0
Wednesday 25 Nov 2009 13:55

عراق میں انتخابی قوانین

عراق میں انتخابی قوانین
آر اے سید 
عراق میں آئندہ انتخابات کےلئے جنوری دو ہزار دس کی تاریخ مقرر کی گئی ہے عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد یہ دوسرے پارلیمانی انتخابات ہونگے جو عراق کی پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کے مطابق منعقد کئے جائیں گے عراق کے ان انتخابات کے لئے قانوں سازي کا کام تیزی سے جاری ہے اور اس حوالے سے عراق کی پارلیمنٹ میں نئے قوانین کے حوالے سے بہت زیادہ گرمجوشی پائی جاتی ہے ۔ عراق کے قانون کے مطابق پارلیمنٹ نئے قوانین کا مسودہ تیار کرکے حتمی منظوری کے لئے صدارتی کونسل کو پیش کرے گی صدارتی کونسل کی اکثریت کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے بھیجے گئے مسودے کو ویٹو کرکے اسے دوبارہ پارلیمنٹ میں بھیج دے ۔عراق کی پارلیمنٹ نے نئے انتخابی قوانین کے حوالے سے ایک مسودہ صدارتی کونسل کے لئے تیار کیا تھا لیکن ابھی یہ باقاعدہ صدارتی کونسل میں زیر بحث ہی نہیں آیا کہ صدارتی کونسل کے ایک رکن اور عراق کے دو نائب صدور میں سے ایک طارق ہاشمی نے آئینی اور قانوں پہلوؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے اسے ویٹو کرنے کا اعلان کردیا۔ پارلیمنٹ نے طارق ہاشمی کی طرف سے ویٹو کرنے کے اس اقدام کو نہ صرف غیر قانونی بلکہ اسے عراق میں جاری جمہوریت کے راستے میں ایک رکاوٹ قرار دیا۔عراق اور مشرق وسطی کی سیاست پر نظر رکھنے والے بہت سے تجزیہ کاروں نے طارق ہاشمی کے اس اقدام کو انتہائی معنی خیز قرار دیا ہے ۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق طارق ہاشمی کا سیاست میں آنا اور عراق میں ایک اقلیتی آبادی کی نمائندے کی حیثیت سے عراق کے آئینی مسائل میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینا اور مختلف مسائل کو متنازعہ بنانا عراقی عوام کے کہنے پر نہیں بلکہ بیرونی اشاروں پر انجام پارہا ہے ۔عراق پارلیمنٹ کے نئے قوانین کو جب طارق ہاشمی نے ویٹو کیا تو علاقائی ذرائع ابلاغ نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا کہ طارق ہاشمی کے حالیہ فیصلے میں امریکہ سمیت سعودی عرب اور اردن کی ایما شامل ہے ۔ عراق میں امریکی فوجی موجودگي تو سب پر واضح ہے لیکن عراق کے داخلی معاملات میں سعودی عرب نے بھی اتنی کھل کر مداخلت کی ہے کہ اب یہ کوئي ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے۔ عراق کے اعلی حکام نے کئی بار اس بات کا اظہار کیا ہے کہ عراق کی بدامنی میں سعودی عرب کا ہاتھ ہے ۔سعودی عرب عراق میں دو گروہوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کررہا ہے ایک گروہ وہ انتہاپسند سلفی ہیں جو عراق میں سعودی عرب کی باقاعدہ لابی سمجھے جاتے ہیں یہ سلفی گروپ سعودی اشاروں پر عوامی سیاست کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھی باقاعدہ شریک ہوتے ہیں عراق کے آگاہ ذرا‏ئع کئی باراعلان کرچکے ہیں کہ عراق میں مساجد اور مذہبی مقامات میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیاں میں یہ گروپ سب سے زيادہ ملوث ہے ۔عراق میں موجود دوسرا گروپ ڈکٹیٹر صدام کی باقیات ہیں جو اب بھی بعث پارٹی کے نام سے سرگرم عمل ہیں ۔ بعث پارٹی کے دہشت گرد امریکہ کے ساتھ ساتھ سعودی پےرول پر بھی ہیں وہ امریکی اور سعودی اشاروں پر ہر طرح کی کاروائی انجام دینے کے لئے تیار ہیں ۔ بعث پارٹی کئی عشروں تک عراق پر بلاشرکت غیرے قابض رہی ہے وہ عراق کی داخلی سلامتی کے حوالے سے تمام باریکیوں سے واقف ہے یہی وجہ ہے کہ بعث پارٹی عراق کے سلامتی کے مسائل پر چن چن کرحملے کرتی ہے سعودی عرب نے عراق کے اس انسانیت دشمن گروپ پر بھی دست شفقت رکھا ہوا ہے اور یہ گروہ عوامی اجتماعات ، سیکورٹی فورسز اور حساس مقامات میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے ۔سعودی عرب اور بعض دوسرے عرب ممالک کی عراق میں فوجی اور سیاسی مداخلت اسقدر بڑھ گئی ہے کہ قاہرہ میں ہونے والے عرب ممالک کے وزرائے قانون کے پچیسویں اجلاس میں عراقی نمائندے نے کھلم کھلا یہ مطالبہ کیا ہے کہ عراق کے ہمسایہ ممالک دہشت گردوں پر قابو پانے کے لئے اپنی سرحدوں کو کنٹرول کریں، اجلاس میں شریک عراقی وفد نے عرب ممالک سے کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو اپنے ملکوں میں پناہ بھی نہ دیں۔عراق کے وزير اعظم نوری مالکی نے تو تنگ آکر ایک انٹرویو میں تمام سفارتی تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہ تک کہا ہے کہ بعض عرب ممالک عراق کا سیاسی اور جغرافیائی نقشہ بدلنا چاہتے ہیں ۔عراقی پارلیمنٹ میں فضیلت پارٹی کے نمائندے حمیداوی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ بہت سے عرب ممالک اپنے داخلی انتشار اور اندرونی بحرانوں سے توجہ ہٹانے کے لئے عراق کے سیاسی حالات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور جہاں بس چلنا ہے عراق کے سیاسی استحکام اور جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کے لئے منفی کاروائیوں سے بھی دریغ نہیں کرتے۔حقیقت یہ ہے کہ بہت سے عرب ممالک جہاں بادشاہتیں قائم ہیں اور غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے عوام پر حکومت کی جاری ہے وہ اس بات کو تحمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ان کے ہمسایہ ایک عرب ملک میں جمہوریت پروان چڑھے لہذا ان کی پوری کوشش ہے کہ عراق میں ایسا نظام مضبوط نہ ہو جو جمہوری تقاضوں کو پورا کرے کیونکہ ایک جمہوری عراق ان عرب ممالک کے عوام کے لئے نمونہ بن سکتا ہے جس کا منطقی نتیجہ عرب شیوخ کی بادشاہتوں کے خاتمے پر منتج ہوسکتا ہے ۔عراق کے ہمسایہ عرب ممالک کی ان تمام مداخلتوں کے باوجود عراق میں جمہوریت قدم بقدم آگے بڑھ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ عراق کے نائب صدر اور سعودی لابی کے نمائندے طارق ہاشمی کے غیر قانونی ویٹو کے باوجود عراقی پارلیمنٹ نے عراق کے نئے قوانین کو دوبارہ پارلیمنٹ میں زير بحث لایا۔عراق کے نئے انتخابی قوانین میں پارلیمنٹ نے قانون کا جو مسودہ تیار کیا ہے اس کے تحت عراق کی تمام سیاسی پارٹیوں اور اقلیتی گروہوں کے خدشات دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے انتخابی قوانین کے نئے مسودے کے مطابق عراق کا ہر شہری ملک کے کسی بھی حصے میں قیام پذیر ہو اپنے حلقے کے نمائندے کو ووٹ دے سکتا ہے اور عراق سے باہر مقیم عراقی شہری بھی اس حلقے کے نمائندے کو بیرون ملک سے ووٹ دے سکتا ہے جس میں وہ مہاجرت اختیار کرنے سے پہلے ساکن تھا مسودے میں اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا گیا کہ عراق کی بڑھتی ہوئی آبادی کی نسبت ہر صوبے میں پارلیمنٹ کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے گا اور ہر ایک لاکھ ووٹ پر اس علاقے میں پارلیمنٹ کی ایک نشست بڑھا دی جائے گی۔نئے قوانین میں کردوں کے ساتھ ساتھ عراق کی مختلف اقلیتوں کے مطالبات بھی مان لئے گئے ہیں اور ان سب کو ان کی آبادی کی مناسبت سے نمائندگي پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ایک طرف تو عراق کی تمام سیاسی جماعتوں اور اقلیتی گروہوں نے نئے قوانین کا خیر مقدم کیا ہے لیکن طارق ہاشمی کے حامی اراکین پارلیمنٹ نے اسمبلی کی کاروائي کا بائیکاٹ کیا لہذا اس بات کا امکان ہے کہ طارق ہاشمی نئے قوانین کو دوبارہ ویٹو کریں لیکن اس وقت اکثریتی شیعہ پارٹی اور کردوں کے درمیان نئے قوانین پر مکمل اتفاق رائے ہے ۔اگر صدارتی کونسل میں طارق ہاشمی نے قانون کے اس مسودے کو ویٹو بھی کیا تو پارلیمنٹ کی واضح اکثریت کے منظور کردہ اس قانون کو دوبارہ پارلیمنٹ میں لایا جائے گا جہاں پارلیمنٹ کی واضح اکثریت اسے پہلے ہی منظور کرچکی ہوگی۔بہرحال نئے قوانین کی باقاعدہ منظوری کے بعد جنوری دوہزار دس میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کی راہ ہموار ہوجائے گی اور عراق کے اندر اور باہر ان تمام طاقتوں کو شرمندگی کا منہ دیکھنا پڑے گا جو عراقی عوام کی رائے کے مقابلے میں اپنی مرضی کا نظام عراق پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔
خبر کا کوڈ : 15786
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش