0
Tuesday 3 Jul 2012 14:02

تاریخ کا خاتمہ یا تسلط کا خاتمہ؟

تاریخ کا خاتمہ یا تسلط کا خاتمہ؟
تحریر: احمد رضا ھدایتی
یقینا جب معروف امریکی تھنک ٹینک سیموئل ھنٹنگٹن دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے پھیلاو کو بین الاقوامی تبدیلیوں کا آخری نقطہ یا دوسرے الفاظ میں عالمی تاریخ کا خاتمہ قرار دے رہا تھا وہ ہر گز ایسا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اسکی پیشگوئی کے برعکس دنیا میں ایسی سیاسی تبدیلیاں رونما ہو جائیں گی جو بہت جلد اسکے اس نظریے کے باطل ہونے کو ثابت کر دیں گی۔ کیونکہ دنیا کی اقوام بہت جلد اس حقیقت کو درک کرنے لگیں کہ ھنٹنگٹن جس چھوٹی سی دنیا کی تاریخ کی بات کرتا ہے وہ صرف ان چند تسلط پسند ممالک تک ہی محدود ہے جو انتہائی بے بسی کے عالم میں سرمایہ دارانہ سوچ کو تمام دنیا کی تاریخ کے مترادف قرار دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
آج جناب ھنٹنگٹن کی جانب سے پیش کی گئی مساوات کے ایک جانب امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور بعض دوسرے مغربی اور مشرقی ممالک جیسی استکباری قوتیں موجود ہیں جبکہ اسکے دوسری جانب وہ ممالک پائے جاتے ہیں جنکا سالہای سال پر حاوی صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے اور وہ اب مزید استکباری نظام کی یکطرفہ اور ظالمانہ پالیسیوں کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اگرچہ یہ تمام ممالک اسلامی حکومت کی تشکیل کے خواہاں نہیں لیکن اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کی حق طلبانہ آواز کے سائے تلے ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے کہ نہ صرف مشرقی ممالک نے امریکہ کی سربراہی میں یونی پولر نظام سے مقابلے کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے بلکہ تسلط پسندی سے مقابلہ ایک عالمی ثقافت میں تبدیل ہو چکا ہے۔
عالمی استکباری نظام کے خلاف اس وسیع جدوجہد کے زمرے میں دنیا میں موجود 196 ممالک میں سے کم از کم 120 ممالک یعنی انکا 62 فیصد نان الائنڈ گروپ کے روپ میں امریکہ کی سربراہی میں مغرب کے ناجائز مطالبات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن چکے ہیں۔
ایران کے عظیم اسلامی انقلاب کی زندگی کے تیس سال گزر جانے کے بعد آخرکار اسلامی بیداری کی تحریک ایک عالمی تحریک میں تبدیل ہو چکی ہے اور دنیا میں نئی طاقتوں کے ابھر کر سامنے آنے کی بدولت یونی پولر نظام پر مبنی نظریہ اپنا رنگ کھو چکا ہے۔ آج دنیا کے اکثر ممالک اس قدر سیاسی بلوغ، شجاعت اور آگاہی کے حامل ہو چکے ہیں کہ ان میں امریکی نظر کے خلاف قراردادیں منظور کرنے کی جرات بھی پیدا ہو گئی ہے۔
اس وقت دنیا کے اکثر ممالک میں یہ جرات پیدا ہو چکی ہے کہ وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ اور جھجک کے اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی جانب سے غیرانسانی اور دشمنانہ رویے کی کھل کر مذمت کر سکیں اور اسکے خلاف قرارداد منظور کر سکیں۔ نان الائنڈ گروپ کی جانب سے ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کی حمایت میں مسلسل قراردادوں کی منظوری ایک معمول بن چکی ہے اور عالمی اقوام کے قیام کی حمایت اور آمریت و استبداد سے مقابلہ بین الاقوامی سطح پر کمترین مطالبہ گردانا جاتا ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 5+1 گروپ کے بعض رکن ممالک کیوں امریکہ کی سربراہی میں بے جا قسم کے موضوعات کو مطرح کرتے ہوئے اور مکمل طور پر یکطرفہ قراردادیں منظور کر کے ساری دنیا کے مقابلے میں کھڑے ہیں اور ایران کی ایٹمی سرگرمیوں سے متعلق اپنے غیرمنطقی اور نامعقول مطالبات پر اصرار کر رہے ہیں؟
وہ ایران جیسے ملک کی جانب سے پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو کیوں اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں لیکن سب سے پہلے ایٹم بم کو استعمال کرنے والے ملک یعنی امریکہ یا اسرائیل کی غاصب اور جنگ طلب رژیم کے پاس بڑے پیمانے پر ایٹمی، بائیولوجیکل اور مائیکروبک ہتھیاروں کی موجودگی کو کوئی خطرہ تصور نہیں کرتے؟
کیوں ان 9 ممالک کی ایٹمی تنصیبات کی جانچ پڑتال عمل میں نہیں لائی جاتی جنکے بارے میں کسی قسم کا شک بھی نہیں کہ وہ ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کے بعد انہیں ذخیرہ بھی کر چکے ہیں لیکن انہیں توقع یہ ہے کہ جب چاہیں ایران کی سرزمین کے ہر حصے کی انسپکشن کر سکیں؟
کیوں شام جیسے ملک میں جمہوریت کا قیام اس قدر اہم ہو جاتا ہے جبکہ ایسے ممالک بھی موجود ہیں کہ جنہوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے جمہوری اصولوں کے برخلاف اپنی مختصر سی تاریخ میں ایک بار بھی عوامی رائے کی جانب رجوع کرتے ہوئے عوام کو حکومتی امور میں شریک کرنے کی کوشش نہیں کی؟
کیوں تمامتر حقائق کے برخلاف اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف انسانی حقوق کا تازیانہ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ بحرین، سعودی عرب اور بہت سے دوسرے ممالک میں اس قدر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو یکسر نظرانداز کر دیا جاتا ہے؟
کس چیز نے خود فروش، مغرب نواز اور مرعوب عرب حکام کو اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ وہ جمہوریت کے بہانے اسلام دشمن عناصر کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے بیٹھے ہیں اور اپنی تمامتر مادی اور غیرمادی صلاحیتوں کو شام کی حکومت کو گرانے کیلئے بروئے کار لا رہے ہیں جبکہ انکے اپنے نظام جمہوری اصولوں سے کوسوں دور ہیں؟ اور ایسے ہی کئی دوسرے سوال اور کیوں اور کیوں اور کیوں؟
ان تمام سوالات کا جواب صرف ایک جملے میں پوشیدہ ہے اور وہ حقیقی محمدی ص اسلام سے دشمنی ہے۔ وہ اسلام جو سرمایہ دارانہ نظام اور عالمی استکبار کے مفادات کے خلاف ہے اور ظلم کا شکار آزادی پسند قوموں کے سوئے ہوئے ضمیر کی بیداری کا باعث بنا ہے۔
ان تمام باتوں باوجود موجودہ حالات ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ اور بعض ممالک کی جانب سے اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرنے کے ذریعے اقوام متحدہ کو ڈبل کراس کرتے ہوئے خود کو کل دنیا قرار دینے کی کوششوں پر مبنی پالیسی کے خلاف بین الاقوامی سطح پر اعتراض کی شدت کے باعث آئندہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے خلاف مغربی اقدامات نہ صرف موثر واقع نہیں ہوں گے بلکہ آہستہ آہستہ دوسرے میدانوں میں بھی انکے فریبکارانہ اور جھوٹے پروپیگنڈے پر مبنی ہتھکنڈے ناکامی کا شکار ہوتے جائیں گے۔
لہذا اقوام عالم کے قیام اور جدوجہد کی بدولت بہت جلد ہم اس حقیقت کے شاہد ہوں گے کہ دنیا کی اقوام کسی بھی بین الاقوامی ایشو پر امریکہ اور اسکے کٹھ پتلی ممالک کی مداخلت کو بالکل برداشت نہیں کریں گے اور اس طرح بین الاقوامی سطح پر مغرب کے ظالمانہ اقدامات سرمایہ دارانہ تسلط پسند نظام کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے اور اسکے زوال میں تیزی لائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 174407
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش