0
Tuesday 10 Apr 2012 23:11

حماس کبھی الفتح نہیں بنے گی(3)

حماس کبھی الفتح نہیں بنے گی(3)
تحریر:زاہد مرتضیٰ

سینائی میں کافی جنگجو گروپس موجود ہیں جو گلوبل جہاد کی آئیڈیالوجی کو اپنا رہے ہیں اور انہیں ایران کی سرپرستی حاصل ہے۔ ایران نہ صرف سینائی بلکہ پورے مصر اور فلسطینی تنظیموں میں سے بھی جوانوں کو تربیت کیلئے بھرتی کر رہا ہے۔ گلوبل جہاد کیلئے عراق، افغانستان، یمن اور سعودی عرب سے بھی بھرتی جاری ہے۔ اسرائیلی آفیسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل اور مصر ان عناصر سے نمٹنے میں یکساں مفادات رکھتے ہیں۔ بہت سی فلسطینی تنظیمیں سینائی کے علاقے کو اپنی کاررواؤں کیلئے موزوں علاقہ سمجھتی ہیں۔ یہ تنظیمیں اس علاقے میں اسلحہ کی ایک بڑی کھیپ بھی پہنچا چکی ہیں، جہاں سے اسے مصر اور پھر غزہ منتقل کیا جائے گا۔

اسرائیلی کالمسٹ کی یہ سٹوری جب تک ٹھوس شواہد پیش نہیں کرے گی ایک پراپیگنڈہ ہی تصور کیا جائے گا کیونکہ جیسے اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اسرائیل درحقیقت عالمی رائے عامہ کو ایران پر حملے کے اپنے منصوبے کے حق میں ہموار کرنے کیلئے ایسی کہانیوں کا سہارا لے رہا ہے تاکہ ایران کا عالمی تشخص مجروح کیا جا سکے اور یہ ثابت کیا جائے کہ ایران ہی دراصل خطے اور دنیا میں امن و امان کی خرابی کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا اگر ایران نے ایٹمی ہتھیار حاصل کر لیے تو اس سے دنیا کا امن اور خطے کی اسٹریٹجک توازن بگڑ جائے گا، جس سے امریکی و یورپی مفادات اور اسرائیل کا وجود خطرناک صورتحال سے دوچار ہو جائے گا۔ اس لیے دنیا اسرائیل کے ایران پر حملے کے موقف کی حمایت کرے۔

اسرائیل یہ بھی چاہتا تھا کہ ایسے وقت میں جب وہ ایران پر حملے کا شدید خواہشمند ہے، اگر (خدانخواستہ) مستقبل قریب میں کوئی ایسی صورتحال پیش آتی ہے تو جوابی ردعمل میں فلسطینی جہادی تنظیمیں کیا Tactic استعمال کرتی ہیں۔ دوسرے معنوں میں وہ فلسطینی مزاحمتی کا ردعمل جاننے کا طلبگار تھا۔ چہ جائیکہ اس مختصر جنگ میں غزہ کی صرف دو مزاحمتی تنظیموں اسلامک جہاد اور پاپولر کمیٹی نے اسرائیلی اشتعال انگیزی کا جواب دیا اور مزاحمت کا ایک بڑا حصہ اس جنگ میں شریک نہیں ہوا۔ اسلامک جہاد نے اس 4 روزہ جنگ میں 200 راکٹ فائر کئے، جو 2006ء کی 33 روزہ حزب اللہ اور 2008ء کی 33 روزہ حماس اسرائیل جنگ کے ایک راؤنڈ میں فائر کرنے کی صلاحیت سے زیادہ ہیں۔ اسلامک جہاد کے اوسط ایک راؤنڈ میں 50 راکٹ فائر کیے اگرچہ اسرائیل نے حالیہ مختصر جنگ میں اپنے جدید ترین میزائل انٹرسیپٹریونٹ (Iron Dome) کا تجربہ کیا ہے۔

بعض تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ حالیہ لڑائی درحقیقت اسی یونٹ کی کارکردگی کو جانچنے کیلئے لڑی گئی۔ آئرن ڈوم ایک باصلاحیت نظام ہے، ابتدائی طور پر اس کی تین بیٹریاں جنوبی شہروں اشکلون، اشدور اور بیئر شیوا میں نصب کی گئی تھیں جبکہ ایک مزید بیٹری زیر تکمیل ہے جو جلد اسرائیلی فوج کے حوالے کر دی جائے گی۔ یہ سسٹم ہر راکٹ کو روکنے (Intercept) کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ خود تشخیصی صلاحیت کا حامل یہ میزائل سسٹم چند سیکنڈوں میں اندازہ کر لیتا ہے کہ فائر کیا جانے والا راکٹ شہری آبادی کو نشانہ بنائے گا یا نہیں۔ غزہ سے فائر کئے گئے 70 فیصد راکٹس اس میزائل سسٹم نے تباہ کر دیئے۔ ایک یہودی کالمسٹ لکھتا ہے کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک " غزہ میڈ" فلسطینی راکٹ پر سینکڑوں شیکل (اسرائیلی کرنسی) خرچ آتے ہیں جبکہ ایک آئرن ڈوم میزائل کی قیمت 315 ہزار شیکل ہے۔ غزہ کی طرف سے فائر کیے گئے 200راکٹ میں سے 169 راکٹس آئرن ڈوم سسٹم نے روکے جس کی مجموعی لاگت 17.6 ملین شیکل بنتی ہے۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فضائی آپریشن کی مالیت دسیوں ملین شیکل ہے۔ ہر گھنٹے کی فلائٹ پر 100ہزار شیکل یعنی 25 ہزار ڈالر بنتی ہے۔

اسرائیل نے اسلامک جہاد کے غزہ میڈ راکٹس کو تباہ کرنے کیلئے کیا ہی بہترین راہ حل تلاش کیا ہے۔ اس بات پر یقین کرنا کتنا مشکل ہے کہ کوئی ریاست اپنے شہریوں کی جان و مال کو داؤ پر لگا کر ایسے میزائل سسٹم کا خطرناک تجربہ کرے گی۔ کیا یہ ناجائز ریاست حماس، حزب اللہ اور شام کے ممکنہ رد عمل سے محفوظ رہنے کیلئے بھی ایسے ہی تجربات کرے گی، کیا ایران پر حملہ کا مقصد حاصل کرنے کیلئے بھی ایسا ہی منصوبہ بنایا جائے گا۔ دراصل غزہ کے باسیوں کی زندگیاں بڑی طاقتوں اور خود بعض عربوں کی نظر میں بیکار اور پست ہیں، میں یہ سوچ کر حیران ہوں کہ دنیا شام میں بشار الاسد حکومت کو گرانے کیلئے کتنی سرگرمی اور فعالیت کا مظاہرہ کر رہی ہے، عرب لیگ، اقوام متحدہ دمشق میں بھاری بھر کم وفود وہاںی صورتحال کی مانیٹرنگ کیلئے بھیجتے ہیں۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں برطانیہ، فرانس اور نیٹو نے عرب بیداری کی لہر میں کتنا فعال کردار ادا کیا لیکن 40 سال سے اپنے مقبوضہ علاقوں کے حصول کیلئے قربانیاں دینے والے غزہ کے مظلوم عوام کیلئے کچھ بھی نہ کر سکے، عرب حکمران بھی فلسطینی کاز کو نظر انداز کرنے میں اسی قدر گناہگار ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب اسرائیل غزہ پر بمباری کرکے 600 فلسطینی شہریوں کے مکانات مسمار، 26 فلسطینی بچوں، عورتوں اور جوانوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا تھا۔ عرب مقبول میڈیا چینلز کی ہیڈ لائنز ان مظالم کی Stories سے خالی تھیں بلکہ اس کے برعکس ان چینلز پر شام کے حالات پر تجزیئے، تبصرے اور خبریں نشر کی جا رہی تھیں۔

اہم بات۔۔۔۔۔۔۔
ایک اسرائیلی صحافی ہارتیز کے لکھے آرٹیکل کے بلاگ میں ایک اسرائیلی عہدیدار کہتا ہے کہ لڑائی کے اس راؤنڈ میں ہم نے ممکنہ طور پر تمام فوائد حاصل کر لئے ہیں، اس مرتبہ اسرائیل نے غزہ میں زمینی حملہ نہیں کیا، حماس کی تنصیبات، شخصیات کو نشانہ نہیں بنایا اورنہ ہی اس کی حکومت کوگرانے کی کوئی کوشش کی گئی، اسرائیل کی پوری احتیاط کے ساتھ یہ کوشش رہی کہ حماس کو لڑائی میں نہ گھسیٹا جائے، اس کے نتیجے میں حماس اس لڑائی میں بالکل کنارے پر رہی، لڑائی کا حصہ بنی اور نہ ہی کسی گروپ کو لڑائی سے روک سکی، حالیہ منظرنامہ اس وقت خطرناک صورتحال اختیار کر لیتا اگر حماس بھی اسلامک جہاد کے ساتھ جنگ میں شریک ہو جاتی، اگر اسلامک جہاد سے لڑائی مزید کچھ دن جاری رہتی تو حماس کے کارکنوں کی طرف سے اسکی قیادت پر دباؤ میں اضافہ ہو جاتا کہ وہ اسرائیل کیخلاف جاری جنگ میں اسلامک جہاد اور پاپولر کمیٹی کو تنہا نہ چھوڑے۔

ایک معروف یہودی صحافی یوری ایونری اپنے کالم میں لکھتا ہے کہ غزہ پر حماس کی حکمرانی ہے اسرائیل حکومت اسکا یہ آئینی حق تسلیم نہیں کرتی لیکن ابھی تک ہی تسلیم کیا جاتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں وقوع پذیر ہونے والے کسی بھی معمولی واقعہ کی ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے چاہے وہ لڑائی کے اس راؤنڈ میں شامل نہیں ہوئی یا نہیں۔ قبل ازیں اس نے ہر اسرائیلی جارحیت کا دفاع کیا ہے لیکن اس مرتبہ جنگ میں حماس نے دوری اختیار کی، اس حقیقت کی ایک جھلک اسرائیلی ٹی وی سے ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں بھی دیکھنے کو ملی، ایسا کیوں ہوا، درحقیقت حماس اخوان المسلمین کے ساتھ رابطے میں ہے، حماس پر اخوان کی طرف سے دباؤ تھا کہ وہ فلسطین میں الفتح سے ملکر حکومت تشکیل دے اور پی ایل او میں شمولیت اختیار کرے، ایسے موقع پر اس کا اسرائیل سے الجھنا اس کی تمام کوششوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہو گاجبکہ دوسری طرف اسلامک جہاد کا ایران سے قریبی تعلق ہے اور سعودی عرب و مصرسے اتنی ہی دور۔ (جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 150211
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش