0
Tuesday 6 Mar 2012 21:39

اسرائیل کی جنگ طلبی، علاقائی استحکام کیلئے سنگین خطرہ (قسط دوم)

اسرائیل کی جنگ طلبی، علاقائی استحکام کیلئے سنگین خطرہ (قسط دوم)
تحریر: زاہد مرتضٰی

ایران پر حملہ فی الوقت نہ کرنے کی پالیسی پر امریکہ اور اسرائیل کے درمیان پیدا ہونے والا تضاد روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، 15 جنوری 2012ء کو عالمی میڈیا میں یہ خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ امریکہ نے اسرائیل کیساتھ ہونے والی مشرکہ جنگی مشقیں (Austere challenge" 12") ملتوی کر دی ہیں، ایسے حالات میں جب اسرائیل کو ایران کیخلاف جنگ کی تیاریوں کیلئے ان مشقوں کی شدید ضرورت تھی، امریکہ کی طرف سے اسکا ملتوی کیا جانا ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ ان مشقوں کو ملتوی کرنے کا اعلان جنرل ڈیمپسی کی 20 جنوری کو تل ابیب آمد سے قبل کیا گیا۔ جو اوبامہ کی جنگ سے گریز کی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے البتہ جنرل ڈیمپسی کی اسرائیل آمد سے قبل مشقوں کے التوا کا اعلان کرنا گویا اسرائیل کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ امریکہ اسرائیل کی ایران پالیسی کا حامی نہیں، یہ مشقیں اسرائیل کے لئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل تھیں، ان کے التواء میں چلے جانے سے اسرائیل کے اندر یہ موضوع اختلافات اور غیرمطمئن وضاحتوں کا عنوان بن گیا۔ 

اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات نے ابہامات میں مزید اضافہ کر دیا ہے کہ آیا مشقوں کے ملتوی کرنے کا فیصلہ یکطرفہ ہے یا مشترکہ، دوسرا یہ کہ اس فیصلے کی وجوہات کیا ہیں، امریکی سیکرٹری دفاع لیون پنیٹا نے 18جنوری کی پریس بریفنگ میں بڑے دھڑلے سے کہا کہ باراک اوبامہ نے مجھے کہا ہے کہ مشقیں ملتوی کر دی جائیں۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دونوں فریق مشقوں کے ملتوی کرنے کے خواہشمند تھے۔ مشقوں کے تناظر میں نیتن یاہو کا اولین مقصد صاف دکھائی دے رہا ہے جس میں وہ موسم سرما کے آخر میں شروع ہونے والی امریکی کی صدارتی الیکشن مہم میں ری پبلکن امیدوار کو اوبامہ پر برتری دلانے کیلئے مخفی اشارہ دینا چاہتے ہیں تاہم ایہود بارک اس سے یکسر مختلف نقطہ نظر رکھتا ہے جس کا تعلق اسرائیل کی دفاعی فورسز کے آپریشن کی تیاری سے تھا۔ 

سابق امریکی انٹیلی جنس تجزیہ نگار جس کی اسرائیلی فوج پر گہری نظر ہے نے IPS کو بتایا کہ اسرائیلی ڈیفنس فورس (IDF) کا باراک پر دباؤ تھا کہ وہ ایران پر حملے کا جب چاہیں حکم دیں، اسرائیلی فوج اس کیلئے مکمل طور پر تیار ہو گی، تجزیہ نگار نے بتایا کہ 2006ء کو لبنان جنگ میں تباہ کن شکست اسرائیلی دفاعی فورس کے عہدیداروں کے ذہنوں میں ابھی تک نقش ہے۔ اس جنگ میں اسرائیلی فوج حزب اللہ کے راکٹ حملوں کا جواب دینے کیلئے تیار نہ تھی جس سے اسرائیلی فوج کے وقار کو شدید قسم کا نقصان اٹھانا پڑا اور اس کی اہلیت پر کئی سوالیہ نشانات لگ گئے، لہٰذا اپنی سابقہ شرمناک شکست کے احساس کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے اس نے باراک کو ایران کے خلاف آپریشن کیلئے مکمل طور پر تیار ہونے کا سگنل دیدیا۔ 

تجزیہ نگار کے مطابق "Austere Challenge 12" مشقوں میں اہم فوجی سازوسامان اور ذرائع کی شمولیت ناگزیر تھی، مشقوں کے ملتوی ہونے سے اسرائیل کی قلیل مدتی جنگ کی صلاحیت میں کمی واقع ہو گی۔ اہم فوجی مشقوں سے متعلق تشویش کی وجہ درحقیقت یہ ہے کہ اس التواء سے اسرائیلی فوج کی ایران کے خلاف جنگ کی تیاریوں کا کمزور پہلو سامنے آ گیا ہے۔ لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ اسرائیل کمزور جنگی حکمت عملی کا مصداق ہونے کے باوجود ایران پر حملے کی تباہ کن غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے۔ امریکہ نے اسرائیل سے مشترکہ مشقیں اس لئے بھی ملتوی کر دیں کیونکہ وہ اسرائیل کو اپنے احکامات نہ ماننے پر ایک پیغام دینا چاہتا ہے کہ ایران پر حملہ اسکی چوائس، ٹائمنگ اور اہداف کے عین مطابق ہو گا اور اس بات کا فیصلہ بھی واشنگٹن کریگا نہ کہ تل ابیب۔ 

مشقیں ملتوی کرنے سے امریکہ اپنے ان اتحادیوں کو مثبت پیغام دینا چاہتا ہے جو اسرائیل کی جنگ طلبی کیخلاف ہیں کہ واشنگٹن اسرائیل کی ایران مخالف پالیسی کا حامی نہیں اور اسرائیل کی طرف سے بھڑکائی جانے والی آگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ اسرائیل کی حالیہ جنگ طلبی کی شدید خواہش بھی امریکہ اسرائیل جنگی مشقوں کے التواء کا ایک سبب ہو سکتی ہے۔ امریکہ نے تل ابیب کو اس لیے مشقوں سے دور رکھا تاکہ ان مشقوں کے انعقاد سے اسرائیل وہ " Strategic Depth " نہ حاصل کر لے جو اسے ایران پر حملہ کرنے کی غلطی پر آمادہ نہ کرے۔ امریکہ مشرق وسطی کی موجودہ صورتحال، اقتصادی ابتری اور مستقبل قریب میں ہونیوالے امریکی صدارتی انتخابات کے باعث ایران کیخلاف کسی بھی کارروائی کی مخالفت کر رہا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ کی طرف سے اسرائیل کی ایران پالیسی سے فاصلہ رکھنے کی حکمت عملی سے کچھ عرصہ پہلے، امریکی سنٹرل چیف کمانڈر جیمز این میٹس مشقوں کے بعد ایران پر اسرائیلی حملہ کے بعد ایران کے جوابی ردعمل سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کر چکے تھے۔ 

امریکی عہدیدار نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فوجی مشقوں کو ملتوی کرنے کی اپیل کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسرائیل موسم خزاں میں ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کے اپنے آپشن سے ہٹ چکا ہے، چہ جائیکہ امریکی محکمہ دفاع نے خواہش ظاہر کی ہے کہ مشقیں اکتوبر 2012ء میں ہونی چاہئیں تو اس معاملے میں صرف سیاسی مفادات حاصل کرنا مطلوب ہیں، وائٹ ہاؤس ایسی فوجی مشقوں کی نمائش کرنے میں واضح سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ یہ تاثر پیدا ہو کہ اوبامہ انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ ناممکن الوقوع فوجی تعاون بڑھا رہی ہے ۔
واشنگٹن پوسٹ کے کالمسٹ ڈیوڈ اگنیشس کے مطابق لیون پنیٹا کو یہ یقین ہے کہ اگلے چھ ماہ میں اسرائیل کی طرف سے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا شدید امکان پایا جاتا ہے۔ اس ایشو پر نظر رکھنے والے 3 امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ ایران پر اسرائیلی حملے کے بارے میں ٹھوس خفیہ معلومات نہیں رکھتا جس میں اس بات کا پتہ چلایا جا سکے کہ اسرائیل کب ایران پر حملے کا منصوبہ بنا رہا ہے؟ 

امریکی عہدیداروں کے مطابق امریکہ کی حالیہ صورتحال سے متعلق پیشنگوئی یہ ہے کہ یروشلم ان غیر یقینی اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ایسے منصوبے بنا رہا ہے جو ایران کے جوابی ردعمل میں اسے اختیار کرنا پڑ سکتے ہے لیکن اس سب کے باوجود اسرائیلی قیادت نے ایران پر حملے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
بروکنگز انسٹیٹیوٹ میں مڈل ایسٹ پالیسی کیلئے سابان سنٹر کے ڈائریکٹر، وائٹ ہاؤس اور سی آئی اے کے سابق عہدیدار اور گلف امور کے ماہر کن پولاک کہتے ہیں کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیلی حملہ سے متعلق عوامی سطح پر شروع ہو جانے والی چہ میگوئیاں اور اسرائیل رہنماؤں کی خوفناک دھمکیاں صرف ایک دھوکہ ہیں۔ اگر اسرائیل کے پاس بہترین فوجی آپشن موجود ہے تو اسے اس پر عمل کرنا چاہیئے نہ کہ صرف باتیں۔ وہ صرف دھمکیاں نہ دے، پولاک کا کہنا ہے کہ اس ساری صورتحال سے جو حقیقت میں اخذ کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اسرائیل کے پاس ایران پر حملہ کرنے کیلئے بہترین فوجی آپشن موجود نہیں ہے۔ پولاک کے مطابق ہمیں اسرائیلی حملے کے امکانات اور حالیہ دنوں میں لڑائی کے بڑھتے ہوئے اقدامات کو یکسر نظرانداز نہیں کرنا ہو گا لیکن اس کے باوجود کچھ اسباب ایسے بھی ہیں جنہوں نے 10سال سے اسرائیل کو کسی بھی قسم کا حملہ کرنے سے روک رکھا ہے۔ 

جنوری 2012ء کے پہلے ہفتے کے آغاز میں امریکی ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس جیمز کلپر نے کانگریس اور عوامی سطح پر امریکی انٹیلی جنس کے پرانے موقف کی ایک بار پھر تصدیق کی کہ ایرانی رہنماؤں نے ابھی تک ایٹمی ہتھیار بنانے کا فیصلہ نہیں کیا۔ بہت سے مغربی ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ اگر ایرانی رہنما ابھی ایٹمی ہتھیار بنانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو انہیں اس صورتحال تک پہنچنے میں ایک سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ ایران پر حملہ اور ردعمل میں ایران کی طرف سے آبنائے ہرمز کو بند کرنے سے جہاں امریکی اقتصادیات کو سنگین نقصان پہنچنے کا باعث بن سکتا ہے وہیں صدر اوبامہ کے دوبارہ انتخابات کیلئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک امریکی عہدیدار کے مطابق اسرائیل کارروائی کی پشت بانی یا حمایت کرنے سے صدر اوبامہ کو داخلی دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس موقع پر امریکہ اسرائیل کا ساتھ بالکل پسند نہیں کرے گا، اور نہ کسی مشترکہ کارروائی کا حصہ بنے گا۔ 

یورپی دفاعی مبصر جسے انٹیلی جنس ذرائع تک مکمل رسائی حاصل ہے کا کہنا ہے کہ جب ایران کا رویہ نسبتاً واضح اور جوابی ردعمل کے حوالے سے ناقابل پیشنگوئی ہے تو اس صورت میں اسرائیلی موقف سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بہت زیادہ غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 143195
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش