0
Saturday 9 Jun 2012 18:09

امام خمینی رہ اور فلسطینیوں کی حمایت

امام خمینی رہ اور فلسطینیوں کی حمایت
تحریر:سید زکی عباس 

ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی اور روحانی پیشوا امام خمینی رہ  کی جدوجہد سے بھرپور زندگی پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ انہوں نے اسلام کو حیاتِ نو عطا کی اور مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کی راہ دکھائی۔ انہوں نے اپنے اعمال اور اقدامات سے مسلمانوں کو امت واحدہ کا جزو لاینفک ہونے کا یقین دلایا۔ امام خمینی رہ نے وقت کے یزید، ایرانی شاہ کے خلاف قیام کر کے جہاں امام حسین ع کی سنت کو زندہ کیا وہیں علاقے کی بد ترین حکومت کو زیر کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایران میں اسلامی حکومت قائم کی۔ 

تجزیہ کار بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ امام خمینی رہ کا اسلامی انقلاب ہی ہے جو تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اسلامی تحریکوں کی صورت میں مشرق وسطٰی اور جنوبی افریقہ کے ممالک میں جاہ و جلال سے نمودار ہوا ہے۔ آپ نے اتحاد بین المسلمین کا درس دیتے ہوئے فقہ جعفری میں نئی سوچ اور نئے نظریے کو آئمہ اطہار ع کی تعلیمات کی روشنی میں متعارف کروایا اور انفرادی سوچ میں رائج بےبنیاد اور غلط عقائد کو باطل قرار دیا۔ امام خمینی رہ کی شخصیت اور ان کے حالات حاضرہ اس بات کے عکاس ہیں کہ انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ ساتھ تمام امت مسلمہ کی بہتری اور بحالی کے لیے عملی جہاد کیا گویا امام خمینی رہ صرف ایران کے ہی لیڈر نہیں تھے بلکہ انھوں نے اپنی مدبرانہ اور مدلل سوچ اور دوراندیشی کے باعث امت مسلمہ کے مسائل کے دیرپا حل کے لیے قابل عمل تجاویز دیں اور ایسے اقدامات کیے جو آج بھی امت کے لیے مشعل راہ اور روشنی کی امید ہیں ۔ امام خمینی رہ کا ایک تاریخ ساز اور ہمیشہ یاد رکھا جانے والا کارنامہ فلسطین کے مظلوم بھائیوں سے اظہار یکجہتی میں ’’عالمی یوم القدس‘‘ منانے کا اعلان کرنا ہے۔ امام خمینی رہ کا یوم القدس منانے کا مقصد فلسطینی بھائیوں کی غریب الوطنی، مظلومیت اور تکالیف کو دیکھتے ہوئے استعماری طاقتوں کے خلاف عملاً قیام کرنا تھا۔ 

یہ رہبر کبیر کی مدبرانہ سیاست اور حالات حاضرہ پر کڑی نظر ہی تھی جس کے باعث انہوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کے فوراً بعد تہران میں اسرائیلی سفارت خانہ کو بند کر دیا اور اسرائیل سے ہر طرح کے سفارتی، ثقافتی اور تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔ اسرائیلی سفارت خانے کو ختم کر دینے کے بعد امام خمینی وہ پہلے مسلم لیڈر تھے جنھوں نے فلسطینی عوام کے حقوق کی جنگ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر لڑنے کا عملی آغاز کیا۔ ان کے حکم پر تہران میں فلسطینی سفارت خانے کا قیام عمل میں آیا۔ اسی دن سے جمعۃ الوداع کے دن کو عالمی یوم القدس سے تعبیر کر کے فرزندان توحید کو فلسطینی بھائیوں کے حقوق کی جنگ میں عملی طور پر شریک کر لیا گیا۔ 

یوم القدس منانے کا اعلان کرنے سے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا گیا کہ تمام مسلمان یک جان دو قالب ہیں اور ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتا۔ امام خمینی بین الاقوامی افق پر یہ دیکھ رہے تھے کہ نام نہاد مسلمان لیڈر فلسطینی عوام کے حقوق کی خاطر صرف زبانی جمع خرچ کے قائل ہیں اور ان کو اس مسئلے کے حل سے کوئی سروکار ہی نہیں اسی لیے آپ نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عملی اقدام کرتے ہوئے عالمی یوم القدس کا اعلان کیا تا کہ فرزندان اسلام اپنے دکھی بھائیوں کے حقوق کی بازیابی کی جنگ میں ان کے شانہ بشانہ شریک ہوں اور استعمار پر بھی ایک ہمہ جہت خوف طاری رہے اور وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے سوچنے پر مجبور ہو جائے۔ 

امام خمینی رہ کے جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دینے کے آغاز میں صرف ایران، پاکستان، لبنان اور فلسطین میں ہی یوم القدس منایا جاتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیاں اور اسلام دشمنی تمام مسلمانوں پر کھل کر آشکار ہونے لگی جس نے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا کی اور امام خمینی رہ کے یوم القدس منانے کے فیصلے کو سراہا جانے لگا حتی کہ آج امریکہ اور برطانیہ میں مقیم پاکستانی بھی صیہونیت کے خلاف یوم القدس بڑی شد و مد سے مناتے ہیں۔ 

یوم القدس کی روز افزوں کامیابی اور امت مسلمہ کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے سے صیہونیت پرست عناصر متفکر ہیں اس مسئلے کے حل کے لیے انھوں نے اپنی ازلی ڈھٹائی اور سازشی ذہن کی اختراع سے مسئلہ فلسطین کو بھی مسئلہ کشمیر کی طرح ایک جغرافیائی مسئلہ قرار دیا اور فلسطینیوں کو امت مسلمہ سے تن تنہا کرنے کی سازش کا آغاز کر دیا، بدقسمتی سے چند مفاد پرست مسلم حکمرانوں نے بھی استعمار کی سازش پر لبیک کہتے ہوئے مسلمانوں کے قبلۂ اول کو یہودیوں کی ملکیت قرار دیا اور مسلمانوں کے قبلۂ اول سے دستبردار ہو گئے۔ یہی وجہ تھی کہ امام خمینی کی دور رس نظروں نے اس سازش کا بہت پہلے سے ہی ادراک کرتے ہوئے عالم یوم القدس منانے کا اعلان کیا تھا تا کہ تمام امت مسلمہ باہم شیر و شکر ہو کر اور اخوت و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوم القدس منائے اور عالمی سطح پر مسلمانوں کے قبلۂ اول پر صیہونی قبضہ کے خلاف قیام کرے۔ 

امام خمینی نے امت مسلمہ کو یوم القدس کے ذریعے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر دیا جس کے ذریعے سے مسلم امہ صیہونیت کے لیے ہر دم لٹکتی تلوار کی مانند ہے یہی وجہ ہے کہ یوم القدس کی امریکہ اور اس کے حواری شدی مذمت کرتے ہیں اور امریکہ نواز حکومتیں اس دن کی کسی طور سرپرستی نہیں کرتیں مگر آج بھی ولی فقیہہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں ہر سال یوم القدس انتہائی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے اور صیہونیت کے علمبرداروں کو للکارا جاتا ہے۔ 

یہ امام خمینی کی ظالموں کے خلاف قیام کرنے کی حکمت عملی ہی تھی جس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے مشرق وسطٰی کے عوام آج بیداری کے اس دور سے گزر رہے ہیں جن کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ لاکھوں کروڑوں مظلومین نے مشرق وسطٰی میں قید و بند، ظلم و جو ر، سفاکیت، بربریت اور تشدد برداشت کرکے اپنے اپنے ممالک کے غاصب اور مطلق العنان بادشاہوں کو شکست فاش سے ہمکنار کیا اور آج صیہونیت پرست اور مطلق العنان حکومتوں کے مالک حمد بن ال خلیفہ، علی زین العابدین اور حسنی مبارک یا تو اپنی اپنی زندگیوں کے دن گن رہے ہیں، یا مذاکرات کی بات کر رہے ہیں یا مظلومین سے انصاف کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ 

مشرق وسطی میں مسلمانوں کی بیداری اور ایک نئے مشرق وسطٰی کے ظہور سے اس بات کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں کہ اب جلد ہی فلسطینی بھائی بھی اپنی سرزمین پر آزادی کا سانس لے سکیں گے اور اپنے ہی ملک میں بےگھر ہونے والے مظلومین کو بھی سکھ، چین اور امن کی زندگی نصیب ہو گی جن کی زندگیوں سے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے سکون مفقود کر دیا گیا ہے۔ 

یاد رہے کہ فلسطینی سرزمین پر دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ اور امریکہ کی سرپرستی میں یہودیوں کو آباد کیا گیا تھا اور فوراً ہی اقوام متحدہ سے نئی اسرائیلی ریاست کی منظوری بھی دلوائی گئی تا کہ فلسطینی عوام سے احتجاج کا حق بھی چھین لیا جائے۔ برطانیہ اور امریکہ نے نہایت چالاکی سے یہودیوں کو مظلوم اور بےگھر ثابت کیا کیوںکہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہٹلر نے بہت سے یہودیوں کا قتل عام کیا تھا جسے مغربی میڈیا نے ہولوکاسٹ کا نام دیا۔ اسی عالمی سازش کا قلع قمع کرنے کے لیے حضرت آیت اللہ امام خمینی نے عالمی یوم القدس منانے کا اعادہ کیا جسے ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبولیت اور عوامی تائید حاصل ہو رہی ہے۔

حضرت آیت اللہ خمینی رہ کے ظالم کے خلاف قیام اور مظلومین کا ساتھ دینے کے فلسفے کو فیض احمد فیض نے نہایت دلنشیں انداز میں اپنے ان اشعار میں بیان کیا ہے۔ ان اشعار کی میرے نزدیک اہمیت اور بھی زیادہ ہے کیوںکہ ان میں شاعر نے عوام کو جو ترغیب دی ہے ان اقدامات کا مظاہرہ ہم نے تیونس، مصر، الجزائر، لیبیا اور دیگر عرب ممالک میں تمام عالمی میڈیا پر دیکھا جس سے صیہونیت اور استعماری طاقتیں آج تک متحیر ہیں۔ فیض احمد فیض فرماتے ہیں کہ: 
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے، کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے 
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اْٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
اے ظلم کے ماتو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک 
کچھ حشر تو ان سے اْٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے
خبر کا کوڈ : 169652
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش