0
Wednesday 4 Nov 2009 13:24

ہیلری کلنٹن کا دورہ پاکستان

ہیلری کلنٹن کا دورہ پاکستان
”اگر پاکستان سمجھتا ہے کہ کیری لوگر قانون کے تحت اس کو دی جانے والی ترقیاتی منصوبوں کے لئے درکار پانچ سالوں کے لئے 7.5 ارب ڈالر کی امداد اس کے لیے سود مند نہیں ہے تو وہ نہ لے کیونکہ امریکا اسے مجبور تو نہیں کر رہا ہے۔“ یہ بات امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے صحافیوں سے دوران گفتگو کہی۔ دراصل اس نے پاکستان کے عیش پسند اور بدعنوان حکمرانوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ جہاں تک پاکستان کے غیور اور جفاکش عوام کا تعلق ہے تو وہ تو ایسی مشروط امداد کو مسترد کرنے میں ذرا دیر نہیں کریں گے۔ کیونکہ وہ تو پہلے ہی نیم فاقہ کشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں نہ انہیں درآمد کردہ بلٹ پروف گاڑیوں کی ضرورت ہے، اور نہ دور دراز ممالک میں معہ اہل و عیال سیر و سیاحت کا شوق ہے۔ انہیں تو بغیر رشوت دیے بینک سے قرض ہی نہیں ملتا نہ ہی ان کا ہاضمہ پنج ستارہ ہوٹلوں کی ثقیل اور مرغن غذا کا متحمل ہو سکتا ہے۔ یہ مسئلہ ان حکمرانوں کا ہے جنہوں نے غریب عوام پر 55 ارب ڈالر کا قرض لاد دیا ہے۔ جس کی سالانہ شرح سود کی رقم کی ادائیگی بھی مزید قرض لیے بغیر ادا نہیں ہو سکتی۔ بھلا وہ حکمران طبقہ جس نے سولہ کروڑ عوام کا بال بال قرض میں جکڑ لیا ہے،جس نے ملک کے اثاثوں کو اونے پونے داموں اغیار کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے،ملک کو اندھیرے میں دھکیل دیا ہے اور منافع خوروں اور ٹرانسپورٹ مافیا کو لوٹ کھسوٹ کے کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ کیسے اپنے امریکی آقاﺅں کے دسترخوان سے پھینکی ہوئی ہڈیوں پر اپنی رال ٹپکنے سے روک سکتا ہے؟ البتہ ہمارے محب وطن صحافیوں اور نوجوانوں نے امریکی مہمان خاتون کو کھری کھری سنائی۔جسے وہ پی تو گئیں لیکن بعد ازاں اپنا دبا ہوا غصہ کاروباری معززین اور صحافیوں پر اتارا۔ انہوں نے نہ صرف حکومت پاکستان بلکہ عوامی رہنماﺅں پر الزام لگایا کہ وہ جانتے ہوئے بھی اس حقیقت سے انکار کر رہے ہیں کہ القاعدہ ان کے ملک میں موجود ہے۔ اس کے جواب میں کہا گیا اس کا ذکر کم از کم روزنامہ ڈان مورخہ 30 اکتوبر کی خبر میں نہیں کیا گیا۔ یاد رہے کہ ہیلری کلنٹن نے ہندوستان میں کہا تھا کہ القاعدہ پاکستان سے امریکا اور ہندوستان پر حملے کرتا ہے۔ اس کا انہوں نے کوئی ثبوت نہیں فراہم کیا۔چنانچہ پاکستان کے دفتر خارجہ کو کلنٹن کی اس دروغ گوئی پر سفارتی احتجاج کرنا پڑا۔ لیکن یہ سلسلہ بند نہیں ہوا۔ پاکستان میں متعین امریکی سفیرہ این پیٹرسن اور اس کے ماتحت نے اخبارات میں دعویٰ کیا کہ کوئٹہ میں موجود طالبان شوریٰ درحقیقت عسکریت پسندوں کا مرکز ہے اور ملا عمر آزادی سے سرحد پار جاتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ چلیے پاکستان کی ایجنسیاں چشم پوشی کرتی ہیں لیکن جب وہ افغانستان جاتے ہیں تو اس پر قابض امریکی فوج ان کو کیوں نہیں گرفتار یا ہلاک کر دیتی؟ ہر چند کے حکومت پاکستان اور عسکری قیادت نے امریکا سے کہا کہ وہ انہیں ان کا کوئی پتا اور نشان تو بتائے تا کہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ مسز کلنٹن کا دورہ دوستی کا سفر بتایا جاتا ہے اور وہ بقول خود یہاں سننے اور سنانے آئی تھی۔ اس نے القاعدہ کی پاکستان میں موجودگی کا دعویٰ تو کیا لیکن پاکستانی حکومت اور فوجی قیادت کی یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہے کہ مقبوضہ افغانستان میں بھارت کے قونصل خانے تخریب کاروں کو پاکستان میں داخل کر رہے ہیں اور بھارت اور کرزئی انتظامیہ بلوچستان میں مداخلت کر رہی ہے۔ پاکستان پر دڑون حملوں کا ذکر کرتے ہوئے ہیلری کلنٹن نے کہا کہ اس مسئلے کو تو امریکی اور پاکستانی فوجی قیادتیں حل کر سکتی ہیں اس سے قبل صحافیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں۔ یعنی جنگ میں سب کچھ جائز ہے لیکن ہیلری کو معلوم ہونا چاہیے کہ قانون جنگ کے تحت ایسی فوجی کارروائی جس میں غیر متحارب ہلاک ہو رہے ہوں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ اسی موضوع پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے تفتیش کنندہ اور نیو یارک یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر PHILIP ALSTON نے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں کو قانون انسانیت International Humanitarian Law کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ (ڈان 29 اکتوبر 2009ئ) جب کہ امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ جب ایسے کسی حملے میں سو افراد ہلاک ہوتے ہیں تو اس سے امریکا کے ایک لاکھ دشمن ہو جاتے ہیں۔ ہیلری کلنٹن کی پیش رو خاتون میڈیلین آلبرائٹ سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ عراق پر امریکا کی عائد کردہ پابندیوںکے باعث ادویات اور خوراک نہ ملنے سے پانچ لاکھ بچے جاں بحق ہو گئے تو کیا ایسی قیمت پر جنگ جاری رکھنا ضروری ہے؟ تو اس شقی القلب عورت نے کہا کہ اس سے جنگ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہیلری کلنٹن نے پاکستان میں حکومت اور فوج کو اخباری بیان کے ذریعے تحکمانہ لہجے میں کہا کہ سوات اور وزیرستان کی جنگ ختم ہو گئی ہے لہذا اب دوسرے علاقوں میں القاعدہ کے خلاف جنگ جاری رکھی جائے۔ (ڈان 31 اکتوبر 2009ئ) یعنی کوئٹہ اور مریدکے پر امریکا کے حکم سے فوج کشی کی جائے۔ یہ تو کیری لوگر بل قانون کی شق میں شامل ہے جسے قوم مسترد کر چکی ہے جیسا کہ جماعت اسلامی کے ملک گیر ریفرنڈم سے روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے چونکہ حکمرانوں نے یہ بل پارلیمان کی منظوری کے بغیر تسلیم کر لیا تو اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ وہ امریکا کے حکم پر ان علاقوں کو بھی نشانہ بنائیں گے یعنی قبائلی عمائدین اور ارکان پارلیمان نے اسلام آباد میں دوران گفتگو ہیلری کلنٹن کو ڈرون حملے بند کرنے کو کہا تو اس نے کورا سا جواب دیا کہ امریکا پاکستان کی سالمیت کا احترام ضرور کرتا ہے تاہم دہشت گرد جہاں بھی ہوں گے امریکا ان پر حملے کرے گا۔ (اسلام 31 اکتوبر 2009ئ) اس بات پر وائٹ ہاﺅس کے ترجمان رابرٹ گیٹس نے ہیلری کلنٹن کی پر زور تائید کی(ڈان 31 اکتوبر 2009ئ) اب یہ فیصلہ حکومت اور فوجی قیادت کو کرنا ہے کہ کیا وہ امریکا کے کہنے پر ملک کے ہر حصے میں محض اس شبہہ پر کہ وہاں القاعدہ موجود ہے فوجی کارروائی کرے گی۔ یعنی کوئٹہ اور جنوبی پنجاب میں۔ اب اگر متاثرین فرار ہو کر ملک کے دوسرے شہروں میں پھیل جائیں تو کیا افواج پاکستان ان کا تعاقب کرتی ہوئی وہاں تک جائیں گی؟ ؟ ایک رہنما نے سات سمندر پار سے کراچی میں طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے خلاف واویلا مچایا تھا تو کیا افواج پاکستان کراچی جیسے گنجان آباد شہر پر جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں اور لمبی مار کرنے والی توپوں سے بمباری اور گولا باری کریں گی؟ اس وقت مقامی آبادی جائے پناہ کی تلاش میں کہاں جائے گی؟ سمندر میں؟ اسی طرح امریکا نے نکارا گوا میں سمندر کی ناکہ بندی اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور سی آئی اے اور اس کے کرائے کے تخریب کاروں سے اندرون ملک دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا تھا تو نکاراگوا کی حکومت نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے رجوع کیا،چنانچہ اس نے جون 1986ء میں امریکا جارحیت کا الزام لگاتے ہوئے اسے نکاراگوا کا محاصرہ اور اس کے سمندری اور فضائی حدود کی خلاف ورزی سے باز رہنے کی تنبیہہ کی۔ کیا حکومت پاکستان ڈرون حملوں کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاسکتی؟ کیا وہ سلامتی کونسل میں امریکا کی جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ کے منشور کی شق 33 کے تحت شکایت نہیں کر سکتی؟ ہیلری کلنٹن نے پاکستان کے غیور عوام کے تیور تو دیکھ لیے ہوں گے کہ اگر امریکا پاکستان پر فوج کشی کرتا ہے تو اسے 16 کروڑ عوام سے لڑنا ہو گا۔



خبر کا کوڈ : 14420
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش