0
Tuesday 19 Jan 2010 11:08

سفارتی میدان میں امریکہ کی ایک اور ناکامی

سفارتی میدان میں امریکہ کی ایک اور ناکامی
آر اے سید
اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل کے مستقل اراکین اور جرمنی کے نمائندوں پر مشتمل پانچ جمع ایک گروپ کا نیویارک میں ہونے والا گزشتہ روز کا اجلاس بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا ہے۔ اسلامی جمہوریۂ ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف مزيد پابندیوں پر غور کرنے کے لئے یہ اجلاس منعقد کیا گيا تھا۔اجلاس سے پہلے امریکہ اور برطانیہ نے عالمی سطح پر ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ایک زبردست مہم چلائی تھی.لیکن نیویارک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق امریکہ،برطانیہ، فرانس،روس،چین اور جرمنی کے نمائندے کسی متفقہ فیصلے پر نہ پہنچ سکے اور زبردست دعووں اور کھوکھلی دھمکیوں کے بعد یہ اجلاس بھی بغیر کسی نتیجے کے اختتام پذیر ہو گيا۔روس کے نائب وزير خارجہ نے پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس کے اختتام پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اجلاس بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوا ہے اور ہم نے ایران سے مذاکرات کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہے۔یورپی یونین کے نمائندے نے بھی اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے اور آئندہ مذاکرات کے لئے بھی کوئی تاریخ طے نہیں ہوئی ہے۔امریکہ کے نمائندے اور نائب وزير خارجہ ولیم برنز تو پانچ جمع ایک گروپ کے اجلاس سے اتنے مایوس تھے کہ انہوں نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا اور صرف اتنا کہا کہ اجلاس کامیاب رہا۔عالمی سفارتی حلقوں میں پانچ جمع ایک کے حالیہ اجلاس کی ناکامی کو امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی ایک بہت بڑی شکست قرار دیا جارہا ہے امریکی حکام نے مختلف بیانات اور مختلف ملکوں کے دوروں کے دوران مہلت ختم ہونے کی دھمکیاں دیکر عالمی سطح پر ایک نفسیاتی جنگ شروع کی تھی.جس کا بنیادی ہدف یہ تھا کہ ایران ان دھمکیوں سے مرعوب ہو کر اپنا تمام افزودہ یورینیم امریکہ کے حوالے کر دے۔
اسلامی جمہوریۂ ایران نے آئی اے ای اے اور پانچ جمع ایک گروپ کی اس تجویز کو سراہا تھا اور کہا تھا کہ وہ تہران کے ایٹمی ری ایکٹر کے لئے اپنی کم افزودہ یورینیم کو بیس فیصد یورینیم سے تبادلے کے لئے تیار ہے۔ایران این پی ٹی کا رکن ہے اور آئی اے ای اے کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے لہذا آئی اے ای اے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایران کے تحقیقی ایٹمی ری ایکٹر کے لئے ایندھن کی فراہمی میں تعاون کرے۔ایران نے آئی اے ای اے کے سامنے دو تجاویز رکھی تھیں ایک یہ کہ ایران بیس فیصد افزودہ یورینیم خریدنے کے لئے تیار ہے۔دوسری یہ کہ اگر آئی اے ای اے یہ چاہتی ہے کہ ایران اپنی کم افزودہ یورینیم دے کر زیادہ افزودہ یورینیم سے اسکا تبادلہ کر لے تو ایران اسکے لئے بھی تیار ہے تاہم اسلامی جمہوریۂ ایران نے افزودہ یورینیم کے تبادلہ کے حوالے سے یہ شرط ضرور عائد کی تھی کہ یورینیم کے تبادلہ کا عمل ایران کے اندر انجام پائے۔اسلامی جمہوریۂ ایران کی طرف سے اس شرط کے سامنے آنے کے بعد امریکہ اور اس کے حواریوں کو اپنے مذموم منصوبوں پر پانی پھرتا نظر آیا تو انہوں نے سفارتی حلقوں میں ایران کے خلاف تشہیراتی مہم میں اضافہ کر دیا۔امریکہ اور برطانیہ نے ایران کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ اگر مذکورہ اجلاس سے پہلے ایران نے اپنی تمام یورینیم آئی اے ای اے کے سپرد نہ کی تو نیویارک کے اجلاس میں ایران کے خلاف پابندیوں میں مزید اضافہ کر دیا جائے گا۔اسلامی جمہوریۂ ایران کے وزير خارجہ نے بھی ان دھمکیوں کے جواب میں کہا تھا کہ امریکہ کی بجائے ہم پانچ جمع ایک گروپ کو الٹی میٹم دیتے ہیں کہ وہ تہران کے تحقیقاتی ری ایکٹر کے لئے بیس فیصد یورینیم فراہم کرے وگرنہ ایران یورینیم کی زیادہ افزودگی کا عمل اپنے ملک میں شروع کر دے گا۔اسلامی جمہوریۂ ایران کے حکام کے ان بیانات نے امریکی حکام کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ایران ان کی دھمکیوں اور الٹی میٹم کے دباؤ میں آجائے گا۔لیکن اسلامی جمہوریۂ ایران کی قیادت نے ایک بار پھر آزادی،استقلال اور اپنی خود مختاری کا عملی ثبوت پیش کرتے ہوئے سامراجی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔
نیو یارک میں منعقدہ پانچ جمع ایک کا یہ ناکام اجلاس حقیقت میں ایران کی حقانیت اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور امریکہ تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے اتحادیوں کو ایران کے خلاف مزيد سخت پابندیوں پر راضی نہ کر سکا۔اسلامی جمہوریۂ ایران آئی اے ای اے کے قوانین اور این پی ٹی معاہدے کے اندر رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔اب ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے آئي اے ای اے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فریضہ کو انجام دے اور امریکی ایما پر ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو متنازعہ بنا کر امریکی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہ کرے۔کتنی عجیب بات ہے کہ آئی اے ای اے،امریکہ اور سلامتی کونسل ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے بارے میں تو اتنا ہنگامہ کئے ہوئے ہیں جبکہ اسرائيل جسکا وجود اور ماہیت ہی تسلط اور جنگ پسندی پر استوار ہے،اسکے خطرناک ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئي کچھ نہیں کہتا۔سینکڑوں ایٹمی وار ہیڈز کی موجودگي غزہ اور لبنان پر حملے اور مختلف ملکوں کو دھمکی کے بعد کیا اس بات کی گنجائش رہتی ہے کہ ایسے خطرناک ملک کے پاس موجود ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کے بارے میں واضح لائحہ عمل مرتب نہ کیا جائے۔اسرائيل نہ تو این پی ٹی کا ممبر ہے اور نہ ہی آئی اے ای اے کو اپنی ایٹمی تنصیبات کے قریب پھٹکنے دیتا ہے۔ایسی صورتحال میں عالمی برادری کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی بجائے اسرائیل کے جنگي نوعیت کے ایٹمی پروگرام پر توجہ دے۔

خبر کا کوڈ : 18860
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش