1
0
Wednesday 2 May 2012 10:06

اکیسویں صدی، شعبہ تعلیم کو درپیش چیلنج اور اساتذہ کا کردار

اکیسویں صدی، شعبہ تعلیم کو درپیش چیلنج اور اساتذہ کا کردار
تحریر: سید زکی عباس

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں استاد کی اہمیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے 1994ء میں پہلی دفعہ اساتذہ کا عالمی دن 5 اکتوبر 1966ء کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو (Unesco) اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO)کے اساتذہ کے مرتبے کے حوالے سے معاہدے کی یاد دہانی میں منایا گیا۔ تب سے یونیسکو نے اساتذہ کا عالمی دن منانے کے لیے 5 اکتوبر کا دن مختص کر رکھا ہے۔ گزشتہ سال پوری دنیا نے اس دن کو ’’بحالی کا آغاز اساتذہ سے‘‘ کے عنوان کے تحت منایا۔ 

عالمی یوم اساتذہ ان چند عالمی دنوں میں سے ایک ہے جسے دنیا کے مختلف ممالک مختلف تاریخوں میں مناتے ہیں۔ چند ممالک میں اس دن سرکاری طور پر تعطیل کا اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد اساتذہ کی اقوام عالم کے لیے خدمات کا اعتراف ہے۔ یہ ایک حیران کن بات ہے کہ مختلف ممالک میں یوم اساتذہ مختلف دن کو منایا جاتا ہے مگر تمام ممالک میں ایک بات مشترک ہے کہ اساتذہ کا دن انتہائی خلوص، محبت اور عقیدت سے منایا جاتا ہے اور اس عزم کی تائید کی جاتی ہے کہ آنے والی نسل کی پرورش کے لیے بھی اساتذہ کے کلیدی کردار کی ضرورت ہے۔ تمام ممالک میں اساتذہ کے دن کو خصوصی سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کر کے منایا جاتا ہے، تقاریر اور مضمون نویسی کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اساتذہ کی خدمت میں پھولوں کے ساتھ ساتھ مختلف بیش قیمت تحائف بھی دیئے جاتے ہیں۔
 
پاکستان میں بھی اساتذہ کا عالم دن 5 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ سوسائٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق گزشتہ سال یوم اساتذہ ’’سلام ٹیچرڈے‘‘ کے عنوان کے تحت منایا گیا۔ پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں یوم اساتذہ 5 ستمبر کو ڈاکٹر سروی پالی رادھاکرشن (Sarvepalli Radhakrishnan) کی سالگرہ کے دن کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ یاد رہے ڈاکٹر رادھا کرشن بھارت کے دوسرے صدر تھے۔ چین میں یوم اساتذہ منانے کا آغاز نیشنل سنٹرل یونیورسٹی سے 1931ء سے ہوا۔ اس کے ایک سال بعد 1932ء میں چین کی سنٹرل حکومت نے اس دن کو منانے کا آغاز کر دیا۔

 1939ء سے چین میں اساتذہ کے دن کو 27 اگست کو کنفیوژس کی ولادت کے دن کی مناسبت سے منایا جانے لگا۔ 1951ء میں حکومت چین کی جانب سے اساتذہ کا دن منانے کا قانون ختم کر دیا گیا۔ اس کے بعد 1985ء میں چین کی قیادت نے اساتذہ کے دن کو منانے کے لیے 10 ستمبر کا دن مختص کیا۔ مگر چین میں اب بھی لوگوں کی خواہش ہے کہ وہ 27 اگست کو اساتذہ کا دن ’’کنفیوژس کی ولادت‘‘ کے دن کی مناسبت سے منائیں۔ 

روس میں 1965ء سے 1994ء کے درمیان اساتذہ کا دن اکتوبر کی پہلی اتوار کو منایا جاتا تھا۔ 1994ء سے یہ دن عالمی یوم اساتذہ کی مناسبت سے 5 اکتوبر کو منایا جانے لگا، جبکہ امریکہ میں اساتذہ کے دن کے موقع پر غیر سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔ امریکہ میں یہ دن مئی کے پہلے پورے ہفتے کے دن منگل کو منایا جاتا ہے اور اساتذہ کے دن کی مناسبت سے تقاریب پورا ہفتہ جاری رہتی ہیں۔ تھائی لینڈ میں بھی اساتذہ کا دن حکومت کی طرف سے ایک قرارداد پاس ہونے کے نتیجے میں ہر سال 16 جنوری کو منایا جاتا ہے۔ تھائی لینڈ حکومت نے یہ قرار داد 21 نومبر 1956ء کو پاس کی اور تھائی لینڈ میں پہلا یوم استاد 1957ء میں منایا گیا۔ تھائی لینڈ میں اس دن سکولوں میں عام تعطیل دی جاتی ہے۔

ترکی کے پہلے صدر مصطفٰی کمال اتاترک نے اساتذہ کی خدمات کے اعتراف میں 24 نومبر کو اساتذہ کے دن کے طور پر منانے کا اعادہ کیا، جو آج تک جاری ہے۔ ملیشیا میں 16 مئی کو اساتذہ کے دن سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس دن کو ملیشیا میں ’’ہاری گرو‘‘(Hari Guru) کہا جاتا ہے۔
 
ایران میں بھی استاد کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ’’روز معلم‘‘ منایا جاتا ہے۔ روز معلم استاد مرتضیٰ مطہری کی شہادت کی مناسبت سے 1980ء سے ہر سال 2 مئی کو منایا جاتا ہے۔ استاد مرتضیٰ مطہری نے امام خمینی رہ کی جلاوطنی کے بعد اپنی ذمہ داریوں کا بہر طور ادراک کرتے ہوئے خود کو ایک معلم کی حیثیت سے متعارف کروایا اور اس کے ساتھ ساتھ خود کو حالات حاضرہ اور ایران کی سیاسیات سے بھی باخبر رکھا۔ یہی نہیں، آپ نے جو کچھ اپنے اساتذہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی، امام خمینی رہ اور آیت اللہ طباطبائی سے سیکھا ان کو تقاریر کے ذریعے زبان زدعام کیا اور انقلاب ایران کی راہ ہموار کی، آپ نے اپنا قلم ان موضوعات کے لیے اٹھایا، جو تین دہائیاں گزرنے کے بعد بھی امت مسلمہ کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ہم بجاطور پر کہہ سکتے ہیں کہ ایران کا انقلاب استاد مرتضٰی مطہری جیسی شخصیات کی علمی، ادبی اور فکری صلاحیتوں کا ہی مرہون منت ہے۔
 
یوں تو استاد مطہری نے بہت سے علمی، ادبی، فلسفے اور فقہ کے موضوعات پر اپنی معلومات کا شیرازہ بکھیرا ہے مگر یہاں ہم ان چند موضوعات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں جن پر بڑے بڑے مشتاق علماء بھی بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔ ’’انسانی زندگی میں غیبی امداد‘‘، ’’الہی انصاف‘‘، ’’پردے‘‘ اور ’’مادیت کی طرف میلان کے اسباب‘‘ ایسے ہی موضوعات ہیں جن پر استاد نے بہت خوبی سے روشنی ڈالی ہے۔
 
ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ استاد شہید مرتضٰی مطہری نے اپنی بصیرت اور دانائی سے خود کو امام خمینی رہ کے صحیح طالب علم کے طور پر پیش کیا۔ استاد مطہری نے اپنے گہرے مطالعے اور مشاہدے کے بنا پر امت مسلمہ کی حالت زار پر اپنی رائے ان الفاظ میں دی تھی جو آج کے مسلم معاشرے پر بھی اسی طرح صادق آتی ہے جیسے آج سے تین دہائیاں قبل۔
 
شہید مطہری کہتے ہیں: اس بات میں کسی طرح کا شک وشبہ نہیں ہے کہ مسلمانوں نے عظمت و افتخار اور حیرت انگیز اقتدار کے دن بھی گزار ے ہیں، اس لحاظ سے نہیں کہ انہوں نے دنیا کو مسخر کیا، اس پر حکومت کی ہے، ایسے حکمران تو بہت آئے، جنہوں نے دنیا کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا، اس پر اپنا تسلط جمایا اور کچھ دن حکومت کرنے کے بعد تاریخ کے قبرستان میں غائب ہو گئے، بلکہ اس لحاظ سے کہ انہوں نے اپنے اقتدار کے دنوں میں ایک عظیم الشان تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی اور یہ سلسلہ کئی صدیوں تک انسان کے لئے مشعل راہ بنا رہا اور آج بھی اسلامی تہذیب، انسانی تہذیب و تمدن کا ایک سنہرا باب شمار ہوتی ہے اور انسانی تمدن کو اس پر ناز ہے۔ مسلمان کئی صدیوں تک علم و سائنس، صنعت و فلسفہ اور ہنر و اخلاق میں استاد رہے ہیں اور دوسری قوموں نے اس کے خرمن سے خوشہ چینی کی ہے۔ آج یورپ کی خیرہ کندہ تہذیب جس نے سب کو حیران کر دیا ہے اور ساری دنیا پر مسلط ہو چکی ہے، مغرب کے منصف محققین کے اعتراف کے مطابق اس نے سب سے زیادہ اسلامی تہذیب و تمدن سے فائدہ اٹھایا ہے۔
 
شہید مطہری اپنی کتاب ’’خدمات متقابل اسلام و ایران‘‘ میں دشمنان اسلام کی سازشوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں: ہم چونکہ اسلام کے نام سے ایک آئین، مذہب اور نظریے کے پیرو ہیں اور اس میں خود قومیت کا عنصر موجود ہے، اس لئے ملت اور قومیت کے نام سے اس مذہب اور نظریے کے خلاف جو لہر شروع کی گئی ہے ہم اس کی طرف سے ’’بے پروا ‘‘ نہیں رہ سکتے۔
رہبر معظم آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای گزشتہ سال یوم معلم کے موقع پر اساتذہ سے خطاب کے دوران استاد مطہری کی خدمات کے اعتراف میں فرماتے ہیں کہ شہید مطہری کی شہادت کے تیس برس بعد مختلف طرح کی ترقی اور پیشرفت کے باوجود ان کے آثار آج کی ضروریات کے مطابق ہیں، جو اس عظیم انسان کے خلوص اور نیک نیتی کا مظہر ہے۔
 
ایک طرف تو استاد مرتضی مطہری جیسی تاریخ ساز شخصیت تاریخ کا دھارا بدل دیتی ہے تو دوسری طرف دنیاوی فائدے کے لیے پاکستان میں اساتذہ نے تعلیم جیسے مقدس شعبے کو کاربار بنا لیا ہے۔ طالب علم ایک خاندان کا فرد ہی نہیں ہوتا بلکہ پوری قوم کی امیدوں اور امنگوں کا مظہر ہوتا ہے۔ ایسے میں اساتذہ کی بہتر تربیت ہی انہیں عملی زندگی میں شعور و آگہی کے نئے نئے راستے دکھا سکتی ہے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد سے لے کر تاحال تعلیم کے شعبے کو ہر حکومت نے زبانی جمع خرچ کی حد تک رکھا ہے۔ ہماری اس بات کی تائید اکنامک سروے آف پاکستان میں موجود اعداد و شمار سے ہو جاتی ہے، جس کے مطابق بجٹ برائے سال07۔2006 میں شعبہ تعلیم پر حکومت پاکستان کی جانب سے جی ڈی پی (GDP) کا 2.5 فیصد، بجٹ برائے سال 08۔2007 کے لیے جی ڈی پی کا 2.47فیصد، بجٹ برائے سال 09۔2008 کے لیے 2.1 فیصد اور بجٹ برائے سال10۔ 2009 میں 02.0فیصد مختص کیا گیا۔
 
ان اعداد و شمار کو دیکھ کہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہر گزرتے سال کے بعد حکومت پاکستان شعبہ تعلیم کی جانب اپنی توجہ کم کرتی گئی۔ انہی حالات کے باعث تعلیم کے شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر نے خاطرخواہ ترقی کی ہے اور سرکاری تعلیمی اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ نجی شعبے کی تعلیم کے میدان میں ترقی نے تعلیم جیسے مذہبی فریضے کو بھی کاروبار بنا دیا ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کے طلبہ نجی شعبے کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کی سکت نہ رکھتے ہوئے معیاری تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں اور ملک و قوم کے لیے کارہائے نمایاں نہیں ادا کر پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی حکومت کے تعاون سے پاکستان میں نظام تعلیم کو بہتر بنانے والی پاکستان ایجوکیشن ٹاسک فورس کی ایک رپورٹ میں سال 2011ء کو تعلیمی ایمرجنسی کا سال کہا گیا ہے کہ پاکستان تعلیم کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں نبھانے میں اب تک ناکام رہا ہے اور تقریباً ستر لاکھ بچے پرائمری تعلیم سے محروم ہیں اور یہ تعداد لاہور شہر کی پوری آبادی کے برابر ہے۔ 

اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ دنیا میں جتنے بچے اس وقت پرائمری تعلیم سے محروم ہیں ان کی تقریباً دس فیصد تعداد پاکستان میں ہے اس طرح تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس ضمن میں حکومتی نااہلی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، مگر ہمیں یہ بات افسوس سے کہنی پڑتی ہے کہ آج کے اساتذہ میں طلبہ کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے وہ جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آتا، جو اساتذہ کے شعبے کا متقاضی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اساتذہ کو ان کی خدمات کا وہ صلہ نہیں دیا جاتا جن کی وہ ہم سے امید رکھتے ہیں۔ 

حکومت پاکستان، شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد، علم التعلیم کے ماہرین اور سول سوسائٹی پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امت مسلمہ کے دور رس مفادات کے تحفظ کے لیے طلبہ کی تعلیمی شعبوں کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں بھی رہنمائی کریں، تاکہ امت محمدیہ ص کی نئی پود عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر دیگر اقوام عالم کی سازشوں کا قلع قمع کر سکیں۔
خبر کا کوڈ : 158302
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

India
bahut khub bhai jaan.................. Allah apko iska badla de
ہماری پیشکش