0
Wednesday 4 Apr 2012 00:36

حماس الفتح نہیں بنے گی(۱)

حماس الفتح نہیں بنے گی(۱)

تحریر:زاہد مرتضٰی 

وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں صرف اسرائیل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے اپنے خفیہ مشنز اور اپنے بموں کے ذریعے ماورائے عدالت قتل کی وارداتیں کرا سکتا ہے، ایسا عمل اخلاقی حدود کی پامالی کے علاوہ کچھ نہیں، قتل قتل ہے اس قبیح فعل پر زیادہ عرصے تک پردہ نہیں ڈالا جا سکتا، کوئی شخص اگر انفرادی طور پر اس عمل کو انجام دیتا ہے تو بہت ہی بری بات ہے لیکن اگر کوئی ریاست قتل جیسے گھناؤنے فعل کو ریاستی پالیسی بنا لے تو یہ کہیں بدتر عمل ہے۔ اسرائیلی نہ صرف قتل جیسے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں بلکہ ان کے رہنماؤں کے بقول وہ اس قبیح عمل کو قومی افتخار اور باعث نشاط سمجھتے ہیں۔ 

اسرائیلی فلم میکرز آج کل ایک کامیڈی فلم پر کام کر رہے ہیں، فلم کا موضوع دوبئی میں حماس کے کمانڈر محمودالمحبوس کے ہوٹل کے ایک کمرے میں قتل کی واردات پر مشتمل ہے، اس قتل میں ملوث موساد کے ایجنٹس مختلف مغربی ممالک کے ’’کلونڈ‘‘ پاسپورٹس پر دوبئی داخل ہوئے تھے، قابلِ غور بات یہ ہے کہ وہ ایسے فعل کو ایک مزاحیہ کھیل تصور کرتے ہیں۔ سوچئے کیا اس طرح کی دہشتگردی کی وارداتیں ایک مزاحیہ کھیل ہیں؟۔ امریکی و مغربی حکومتیں اسرائیل کی قانون شکنی پر جس ردعمل کا اظہارکرتی ہیں وہ بھی ایک عجیب مذاق ہے بالخصوص لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قافلے پر بیروت میں حملہ پر کسقدر شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا، ابتدائی طور پر دمشق کو اس واقعے میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی جو ایک فاش غلطی تو تھی ہی لیکن ساتھ ساتھ اپنے دوہرے معیارات کا ثبوت فراہم کر دیا۔

ان ممالک نے کبھی بھی ان چار ایرانی سائنسدانوں کی شہادت پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا جن کے بارے میں شواہد ہیں کہ ان کی شہادت کا باعث بننے والے بم اسرائیل ساختہ تھے لیکن جب پچھلے دنوں میں اسرائیل سفارت کاروں پر دہلی، جارجیا او رتھائی لینڈ میں حملے ہوئے تو یہ واقعات عالمی خبروں اور تبصروں کا موضوع بن گئے۔ ناجائز اسرائیلی ریاست 1950ء سے فضائی حملوں، میزائل حملوں، کاربم دھماکوں، پارسل بموں، سنائپرز اور زہرخورانی کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے پوری دنیا میں اپنے ظالمانہ اور دہشتگردانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

پی ایل ایف کے کمانڈر ودی حداد کو زہریلی چاکلیٹ کے ذریعے مار دیا گیا، حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جناب عباس موسوی کو اہلخانہ سمیت میزائل حملے، حزب اللہ کے کمانڈر حماد مغنیہ کو کاربم دھماکے، اسلامک جہاد کے انجینئر فتحی شقاقی کو فون بم دھماکے میں شہید کیا گیا، حماس کے روحانی سربراہ شیخ یاسین، عبدالعزیز رانتیسی کو بھی میزائل حملے میں شہید کر دیا گیا، حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل کو زہر دیا گیا لیکن امریکی صدر کلنٹن کے دباؤ پر اس زہر کا تریاق کینیڈین پاسپورٹ پر سفر کرنے والے اپنے ایک ایجنٹ کی رہائی کے بدلے فراہم کیا جس سے انکی جان بچ سکی۔ 

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل کی ظالم و جابر حکومت اپنی دہشت گردانہ پالیسی پر آج بھی عمل پیرا ہے، صہیونی ریاست کے ناجائز قیام سے لیکر آج تک لبنانی، فلسطینی، ایران اور دیگر عرب مجاہدین کی ایک طویل فہرست ہے جو اس ریاست کے دہشتگردانہ عزائم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ 1983ء میں اسرائیل ڈیفنس فورس کے سابق چیف آف سٹاف جنرل رافل ایتان نے کہا تھا کہ جب ہم فلسطین کی سرزمین پر قبضے کا معاملہ نمٹا لیں گے تو عربوں کی حالت شیشے کی بوتل میں بند ہراساں ہو کر بھاگنے والے کاکروچوں کی طرح ہو گی، اسرائیل وزیردفاع ایہود باراک نے ایک مرتبہ عربوں کو مگرمچھ سے تشبیہہ دی۔ یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جس کا مشاہدہ ہم آج کل غزہ کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کر رہے ہیں، غزہ جہاں 15لاکھ سے زائد فلسطینی بچے، خواتین اور بوڑھے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں قید ہیں اور اسرائیلی فوج جب چاہے انہیں اپنی شوٹنگ پریکٹس کے لئے استعمال میں لے آتی ہے۔ 

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو مارچ 2012ء کے پہلے عشرے میں امریکہ میں صدر اوبامہ سے ملاقات، جس میں دونوں کے درمیان گفتگو کا مرکزی نقطہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ممکنہ اسرائیلی حملہ تھا، میں امریکی صدر کو ایران پر حملے کیلئے قائل کرنے میں ناکام رہا، یوں کہا جا سکتا ہے اور بعض مبصرین نے ایسا کہا بھی ہے کہ نیتن یاہو اپنے جنگی پلان کی امریکہ سے منظوری حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اس ناکامی کا مزہ چکھنے کے بعد اسرائیل آمد کے دو دنوں بعد غزہ پر چڑھائی کا حکم دے دیا۔ اسرائیل کی تازہ وحشت ناک بمباری میں 26فلسطینی بچے، بوڑھے، خواتین اور جوان شہید جبکہ 100 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اسرائیلی فضائیہ نے معاہدہ جنگ بندی کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پاپولر مزاحمتی کمیٹی (PRC) کے سیکرٹری جنرل زوہیر القیسی کو میزائل حملے کا نشانہ بنایا جس سے ان کی شہادت واقع ہو گئی۔ جب زوہیر کی گاڑی کو نشانہ بنایا تو ان کے ساتھی نابلوس کے رہائشی جو حال ہی میں اسرائیل قید سے رہا ہوئے اور انہیں اسرائیل سے جلا وطن کر دیا گیا تھا بھی سفر کر رہے تھے۔ اسرائیل نے دوسرے روز اسلامک جہاد کے رہنماؤں عبید الغرمابی اور محمد ہرارہ کو شہید کر دیا۔ 

"پاپولر مزاحمتی کمیٹی" غزہ میں سب سے چھوٹا جہادی گروپ ہے ۔ زوہیر چھ ماہ قبل اس وقت کے PRC کے رہنما کمال نیرب کی اسی طرح کے اسرائیلی حملے میں شہادت کے بعد اس منصب پر فائز ہوئے تھے۔ ان کی تعیناتی کو کئی ماہ تک خفیہ رکھا گیا تھا۔ PRC نے حماس سے مل کر کچھ عرصہ قبل اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو غزہ بارڈر کے قریب ایک جھڑپ کے دوران اغواء کر لیا تھا۔ جس کے بدلے میں چند ماہ قبل اسرائیلی جیلوں سے 1027 فلسطینی قیدیوں کو رہائی ملی تھی۔ اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی سالوں بعد رہائی جہاں مزاحمتی گروپ کی فلسطین میں قدروقیمت میں اضافہ ہوا وہیں پورے عالم عرب اور مسلم دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ بلا شبہ PRC کا یہ اقدام اسرائیل کے منہ پر ایک زبردست طمانچہ تھا۔ اسرائیل کی طرف سے 2008ء میں غزہ پر مسلط کردہ 23روزہ جنگ بھی جس میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہو گئے تھے اپنے مغوی فوجی گیلاد شالیت کو رہا نہ کرا سکا تھا۔ (جاری ہے) 

خبر کا کوڈ : 150200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش