0
Wednesday 29 Feb 2012 21:16

اسرائیل کی جنگ طلبی، علاقائی استحکام کیلئے سنگین خطرہ (قسط اول)

اسرائیل کی جنگ طلبی، علاقائی استحکام کیلئے سنگین خطرہ (قسط اول)
تحریر: زاہد مرتضی 
 
وہی نیوکونز جنہوں نے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو ایک جھوٹ کے سہارے عراق پر حملہ کرنے پر قائل کر لیا تھا، ان دنوں بڑے زور و شور سے ایران کیخلاف جنگ کیلئے طبل بجا رہے ہیں، یہ جنگ طلب امریکیوں کیلئے ایک اور ویت نام جیسی جنگ کے خواہشمند ہیں۔ آج کل اسرائیلی و امریکی میڈیا میں ایک ہیجان برپا ہے، ایران پر حملے سے متعلق خبریں، آراء و تبصروں کی ایک مہم جاری ہے، اس طوفانِ جنگ طلبی کے پیچھے اسرائیلی حکومت کی خواہش چھپی ہوئی ہے، جسے صیہونی لابی ایک عرصے سے اپنے دل میں بسائے بیٹھی ہے۔ البتہ یہ بات انتہائی نمایاں ہے کہ ایران کیخلاف ممکنہ جنگ کے پراپیگنڈے کی بنیاد ایک ایسے جھوٹ کی بنیاد پر رکھی جا رہی ہے جس کا مظاہرہ دنیا اس سے قبل عراق کیخلاف جنگ کی صورت میں دیکھ چکی ہے۔ درحقیت یہ کوششیں ایران کو جنگ کے خوف میں مبتلا کر کے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں، ان قوتوں کی یہ خواہش ہے کہ ایران اپنے پرامن ایٹمی پروگرام کے حق سے دستبردار ہو جائے، جو اسرائیل اور بعض عرب ممالک کی شدید ترین خواہش ہے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کو اپنا حق قرار دیکر ہر قسم کے ڈر، خوف اور دباؤ کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھا ہے۔
 
فروری کے پہلے ہفتے میں اسرائیل کی سکیورٹی سے متعلق اہم فیصلے کرنے کی حامل ہرزلیہ کانفرنس منعقد ہوئی، جو اکثر و بیشتر خبروں کیلئے اہم ہیڈلائن فراہم کرتی ہے، اس مرتبہ کانفرنس میں ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے سے متعلق بحث اہم موضوع بنی رہی۔ صرف ڈیڑھ ماہ قبل اسرائیل کی ڈیفنس فورس کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل بینی گانتز اور سربراہ ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل ایود کچاوی کیلئے ایران سے متعلق بند کمروں میں ہونے والی گفتگو سے آگاہی فراہم کرنا ناممکن ہوتا تھا، لیکن کانفرنس کے بعد انہوں نے عوامی سطح پر کھلے طور پر ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق اپنے خیالات ظاہر کر دیئے۔
 
ایران کا ایٹمی پروگرام کس مرحلے میں ہے؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ اور اسے ختم کرنے کیلئے ایک ٹھوس ملٹری آپریشن کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی ایرانی خطرے سے نمٹنے کیلئے ایک مضبوط فوجی آپریشن ضروری قرار دے چکے ہیں لیکن اسرائیلی ملٹری چیف بینی گانتز، سربراہ خفیہ سیکرٹ سروس کچاوی اور وزیر دفاع ایہود بارک کی طرف سے اظہار کسی اور بات کی نشاندہی کر رہا ہے۔ 2 فروری 2012ء کو ایہود بارک کا بیان سابقہ بیانات سے کافی مختلف تھا، جس میں اس نے یہ کہا کہ اگر ایران پر پابندیاں بے اثر رہیں تو اسرائیل خود ایران کے خلاف کارروائی کرے گا لیکن ایسا کب ہو گا؟ بارک نے اس بارے میں کوئی وقت مختص نہیں کیا تھا، لیکن واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سیکرٹری دفاع لیون پنیٹا نے کالمسٹ ڈیوڈ اگنیشس کو انٹرویو میں یہ انکشاف کر دیا کہ اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اپریل، مئی یا جون میں حملہ کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پنیٹا کیسے اس نتیجے پر پہنچے ہیں، غالباً وہ ایہود بارک سے جولائی 2011ء سے لیکر اب تک تل ابیب اور واشنگٹن میں ہونے والی ملاقاتوں کے دوران گفتگو سے اس نتیجے تک پہنچتے ہیں۔
 
اہم سوال یہ ہے کہ اس دوران ایسی کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں کہ پچھلے کچھ دنوں سے اسرائیل کی اعلٰی سیاسی اور فوجی قیادت کھلے عام عوامی سطح پر ایران سے متعلق گفتگو کرنے لگی ہے۔ ان کی معروضی دھمکیوں کا مطلب کیا ہے؟ اگر اسرائیل مستقبل قریب میں ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تو کیا ایرانی رہنما اس بات کا ادراک نہیں رکھتے کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا اور کیا وہ حیران کن طور پر اپنی آپریشنل فورس کو روکے رکھیں گے۔ اس بات کا واضح جواب نہیں۔ لیکن اس بات کا مضبوط امکان موجود ہے کہ اسرائیل عالمی برادری کو یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ وہ ایران کے خلاف فوجی حملہ کرنے میں سنجیدہ ہے۔ لہٰذا عالمی برادری اس کے بدلے میں ایران پر اقتصادی پابندیوں کی شدت میں بتدریج اضافہ کرتی رہے۔ 

واشنگٹن پوسٹ میں لکھے ڈیوڈ اگنیشس کے کالم کے مطابق اسرائیل، ایران حکومت کو یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ اگر اس نے یورینیم کی افزودگی نہ روکی تو اس پر یقینی طور پر حملہ کر دیا جائے گا۔ 2فروری کو اسرائیلی نائب وزیراعظم موشے بالون نے کہا کہ سخت فوجی کارروائی کی دھمکی ایران کو اس کے حالیہ اقدامات سے روک سکتی ہے۔ گانتز، کچاوی ،باراک اور بالون کا ایران سے متعلق بے لاگ اظہار خیال کرنے کا مقصد ’’وقت‘‘ ہے۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اگر ایران کے ایٹمی پروگرام کو اس وقت نہ روکا جا سکا تو 2012ء کے آخر تک ایران استثنائی زون (zone of Immunity) میں داخل ہو جائے گا، جس کے بعد کوئی بھی حملہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو تباہ نہیں کر سکے گا۔ اسرائیلی حکومت اور دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ آئندہ چند ماہ بہت اہم ہیں اور ہم دنیا کو ایک موقع فراہم کر رہے ہیں، جو دوبارہ اس کے ہاتھ نہیں آئے گا۔ پس اسی لیے اسرائیل اس طرح کی باتوں کی ضرورت محسوس کر رہا ہے کہ وہ ایران پر حملہ کرنے جا رہا ہے۔
 
اس ساری صورتحال کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فقط اسرائیل ہی نہیں امریکہ، یورپ اور ان کے عرب اتحادی بھی ایران کے ایٹمی پروگرام میں پیش رفت سے خائف ہیں، اپنے اپنے مفادات کے اسیر یہ اتحادی ایران کی تیز ترین اقتصادی، دفاعی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ترقی کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، حقیقت یہ ہے کہ ایران کے خلاف جنگ کا جو ہوا کھڑا کیا جا رہا ہے اس کی بنیاد جھوٹ پر استوار کی جا رہی ہے، ایٹمی ہتھیار کے انبار ان شیطانی ممالک نے خود اکٹھے کر رکھے ہیں لیکن الزام ایران پر عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو اس لیول تک لے جانا چاہ رہا ہے جہاں ایٹمی ہتھیار بنانا اس کے لئے مسئلہ نہیں رہے گا، وہ اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود نہیں، لیکن اس کے پاس موجود ٹیکنالوجی اسے کسی بھی وقت ایٹمی قوت بنا سکتی ہے، اس لئے اسے استثنائی زون میں پہنچنے سے روکنے کیلئے طوفان بدتمیزی برپا کیا جا رہا ہے۔ 

اس سلسلے میں لاس اینجلس ٹائمز میں حال ہی میں چھپنے والی ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیں، جس میں کہا گیا ہے کہ عالمی ادارہ توانائی اور عالمی قوتیں اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ایران کے پاس کوئی ایٹمی ہتھیار نہیں اور نہ ہی اس بات کا اعلانیہ اظہار کیا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایٹمی ہتھیار بنانے میں مصروف ہے، ایران نے کبھی بھی اسرائیل کے خلاف کسی فوجی حملے کے عزم کا اظہار نہیں کیا، جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس 200 سے 400 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، تو اس تناظر میں دنیا اور اسرائیل کیلئے حقیقی خطرہ کون ہے، اسرائیل یا ایران؟

درحقیقت اسرائیل ایران پر حملے کی ضد کر کے پوری دنیا کو ایک تکلیف دہ صورتحال میں دھکیلنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ لاس اینجلس ٹائمز نے فروری میں امریکہ کی 16 انٹیلی جنس ایجنسیوں کی متفقہ طور پر تیار کی گئی ایک حالیہ رپورٹ کے حوالے سے بھی انکشاف کیا ہے کہ ایران جوہری ریسرچ ضرور کر رہا ہے جو اسے ایٹمی ہتھیار بنانے کے مرحلے میں داخل کر سکتی ہے لیکن ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار اس وقت موجود نہیں، رپورٹ کیمطابق ایران نے 2003ء میں جوہری ہتھیار بنانے کی کوششیں روک دی تھیں۔
 
اس وقت تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ایران پر حملے کے حوالے سے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان سخت اختلاف پایا جاتا ہے، اسرائیل ایران پر فوری حملے کا خواہشمند ہے جبکہ امریکہ خطے میں موجود اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے اسرائیل کو اکیلے حملے کا حق دینے کے سخت خلاف ہے،
ایسے حالات میں جب اسرائیل، ایران پر حملے کی کھلی دھمکیاں دے رہا ہے، امریکی چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے 20جنوری کو اسرائیلی رہنماؤں کو اس بات سے آگاہ کر دیا کہ امریکہ ایران کے خلاف شروع کی جانے والی اسرائیل کی جنگ میں شریک نہیں ہو گا کیونکہ اس کے بارے میں واشنگٹن سے پہلے کوئی اجازت نہیں لی گی۔
 
یعنی امریکہ ایران کے خلاف اسرائیل کی ایسی کسی جنگ میں شریک نہیں ہو گا جو واشنگٹن سے بغیر کوئی اجازت لیے شروع کی جائے گی۔ جنرل ڈیمپسی کی وارننگ دونوں اسرائیلی عہدیداروں، وزیراعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع ایہود بارک تک پہنچا دی گئی ہے۔ امریکی صدر اوبامہ نے اس پیغام کو اسرائیلی حملے کے خلاف ایک مضبوط Deterrent کے طور پر پیش کیا ہے اور یہ یقین دہانی کرا دی کہ امریکہ خطے میں ایران کے خلاف دھکائی جانے والی جنگ کی وسیع آگ کا ایندھن نہیں بننا چاہتا۔ لیکن اسرائیل حکومت ایران کے خلاف جنگ لڑنے کے اپنے سرکشی پر مبنی آزادانہ ایکشن پر اصرار کر رہی ہے۔
 
جنرل ڈیمپسی کے ذریعے نیتن یاہو کو پہنچایا جانے والا پہلا واضح موقف تھا، امریکی سیکرٹری دفاع لیون پینٹا نے بھی 8 جنوری کو FaceThe Nation پروگرام میں ایک انٹرویو کے دوران واضح اشارہ دیا ہے کہ امریکہ اسرائیل کی طرف سے ایران کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ میں اسرائیل کے دفاع میں اس کی مدد نہیں کرے گا۔ جب پوچھا گیا کہ اگر اسرائیل نے ایران کے خلاف یکطرفہ حملہ کیا تو امریکہ کا کیا ردعمل ہو گا؟ تو پنیٹا نے زور دے کر کہا کہ ایران کے بارے میں اسرائیل سے مل کر ایک مشترکہ پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب میزبان باب شیفر نے سوال دہرایا تو پنیٹا نے کہا کہ اگر اسرائیل ایسا فیصلہ کرتا ہے تو اس صورتحال میں ہمیں اپنی فورسز کے دفاع کیلئے تیار رہنا ہو گا، اور اس معاملے میں یہی ہماری دلچسپی کا پہلو بھی ہے۔
 
جنرل ڈیمپسی کے دورے سے لے کر اب تک نیتن یاہو حکومت کے اس موقف میں تبدیلی کے کوئی شواہد موجود نہیں کہ وہ ایران پر حملہ کرنے میں آزاد ہیں۔ جو اسرائیل اور امریکہ کے ایران پر موجود موقف میں بظاہر تضاد کی نشاندہی کرتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ خطے میں اپنے مخصوص مفادات کو لاحق خطرات کی وجہ سے فی الوقت ایران پر حملہ کرنے کی پالیسی سے گریزاں ہے، امریکہ کے مفادات اس وقت شدید خطرے کی زد میں ہونگے جب ممکنہ اسرائیل حملہ کی صورت میں اسلامی جمہوریہ ایران اپنے دفاع کے حق کو استعمال کرتے ہوئے صہیونی ناجائز ریاست کے ممکنہ حملے کیخلاف اپنے بھرپور ردعمل کا اظہار کریگا اور اسلامی جمہوریہ کے اسی جوابی حملے کے خطرے کے پیش نظر امریکہ خوفزدگی کا شکار ہے۔
خبر کا کوڈ : 141848
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش