0
Monday 19 Nov 2012 21:26

سلام یاحسین (ع)

سلام یاحسین (ع)
تحریر: خرم میثم

آسمان پہ محرم کا چاند اپنے دامن میں اداسیاں سمیٹے طلوع ہو چکا ہے، یہ اداسیاں اُن اداسیوں کی غمازی کرتی ہیں جب امام حسین(ع) نے اپنے کنبے کے ساتھ مدینہ چھوڑا تھا، مدینے کی فضاؤں کو الوداع کہہ کر اپنے نانانبی پاک (ص) کے روضے سے روتے ہوئے جدا ہوئے تھے، یہ محرم کا چاند داستاں سناتا ہے ان دکھوں کی جو مدینہ سے کوفہ اور پھر کوفہ سے کربو بلا تک امام حسین (ع) کا ساتھ نبھاتے رہے، یہ چاند تاریخ کے ان اوراق کو پلٹتا ہے جن اوراق میں ظالم اور مظلوم قیامت تک دو حصوں میں تقیسم ہو کر رہ گئے۔
رسول رحمت محسن انسانیت (ص) کے دین کو پامال کرنے کی ہر کوشش بھرپور وسائل کے ساتھ بروئے کار لائی جارہی تھی، ایمان بیچنے والے، دین کی دین کے لبادے میں دھجیاں اڑانے والے اور فتوے فروخت کرنے والے سبھی امیرِ شام کے شرابی سپوت کی اطاعت میں فوقیت حاصل کرنے کیلئے آگے بڑھ رہے تھے، اسلام کی پوشاک پہن کر اسلام کو زک پہنچانے کیلئے یزیدی قوت چست چالاکی سے شریعت محمدی (ص) میں ردو بدل کرنے میں مشغول ہو چکی تھی ایسے میں پیارے نبی کا پیارا نواسہ حسین (ع) تڑپا اور اپنے نانا کے دین کو یزیدی پنجوں کی گرفت سے نجات دلانے کیلئے آگے بڑھا، نہ صرف آپ (ع) نے نانا کے دین کے دفاع کیلئے مدینہ چھوڑ کر کربلا کے چٹیل میدان کی طرف سفر کیا بلکہ ہر دور کے انسان کی آبرو، عزت اور ناموس کے تحفظ کیلئے آپ نے یزید سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا۔ آپ (ع) اپنے کنبے کے ساتھ قرآن کی حفاظت کیلئے نکلے۔ 

امام حسین (ع) ایک دور کی شخصیت نہیں، امام حسین (ع) کی زیست صرف درسی کتابوں میں ایک آدھ باب تک محدود نہیں بلکہ آپ(ع) قیامت تک آنے والے ہر باضمیر انسان کے رہبر ہیں بالکل اسی طرح جیسے بابا گرونانک نے اپنے ایک مرید سے کہا تھا تم حسین (ع) کا غم منایا کرو تو مرید نے جواب میں کہا میں حسین(ع)کو کیوں مانوں یا کیوں سوگ مناؤں وہ تو مسلمان کے پیشوا ہیں، اپنے مرید کا یہ جواب سنکر بابا گرو نانک نے مرید سے کہا میں تمہارا پیشوا ہوں میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ گھر جاؤ اور اپنی بہن سے نکاح کرلو اس پر مرید نے کہا میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں تو گرونانک نے پوچھا کیوں تم یہ کام کیوں نہیں کر سکتے؟؟؟ اس پر مرید نے گرو نانک سے کہا میرا ضمیر نہیں مانتا مرید کا یہ جواب سنکر بابا گرو نانک نے کہا اسی ضمیر کو تو حسین (ع) کہتے ہیں۔ 

امام حسین (ع) زندہ ضمیر انسانوں کے ذہنوں اور قلوب پہ حکومت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے آپ  اپنے 72 جانثار ساتھیوں کے ہمراہ نو لاکھ بےضمیر انسانوں سے جنگ پہ آمادہ ہوئے کیونکہ آپ نہیں چاہتے تھے کہ انسان کی انسانیت ہمیشہ کیلئے مر جائے آپ (ع) انسانیت کی شان بڑھانے نکلے تھے، آپ انسان کو انسانیت سکھانے نکلے تھے، آپ انسانیت کے رتبے کو بلند تر کرنے نکلے تھے اسی لئے ہر مذہب، ہر رنگ اور ہر نسل کا باضمیر انسان آپ سے جیون کے آداب حاصل کر کے جہاں بھر میں اچھائیوں کی علامت بنا ہوا ہے۔ دنیا کے ہر ادب میں امام حسین کا ذکر ہے، دینا کی ہر زباں پہ امام حسین (ع) کا قبضہ ہے، اسی لئے دنیا کے ہر دستور میں امام حسین کے بلندکردار کا رتبہ موجود ہے۔ 

جنگیں تو صدیوں سے رونما ہو رہی تھیں، مگر یہ جنگ کتنی عجیب جنگ تھی جہاں ایک طرف خام خیالی اور نیا اسلام بنانے کا دعویدار تھا تو دوسری طرف جلالی عزم کو لئے شریعت کا پاسبان تھا، ایک طرف سلطنت، دولت اور طاقت کا غرور تھا تو دوسری طرف فاقہ کش نبی (ص) کا چھوٹا سا نور سے لبریز کنبہ تھا، ایک طرف طاقت کے تکبر میں مست شرابی سالار اپنے ہجرے میں بیٹھا جنگی حکمت عملی سر انجام دے کر لوگوں کے ایمان خریدنے میں مصروف تھا تو دوسری طرف سالار نبیوں کے سلطان نانا کے مرقد سے دعا مانگ کر کربلا پہنچا تھا، ایک طرف یزید نو لاکھ کے لشکر کی آڑ میں چھپا تھا تو دوسری طرف حسین (ع) اپنے چھ ماہ کے بچے کے ساتھ میدان میں تھے، ایک طرف نیزے، تلواریں اور بھالے تھے تو دوسری طرف شوقِ شہادت لئے 72دل والے تھے اور پھر یہ 72شہدا نو لاکھ کے وسیع لشکر پر غالب آگئے، امام حسین (ع) سر کٹا کر بھی قیامت تک کیلئے زندہ باد، زندہ باد، زندہ باد ہو گئے اور یزید زندہ رہ کر بھی مردہ باد ہو گیا۔
 
صرف یہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ہر ایک شریف ذہن سے یزید اتنا گر گیا کہ آج تک کسی نے اپنے بیٹے کا یزید نام نہیں رکھا۔ یزید جنگ ہار چکا تھا، یزید کا تخت و تاج بکھر چکا تھا، یزید کے وسائل ریزوں میں بٹ چکے تھے، یزیدی فوج ملیا میٹ ہو کر تاریخ سے مٹ گئی، یزید کی قبر کا نام و نشان مٹ گیا....لیکن حسین (ع) آج بھی زندہ ہے حسین (ع) کا غم آج بھی زمانے بھر میں منایا جارہا ہے، فکرِ حسینی (ع) آج بھی وقت کے ہر اس یزید سے برسربیکار ہے جو انسانیت کے مرتبے کو ملیا میٹ کرنے پہ تُلا ہے، جو دین حق کی پامالی کا سبب بن رہا ہے۔ کربلا سے قبل روزِ عاشور ایک عام سا دن تھا مگر امام حسین (ع) کی عظیم قربانی کے بعد عاشور صدیوں پہ چھا گیا، اورحسین (ع)سوچوں پہ چھا گیا، حسین (ع) دھڑکنوں میں سما گیا آج بھی بلندیوں سے حسین (ع) کا پوچھو تو سناں، سناں حسین (ع) کا ذکر ملے گا، قدم، قدم، نشاں، نشاں حسین کی فتح نظر آئے گی، آج بھی اہلِ درد کے دلوں میں رواں دواں حسین ہی حسین (ع) مچل رہا ہے اور ہر اہل قلم کا حسین (ع) کو سلام ہے۔
خبر کا کوڈ : 213054
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش