0
Friday 6 Nov 2009 20:04

ہلیری کلنٹن کا دورہٴ پاکستان

ہلیری کلنٹن کا دورہٴ پاکستان
آغا مسعود حسین
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن گذشتہ ہفتے تین دن کے دورے پر پاکستان آئیں اور یہاں اپنے قیام کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت امریکہ کی پالیسیوں پر ناخوش ہے۔تاہم وہ پہلی امریکی وزیر خارجہ ہیں جنہوں نے عوام کے مختلف طبقات سے ملاقاتیں کیں جن میں طلبہ،دانشور،خواتین،میڈیا اور تاجر شامل تھے۔ اس سے پہلے کسی بھی بڑے امریکی عہدیدار نے یہ طریقہٴ کار اختیار نہیں کیا تھا۔ ہلیری کلنٹن نے براہ راست عوام کے نمائندوں سے مل کر یہ محسوس کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑی خلیج حائل ہے جس کو پُر کر کے ہی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ امریکہ واپس جاتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو جلد جامع مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے تا کہ اس خطے میں پائیدار امن کے آثار ظاہر ہو سکیں۔ تاہم انہوں نے اس سلسلے میں امریکہ کے کردار کا کوئی ذکر نہیں کیا۔حالانکہ اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا واضح جھکاؤ بھارت کی طرف ہے۔ چنانچہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جامع مذاکرات میں امریکہ ایک اہم رول ادا کر سکتا ہے۔جو کہ بعض وجوہ کی بنا پر نہیں کر رہا ہے۔ ہلیری کلنٹن نے اس سلسلے میں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا اور محض یہ کہہ کر سوال ٹال دیا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جامع مذاکرات شروع ہونے چاہئیں۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان مفاہمت ہو جاتی ہے تو اس صورت میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف بھرپور جنگ لڑی جا سکتی ہے۔کیونکہ اس وقت صرف پاکستان ہی نہیں،ہندوستان بھی دہشت گردی کا شکار ہو رہا ہے۔ اس وقت سینٹرل بھارت میں ہزاروں نکسل باڑی (ماؤسٹ) نے مرکزی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں اور بھارت کی کم از کم 20 ریاستوں میں ان کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔جو بھارت کے داخلی اتحاد کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے پیرا ملٹری فورس اور پولیس فورس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماؤسٹ بھارت کے اتحاد اور سالمیت کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن رہے ہیں،اس لئے بھارت نے گذشتہ اتوار سے ماؤ نوازوں کے خلاف آپریشن گرین ہنٹ شروع کیا ہے جس میں تین لاکھ سے زائد بھارتی فوجی پیرا ملٹری فورس اور پولیس فورس حصہ لے رہے ہیں۔ بھارتی حکام کا خیال ہے کہ وہ جلد ہی ان ماؤسٹوں کا خاتمہ کر دیں گے اور متاثرہ ریاستوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنا دیں گے لیکن بھارت کے صحافیوں کا خیال ہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت ماؤسٹ کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔کیونکہ انہیں ان علاقوں کے عوام کی حمایت حاصل ہے اور ماؤسٹ مرکزی حکومت کے خلاف اس لئے برسر پیکار ہیں کیونکہ ان کے ساتھ ملازمتوں اور زمینوں کی ملکیت کے سلسلے میں شدید ناانصافیاں کی گئی ہیں۔ ابھی حال ہی میں اڑیسہ اور چھتیس گڑھ سے سیکڑوں نکسل باڑیوں کو ان کی زمینوں سے ترقی کے نام پر بے دخل کیا گیا ہے جبکہ انہیں کوئی متبادل زمین بھی نہیں دی گئی۔ ہر سال نئے کارخانوں کی تعمیر کے سلسلے میں ان علاقوں سے نہ صرف جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے بلکہ یہاں کے مقامی لوگوں کو چھوٹے موٹے روزگار سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ان نکسل باڑیوں نے اس کھلی ناانصافیوں کے خلاف مرکزی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں اور طبل جنگ بچ چکا ہے۔ بھارت اپنی فوج اور پیرا ملٹری فورس کے ذریعے ان کا قلع قمع کرنا چاہ رہا ہے۔جس میں کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ ماؤسٹ تحریک تقریباً پورے وسطی بھارت میں پھیل چکی ہے اور اس تحریک میں وہ تمام چنے ہوئے لوگ شامل ہو رہے ہیں جنہیں نہ تو کسی قسم کا روزگار میسر ہے اور نہ ہی سماجی تحفظ جبکہ ماؤسٹ نے جن علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے وہاں وہ مکینوں کو ان کی ضروریات کے مطابق ہر چیز مہیا کر رہے ہیں۔ آپریشن گرین ہنٹ کے بارے میں بھارت کے بعض چوٹی کے دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کی چھ لاکھ فوج کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے تو بھلا وہ ماؤسٹوں کو کس طرح ختم کر سکتی ہے جو بھارت کے ایک وسیع علاقے پر قابض ہیں۔ اس طرح بھارت نکسل باڑیوں کی صورت میں دہشت گردی کا شکار بن چکا ہے جبکہ وہ اس سلسلے میں پاکستان کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا ہے حالانکہ پاکستان کی قیادت مسلسل بھارت کو یہ باور کرا رہی ہے کہ ہم دونوں مل کر اس دہشت گردی کو ختم کر سکتے ہیں کیونکہ یہ اب ایک علاقائی مسئلہ بن چکا ہے اور اس مسئلے کو علاقائی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ جب تک اس ریجن کے تمام ممالک باہم مل کر دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف اپنے آپ کو منظم نہیں کریں گے صورتحال میں بہتری کے آثار پیدا نہیں ہو سکیں گے۔جس کی وجہ سے ان ممالک میں تیز رفتار معاشی و سماجی ترقی کے آثار بھی معدوم ہونے لگیں گے ۔
جب غربت،محرومی اور ناداری میں اضافہ ہو گا تو اسی تناسب سے مختلف النوع قسم کے جرائم بھی پیدا ہوں گے جو قانون کی پابندی کرنے والوں کی زندگیاں اجیرن کر دیں گے جبکہ اس وقت بھارت، پاکستان اور افغانستان میں قانون توڑنے والوں کا راج بڑھتا جا رہا ہے۔
چنانچہ امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینا درست نہیں ہے،یہ بھی نامناسب بات ہے کہ صرف پاکستان کو القاعدہ کی جانب سے امریکہ یا پھر کسی اور ملک کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے بلکہ یہ پورا خطہ جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا ہے کہ دہشت گردوں کی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔جس کے انسداد کیلئے اس خطے کی حکومتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے نیز اس خطے کے ملکوں کو،خصوصاً بھارت اور افغانستان کو دوسرے ملکوں مثلاً پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہئے اور امریکہ کو چاہئے کہ وہ بھارت کو پاکستان میں دہشت گردی کو پھیلانے سے روکے۔اسی طرح سے دہشت گردوں کی کارروائیوں کو روکا بلکہ ختم بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کو کمزور کر کے اور پاکستان دشمن طالبان اور دیگر عناصر کو مالی اور دیگر امداد دے کر کمزور کیا جا سکتا ہے یا اس کی معیشت کو تباہ کیا جا سکتا ہے تو بھارت بھی جلد یا بدیر ان عناصر کی لپیٹ میں آسکتا ہے اور اس کا بھی وہی انجام ہو سکتا ہے جو وہ پاکستان کیلئے چاہتا ہے۔ ماؤسٹ کی تحریک اور اس کے خلاف بھارت کی فوج اور پیرا ملٹری فورس کی کارروائیاں یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ اب بھارت بھی مکمل طور پر دہشت گردی کی لپیٹ میں آ چکا ہے جس سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اس علاقے کے تمام ممالک کے ساتھ دہشت گردی کو ختم کرنے میں تعاون کرے ورنہ طبل جنگ تو بج چکا ہے۔

خبر کا کوڈ : 14534
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش