0
Sunday 18 Apr 2010 11:28

دشمنی کی اصلی وجہ

دشمنی کی اصلی وجہ
 آر اے سید
برقی بلب کی ایجاد کے وقت کسی کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ تھامس ایڈیسن جو بلب ایجاد کر رہے ہیں،اسکی وجہ سے دنیا اندھیروں سے اجالوں میں تبدیل ہو جائیگی اور آہستہ آہستہ اس میں استعمال ہونے والی برقی توانائی دنیا کا اہم ترین موضوع بن جائیگا۔بلب میں استعمال ہونے والی برقی رو آج زندگی کا جزو لاینفک بن چکی ہے۔اندھیروں کو اجالوں میں بدلنے سے لیکر بڑی بڑی فیکٹریوں اور کارخانوں کا وجود بھی اس برقی رو کا محتاج ہے۔آج انسانی زندگي سے بجلی کو نکال دیا جائے تو انسان غار کے دور سے بھی بدترین صورتحال سے دوچار ہوجائیگا۔
زیر زمین ذخائر مثلا" کوئلے، تیل و غیرہ سے بجلی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ پن بجلی اور ڈیموں کے ذریعے توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی،لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین ان ذخائر سے خالی ہو رہی ہے،یہی وجہ ہے کہ سائنس دانوں نے اس مسئلے کا حل ایٹمی ٹیکنالوجی میں تلاش کرنے کی کوشش کی۔
بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں دانشورون نے انرجی کا نیا ذخیرہ دریافت کیا،جو بجلی کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔انرجی کا یہ عظیم ذخیرہ ایٹم کو توڑنے سے وجود میں آتا ہے،لیکن حکومت امریکہ نے ایٹم کو توڑ کر اس سے حاصل ہونے والی توانائی سے ایٹم بم بنایا اور اس تباہ کن ہتھیار سے استفادہ کرتے ہوئے سنہ 1945ء میں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناکاساکی پر حملہ کر دیا،اس طرح ایٹمی انرجی پہلی بار انسان کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کی گئي۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دانشوروں اور ماہرین کی توجہ ایٹمی انرجی سے بجلی کی پیداوار پر مرکوز ہوئی،جس کے بعد دو عشروں کے درمیان یعنی سنہ 1966ء سے سنہ 1985ء کے درمیان کئی عدد ایٹمی بجلی گھر بنائے گئے۔اس وقت دنیا کے 32 ملکوں میں چار سو انتالیس ایٹمی بجلی گھر کام کر رہے ہیں۔امریکہ ایک سو چار ایٹمی بجلی گھروں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے اور ایٹمی بجلی گھروں سے وہ اپنے ملک کی 20 فیصد بجلی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔امریکہ کے بعد انسٹھ بجلی گھروں کے ساتھ فرانس دوسرے نمبر پر ہے ار وہ اپنے ملک کی اسی فیصد بجلی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے اور جاپان ایٹمی بجلی گھروں کے ذریعہ اپنے ملک کی ایک تہائی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ان ملکوں نے حالیہ دنوں میں اعلان کیا ہے کہ وہ ایٹمی بجلی گھروں کی تعداد میں مزيد اضافہ کر کے بجلی کی اپنی ضروریات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔دوسری طرف ترقی پذیر خاص طور پر چین،ہندوستان اور برازیل نے بھی اپنی ایٹمی بجلی میں اضافے کے لئے مخصوص پروگرامز ترتیب دیئے ہیں۔اس سلسلے میں مشرقی ایشیا اور یورپ کے ممالک دوسرے ملکوں کے مقابلے میں زیادہ فعال ہیں جیسا کہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی نے پیشگوئی کی ہے کہ سن دو ہزار بیس تک ایٹمی بجلی کی پیداوار موجودہ پیداوار سے دو گنا ہو جائے گی۔
اسلامی جمہوریۂ ایران نے بھی ایٹمی انرجی کی اہمیت اور فسیلی ایندھن کے محدود ذخائر کے پیش نظر پائیدار ترقی کے لئے ایٹمی انرجی سے استفادے کی ضرورت کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا ہے۔ایٹمی ٹیکنالوجی کے میدان میں ایران کی قابل دید ترقی سے یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ ایران اپنے ترقیاتی منصوبوں کو در پیش بجلی کی ضروریات کو ایٹمی انرجی سے پوری کر لے گا۔اس وقت ایران کے جنوب میں واقع بوشہر میں روس کے تعاون سے پہلا ایٹمی بجلی گھر بنایا جا رہا ہے،جس کی عنقریب تکمیل ہونے والی ہے یہ ایٹمی بجلی گھر روزانہ ایک ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایران کی پارلیمنٹ نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ بیس ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے لئے مزید ایٹمی بجلی گھر بنائے،اس پروگرام کے مطابق ایران کے ایٹمی انرجی کے ادارے نے جدید ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر شروع کر دی ہے اور اس سلسلے میں دوسرے ممالک کے ساتھ ملکر بھی ایران نے جدید ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کے لئے اپنی آمادگي کا اعلان کیا ہے۔
اس طرح اسلامی جمہوریۂ ایران ایٹمی ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے مقامی ماہرین پر بھروسہ کرتے ہوئے پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی سے استفادہ کے سلسلے میں ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کرنے کے لئے تیار ہے اور ایران نے اسی طرح ایجنسی کی نگرانی میں دوسرے ملکوں کو بھی پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے تجربوں کو منتقل کرنے پر آمادگي کا اعلان کیا ہے۔اس وقت اسلامی جمہوریۂ ایران ایٹمی ایندھن کے لئے یورینیم کی افزودگی کی ٹیکنالوجی حاصل کر کے جدید اٹامک فیول سائیکل کے حامل دس ملکوں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔
امریکہ کی طرف سے ایران کے ایٹمی پروگرام کی مسلسل مخالفت کی بنیادی وجہ اس اہم شعبے میں ایران کو ترقی و پیشرفت سے روکنا ہے،تاکہ وہ توانائی کے شعبے میں وہ خود کفیل نہ ہو سکے۔
وگرنہ امریکہ اور اسکے حواریوں کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ ایران ایٹم بم نہیں بنا رہا ہے،یوں بھی جو ملک ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اسکے پھیلاؤ کا مرتکب ہو چکا ہے اور وہ اسرائیل جیسی انسان دشمن ریاست کی جوہری ٹیکنالوجی میں بھرپور مدد کر رہا ہو،اسے کسی دوسرے ملک پر اعتراض کرنے اور اسے نشانہ بنانے کے لئے عالمی ایٹمی کانفرنسوں کے انعقاد کی کیا ضرورت ہے۔امریکہ اور اسکے حواریوں کا اصل مسئلہ ایران کا ایٹمی پروگرام نہیں ہے بلکہ اسے اس بات کا ڈر ہے کہ ایران جب اس شعبے میں خود کفیل ہو گیا اور اس نے دوسرے ملکوں کو اس ٹیکنالوجی کی فراہمی شروع کر دی تو امریکہ کی اجارہ داری ختم ہو جائیگی یہی وہ غم ہے جو ایران دشمنی میں بدل گيا ہے اور وہ امریکی حکام کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔
خبر کا کوڈ : 23904
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش