔ روس کا بھی کہنا ہے کہ اس کے میزائل پانچ منٹوں میں پیرس، لندن اور برلن تک پہنچ جائینگے۔ 

یہ صورتحال بین الاقوامی امن اور خود امریکی عوام کیلئے اچھی نہیں۔ اس لئے امریکہ کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔ یہ سچی بات ہے کہ جب ہم اپنے 35000 پاکستانیوں کی شہادت، معاشی تباہی اور عوامی بدحالی کا سوچتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ امریکہ کو آنکھیں دکھانے میں ہم نے بہت دیر کر دی، اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ:
"سب کچھ لٹا کہ ہوش میں آئے تو کیا کیا"
خبر کا کوڈ : 124548
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش