0
Monday 18 Jan 2010 11:41

ایران کے ایٹمی سائنس دان کا قتل اور صیہونی ہاتھ

ایران کے ایٹمی سائنس دان کا قتل اور صیہونی ہاتھ
آر اے سید
تہران یونیورسٹی کے پروفیسر اور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر مسعود علی محمدی کو 12 جنوری منگل کے دن امریکہ اور صیہونی حکومت سے وابستہ ایجنٹوں نے ان کے گھر کے باہر بم کا دھماکہ کر کے شہید کر دیا۔ڈاکٹر مسعود علی محمدی کے قتل کی خبر سامنے آتے ہی حکومتی،عوامی اور بالخصوص علمی حلقوں میں اسکا سخت ردعمل سامنے آیا۔یہ خبر جس کے کانوں تک پہنچی اس نے شدید الفاظ میں اسکی مذمت کی۔اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر نے اس دہشت گردانہ واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی کاروائی کے طریقہ کار سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کاروائی صیہونیوں نے انجام دی ہے۔انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی ہے کہ ہمارے دشمن نہیں چاہتے کہ ایران ترقی و پیشرفت کی منازل طے کرے۔کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ایرانی قوم علم کی بنیاد پر پوری دنیا کو تسخیر کر سکتی ہے۔ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کا کہنا تھا کہ سائنس دانوں کو قتل کر کے علم اور ٹیکنالوجی کو ہم سے نہیں چھپنا جا سکتا۔ایران سائنسدانوں اور علمی ماہرین سے مالا مال ہے۔ہمیں اگرچہ اپنے سائنس دان کے مارے جانے کا بے حد افسوس ہے،لیکن سینکڑوں دوسرے سائنس دان ان کا علم اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔
اسلامی جمہوریۂ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر لاریجانی نے بھی صیہونی حکومت اور امریکہ کی جاسوسی ایجنسیوں کو تہران یونیورسٹی کے پروفیسر اور ایٹمی سائنسدان کی شہادت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ڈاکٹر لاریجانی نے پارلیمنٹ کے عام اجلاس میں کہا کہ اس واقعہ کے چند گھنٹے بعد ہی امریکہ میں سی آئی اے کی سرپرستی میں زندگي گزارنے والے ایک پست گروہ نے ایک بیان میں اس دہشتگردانہ حملے کی ذمہ داری قبول کی اور سی آئی اے اور صیہونی حکومت نے سمجھا کہ وہ اس طرح خود کو اس واقعہ سے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں۔ڈاکٹر لاریجانی نے کہا کہ چند روز پہلے یہ خبر ملی تھی کہ صیہونی حکومت کی جاسوس تنظیم موساد اور سی آئی اے تہران میں دہشتگردانہ کاروائی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔پارلیمنٹ کے اسپیکر نے کہا کہ امریکہ اور صیہونی حکومت کی جانب سے اس دہشت گرد گروہ کو اپنی دہشتگردانہ کاروائیوں کے لئے استعمال کرنا باراک اوباما کے لئے نئي رسوائی ہے۔
اسلامی جمہوریۂ ایران کی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری سعید جلیلی نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردی اور قتل و غارت،امریکہ کی کمزوری اور ناکامی کی علامت ہے اور اسطرح کی کاروائیوں کا ملت ایران کی ترقی و پیشرفت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور ایران جرات و پایداری کے ساتھ اپنے راستے پر گامزن رہے گا۔محمد سعید جلیلی نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ دھونس،دھمکی،فوجی حملے اور پابندیاں لگانے کی پالیسیاں بے اثر ہو چکی ہیں اور ان سے تبدیلیاں نہیں لائي جا سکتیں۔ایران کے سیکوریٹی کے ماہرین،اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر اور اسی طرح پارلیمنٹ کے اسپیکر کے بیانات سے با آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ایٹمی سائنس دان کے قتل میں غاصب صیہونی حکومت کا ہاتھ ہے۔
اسلامی ممالک کے حوالے سے غاصب صیہونی ریاست کی خفیہ ایجنسیوں کے ماضی کا اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ تہران کی حالیہ کاروائي میں بھی صیہونی ذہن کارفرما ہے۔غاصب صیہونی حکومت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد نے اس سے پہلے کئی اسلامی ملکوں میں اس طرح کی کاروائیاں انجام دی ہیں۔
امریکی صدر رچرڈ نیکسن کے دور میں جب مصر اور امریکہ کے درمیان بجلی پیدا کرنے کے لئے ایک ایٹمی ری ایکٹر خریدنے کا معاملہ طے پایا تو اسرائیل نے امریکہ پر اپنا دباؤ اسقدر بڑھا دیا کہ ایک سال کے اندر امریکہ نے اس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔اسی اسرائيل نے انیس سو باون میں ایک مصری سائنس دان سمیرہ موسی کو قتل کر دیا۔ساٹھ کے عشرے میں مصر نے زمین سے زمین تک مار کرنے کے میزائل کی خریداری کے لئے ایک جرمن سائنس دان کی مدد حاصل کی۔جس کے نام اور شخصیت کا صیہونیوں کو بھی علم ہو گیا۔کروج نامی یہ جرمن سائنس دان اس وقت سے آج تک لاپتہ ہے مصر کے باخبر ذرائع کے مطابق اس جرمن سائنس دان کو صیہونیوں نے اغوا کر اپنے راستے سے ہٹا دیا۔اسرائيل نے اسی طرح انیس سو اسی میں بھی ایک مصری سائنس دان سعید بدیر کو قتل کروایا تھا۔
اسرائیل نے سن انیس سو اکیاسی میں جس طرح تمام علاقائی اور بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کو تباہ کیا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
اسرائيل نے اسی طرح شام کے خلاف بھی ایک کاروائی کی تھی جب اس نے دو ہزار سات میں شام کے ایک تازہ تعمیر ہونے والے ایٹمی پلانٹ کو دیرالزور میں ہوائي حملے کا نشانہ بنایا تھا۔آج اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ تہران میں شہید ہونے والے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر مسعود علی محمدی کے قتل میں صیہونی ایجنٹ ملوّث ہیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں۔
غاصب صیہونی حکومت کا ماضي مسلمان سائنس دانوں کے اغوا اور مسلمان ممالک کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کے حوالے سے سیاہ و تاریک ہے۔وہ جب صدام جیسے اسلام دشمن شخص کے زير انتظام ایک ایٹمی پلانٹ کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اسلامی جمہوریۂ ایران کا ایٹمی پروگرام اور اسکے ایٹمی سائنس دان اس کے لئے کیسے قابل برداشت ہونگے۔غاصب صیہونی حکومت اپنے غیر قانونی اور ناجائز قیام سے لیکر آج تک ظلم و بربریت،تسلط پسندی اور توسیع پسندی کے راستے پر گامزن ہے اس کی ماہیت جنگ پسندی اور ناجائز قبضے پر استوار ہے اور اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ غاصب صیہونی حکومت کی تمام تر سرگرمیوں اور دہشت گردانہ کاروائیوں کو امریکہ،برطانیہ اور بعض مغربی ملکوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔اقوام متحدہ، سیکورٹی کونسل اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی اسرائیل کی غاصب اور ظالم حکومت کے حوالے سے ایک خاموش تماشائی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔اگر کبھی سلامتی کونسل یا کسی عالمی ادارے میں غاصب اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد منظور بھی ہو جاتی ہے تو امریکہ اور اسکے حواری یا تو اسے ویٹو کر دیتے ہیں یا اس کے لب و لہجے کو اتنا بے اثر کر دیتے ہیں کہ اسکا وجود اور عدم وجود برابر ہوجاتا ہے۔
مغربی ممالک اور سامراجی طاقتیں تو اپنی جگہ بعض عرب ممالک کے گھناؤنے کردار نے بھی غاصب صیہونی حکومت کو اتنا جری کر دیا ہے کہ اول تو اسکے خلاف کوئی قرار داد منظور نہیں ہوتی اور اگر کبھی منظور بھی ہو جائے تو اس پر عمل درآمد کے حوالے سے اسرائیل نے کبھی کسی عالمی قانون کی پاسداری نہیں کی۔
مظلوم فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے،فلسطینی شہریوں کے قتل عام اور اسلامی مقدسات کی توہین پر اگر عرب ممالک پر زور آواز اٹھاتے،تو آج نہ فلسطینیوں پر اس طرح کا ظلم ڈھایا جاتا اور نہ ہی متنازعہ دیوار تعمیر کر کے فلسطین کے حصّے بخرے کئے جاتے،اور نہ مسلمان ممالک کے خلاف اسرائیل اسطرح کی کاروائیاں کرتا۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج سعودی عرب اپنے ہمسایہ ملک یمن پر حملہ آور ہے اور وہاں کی آبادیوں کو زمینی اور ہوائی حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے لیکن اسرائيل کے مسئلے پر چپ سادھے ہوئے ہے۔
سعودی عرب اور اردن امریکہ اور اسرائیل کی ایما پر آئے دن اسلامی جمہوریۂ ایران پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں لیکن اسرائيل کے مسئلے پر ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 18804
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش