0
Wednesday 9 Jan 2013 15:14

قاضی، بلندیوں کا راہی

قاضی، بلندیوں کا راہی
تحریر: ثاقب اکبر 

قاضی حسین احمد 2009ء میں جب جماعت اسلامی کی امارات کے چار ادوار گزار کر فارغ ہوئے تو ایک روز جامعہ الکوثر اسلام آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ انھوں نے مختلف مسالک کی جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ اپنے تجربات کے حوالے سے بتایا کہ بظاہر اتحاد و وحدت کی باتیں کرنے والے دل سے اس پر یقین نہیں رکھتے، اپنی جماعت اور مسلک سے بلند ہو کر بات نہیں کرتے۔ وہ اپنا درد دل کہہ رہے تھے
ع میں نے یہ جانا کہ گویا یہ ہی میرے دل میں ہے
مصرعے میں کچھ ترمیم کے ساتھ۔ محفل اپنے اختتام کو پہنچی تو میں نے قاضی صاحب سے گزارش کی کہ میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ اگلے روز صبح کا وقت طے پایا۔ میں اپنے بھائی سید نعیم الحسن کو لے کر اُن کی خدمت میں پہنچا۔ راستے میں نعیم بھائی نے پوچھا: بھائی جان! آپ قاضی صاحب سے کیا بات کریں گے۔؟ میں نے کہا: میں انھیں سب مسلمانوں اور ساری امت کے لیے کام کرنے کی دعوت دوں گا۔ نعیم بھائی نے ایک عجیب حیرت کی نظر سے میری طرف دیکھا، مگر کچھ کہا نہیں۔ 

خیر، قاضی صاحب سے ملاقات شروع ہوئی۔ ابتدائی گفتگو کے بعد میں نے ان کی خدمت میں عرض کی: قاضی صاحب! آپ جماعت کی ذمہ داریوں سے فارغ ہوگئے ہیں، آئیں اب کوئی بڑا کام کرتے ہیں۔ انھوں نے سر سے پاؤں تک مجھ پر نظر ڈالی اور کہنے لگے: کیا کام؟ میں نے کہا: آئیں ساری امت کے لیے کام کرتے ہیں، جماعت سے بالاتر ہو کر۔ بات مختصر کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا: جماعت میں میرے دوست ناراض ہو جائیں گے۔ میں نے عرض کی: انھیں چھوڑ کر نہیں، بلکہ انھیں ساتھ لے کر۔
کوئی گھنٹہ بھر ملاقات جاری رہی۔ ان کے چہرے پر ابتدائی گفتگو میں کچھ تشویش تھی۔ اپنی عمر، صحت، جماعت سب کے بارے میں انھوں نے بات کی۔ میں نے عرض کیا: امام خمینی نے آپ کی عمر میں انقلابی تحریک برپا کی تھی۔ بہرحال ملاقات کے اختتام پر ان کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ ان کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔ انھوں نے کہا: میں اپنے دوستوں سے بات کروں گا۔ اگلی ملاقات کے لیے وعدہ ہوا، انھوں نے کہا تھا کہ وہ رابطہ کریں گے۔
 
کچھ عرصے بعد پھر ایک تقریب میں ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے: آپ نے پھر رابطہ نہیں کیا۔ میں نے عرض کیا: وہ تو آپ نے کرنا تھا۔ انھوں نے کہا: آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ انھیں یاد آگیا۔ پھر اپریل 2012ء میں پشاور میں ان کے گھر پر ملاقات ہوئی۔ برادر صابر حسین اعوان سابق رکن قومی اسمبلی جماعت اسلامی، برادر کمیل عباس چیئرمین آئی او اور مرتضٰی (میرے بیٹے) میرے ساتھ تھے۔ ہم بظاہر تو 27 مئی کو پشاور میں ہونے والی کانفرنس ’’عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید‘‘ کے لیے دعوت دینے گئے تھے لیکن موقع غنیمت جان کر میں نے گذشتہ گفتگو کے حوالے سے پھر بات شروع کر دی۔ انھوں نے اس موقع پر’’جماعت اسلامی‘‘ کی محدودیتوں کو قبول کیا اور اس سلسلے میں اپنی خواہشات کا بھی ذکر کیا۔ میں نے محسوس کیا وہ پہلے سے زیادہ آمادہ ہیں۔ اگلے روز ان کا فون آیا، فرمانے لگے: آئیں ملتے ہیں، ایک اور دوست بھی آپ ہی کی طرح کی باتیں کرتے ہیں، میں نے انھیں بھی بلا لیا ہے۔ 

یہ ملاقات 277 ایف ٹین ون، اسلام آباد میں ہوئی، جہاں انھوں نے اپنا ادارہ فکروعمل قائم کر رکھا تھا۔ عمارت کے بالائی حصے میں ان کے صاحبزادہ آصف لقمان قاضی کے زیراہتمام ایک اسکول چل رہا تھا۔ بعدازاں اسکول کہیں اور منتقل کر دیا گیا اور اسی عمارت میں ملی یکجہتی کونسل کا سیکرٹریٹ قائم ہوا۔ اس ملاقات میں ڈاکٹر عابد رؤف اورکزئی موجود تھے۔ وہ اپنے ہمراہ مولانا عامر صدیق کو بھی لائے تھے۔ اسی ملاقات میں ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا فیصلہ ہوا۔ ابتدائی طور پر یہ طے ہوا تھا کہ محترم قاضی صاحب تمام دینی جماعتوں کے قائدین کو دعوت دیں گے۔ 21 مئی کو دینی جماعتوں کی کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ 

بعدازاں قاضی صاحب کا فون آیا کہ جماعت اسلامی کے امیر محترم سید منور حسن کی خواہش ہے کہ کانفرنس کی میزبانی جماعت اسلامی کرے۔ میں نے خوشی سے تائید کی۔ بالآخر 21 مئی ء2012 کو میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا فیصلہ ہوا اور بالاتفاق قاضی حسین احمد، جنھیں مرحوم کہتے ہوئے دل کو ہاتھ پڑتا ہے، کونسل کے نئے صدر منتخب ہوگئے۔ انھوں نے دو ہفتے کے اندر اندر مرکزی کابینہ کی تشکیل کے لیے اجلاس بلانے کا اعلان کیا۔ 27 مئی کو پشاور میں ’’عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید‘‘ کے عنوان سے کانفرنس کے بعد ملی یکجہتی کونسل کا اجلاس قاضی صاحب نے اسلام آباد میں 4 جون کو طلب کر لیا۔ اس میں جہاں دیگر اراکین کابینہ کا انتخاب عمل میں آیا۔ وہاں قاضی صاحب کی تجویز اور تمام پارٹیوں کے نمائندوں کے اتفاق آراء سے راقم کو ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب کر لیا گیا۔ قاضی صاحب نے مجھے ہی مرکزی سیکرٹریٹ کا انچارج مقرر کرنے کا اعلان فرمایا۔ بس پھر کیا تھا مجھے قاضی صاحب کی قربت اور محبت کے گراں قدر مواقع نصیب ہوئے۔
 
مجھے معلوم ہوا کہ امت اسلامیہ کی وحدت و اتحاد کے لیے ان کے جذبے اور ان کی شخصی اہمیت کے پیش نظر جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے اس سلسلے میں کام آگے بڑھانے کی ذمہ داری جماعتی طور پر ان کے سپرد کر دی تھی۔ یوں لگتا ہے کہ 2009ء میں میری ان سے ملاقات کے بعد انھوں نے یا ان کے کسی ساتھی نے اس سلسلے میں جماعت کی شوریٰ میں کام کی تجویز پیش کی ہوگی۔ بہرحال میرے لیے میری کتاب ’’امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی‘‘ کی تقریظ میں یہ لکھنا میرے لیے سند افتخار کی حیثیت رکھتا ہے: 

باہمی بے اعتمادی اور مغائرت کو ختم کرنے کے لیے اگر ہم اس دور کی طرف رجوع کریں، جب حضرت امام ابو حنیفہ(ر)، حضرت امام جعفر صادق(ع) کے حلقۂ درس میں بیٹھتے تھے اور سنی اور شیعہ ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے تھے اور مسلمانوں کی مساجد فرقہ بندی کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہوئی تھیں تو اختلافات اگر ختم نہیں بھی ہوں گے تو بہت کم رہ جائیں گے۔ ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم اسی لیے وجود میں لایا گیا ہے۔ اس کونسل کا احیاء کرنے میں برادرم ثاقب اکبر صاحب کا اہم رول ہے۔ اس وقت وہ ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں اور امت کے اتحاد کے ہمہ تن کوشاں ہیں۔
 
’’برادرم‘‘ کہنا، یہ ان کی بزرگواری ہے۔ وہ باپ کی طرح شفیق تھے۔ میں نے انھیں ایک کریم النفس انسان پایا۔ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی چمک تھی۔ وہ چوہتر برس میں جوانوں کی طرح چلتے تھے۔ ہمیشہ چاق و چوبند دکھائی دیتے تھے۔ دفتر میں آرام سے بیٹھ کر ڈاک پڑھتے اور بیشتر خطوط کے جواب اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ ہر روز تازہ خیالات اور تجاویز ان کے پاس ہوتیں۔ وہ اندر اور باہر سے ایک تھے۔ وہ واقعاً اتحاد امت کے نظریئے پر ایمان رکھتے تھے۔ اس اعلٰی الٰہی مقصد کے حصول کے لیے وہ ہر طرح کے ایثار کے لیے تیار رہتے۔ انھوں نے ملی یکجہتی کونسل کی مسئوولیت سنبھالی تو اکثر کہتے کہ اب اپنی عمر کا آخری حصہ میں اسی مقصد کے لیے صرف کروں گا۔ اگرچہ جماعت اسلامی کی امارت کے زمانے میں بھی وہ اتحاد امت کے لیے اپنے اسی جذبے اور ارمان کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ اس زمانے کی ان کی تقاریر اور اقدامات اس پر شاہد ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل کا ابتدا میں قیام جن دو تین افراد کا مرہون منت ہے، ان میں سے بھی وہ ایک تھے۔ متحدہ مجلس عمل کی تشکیل میں بھی ان کا کردار بنیادی تھا۔ اس کے پیچھے بھی ان کا جذبہ اتحاد امت ہی کارفرما تھا۔
 
گذشتہ برس تہران میں اسلامی بیداری کے حوالے سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں جماعت اسلامی، شباب ملی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد شریک تھا۔ پاکستان سے مختلف افراد نے اس عالمی کانفرنس سے خطاب کیا، لیکن جماعت اور اس سے وابستہ تنظیموں کی طرف سے کسی کو خطاب کی دعوت نہیں دی جا رہی تھی۔ میں نے کانفرنس کے میزبان اور مجمع بیداری اسلامی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر علی اکبر ولایتی سے گزارش کی کہ پاکستان سے جماعت اسلامی کا ایک وفد بھی شریک ہے۔ ان کے نمائندے کو بھی خطاب کی دعوت دیں۔ انھوں نے استفہامیہ نظروں سے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا کہ جناب قاضی حسین احمد کی جماعت کی بات کر رہا ہوں۔ وہ اب سمجھے اور پھر انھوں نے اس وفد کے نمائندے کو دعوت خطاب دی۔ جمعیت کے مرکزی صدر نے اس وفد کی نمائندگی۔
 
میں اس وقت متوجہ ہوا کہ قاضی حسین احمد کی شخصیت اپنی جماعت سے بھی بلند مرتبہ ہے۔ واقعاً ایک خدا پرست روح سرحدوں اور جماعتوں میں کب سماتی ہے۔ خدا پرست کا دل تو سب بندگان خدا کے لیے دھڑکتا ہے۔ ان کی قیادت میں عالمی اتحاد امت کانفرنس منعقد ہوئی، جو پاکستان میں اپنی نوعیت میں بے نظیر تھی۔ وہ عالمی اسلامی یکجہتی کونسل تشکیل دینا چاہتے تھے، اس کے لیے انھوں نے اسلام آباد میں سیکرٹریٹ قائم کرنے کے بارے میں راقم سے متعدد مرتبہ مشورہ کیا، وہ اس امت کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ وہ نبی رحمت (ص) کو اس امت کا محبوب کہتے تھے۔ وہ علامہ اقبال کی زبان میں اس امت کے بارے میں کہتے تھے ’’دلی دارد و محبوبی ندارد۔‘‘ ان کی یہ دعوت سینے میں اتر جاتی تھی۔ ’’آئیں قدر مشترک اور درد مشترک پر ایک ہوجائیں۔‘‘ ان کے بارے میں رسول اکرم (ص کا یہ فرمان بہت خوبصورتی سے صادق آتا ہے ’’نیت المومن خیر من عملہ‘‘ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے۔ وہ بلندیوں کے راہی تھے اور آخر کار بلندیوں کی طرف پرواز کرگئے۔
خبر کا کوڈ : 229531
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش